مقبوضہ جموں و کشمیر ایک طویل عرصہ سے بھارتی فوج کے پنجہ استبداد میں ہے‘یہاں غیر اعلانیہ کرفیو اورہر روز نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم نے نئے انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔مقبوضہ کشمیرمیں عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرکر دن دیہاڑے ''سرچ آپریشن‘‘ کے نام پر جہاں کشمیریوں کے مال واسباب کی لوٹ مار جاری ہے‘ وہیں چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال کیا جا رہا ہے۔حق خودارادیت کا نعرہ بلند کرنے والے ہزاروں کشمیری نوجوان‘بوڑھے اور بچے ٹارچر سیلوں میں ''جرم ضعیفی‘‘ کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ کشمیر میں آزادی اظہارِ رائے پر شب خون مار کر سوشل میڈیا پر پابندی عائد ہے۔ ہر طرف سڑکوں پربھارتی سکیورٹی فورسز کے جوانوں سے لدی سرکاری گاڑیاں نظر آتی ہیں۔ مقبوضہ وادی آج ایک عقوبت خانے کا منظر پیش کر رہی ہے‘ بھارتی فوج کے ہاتھوں جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اب ہو رہی ہیں‘ شاید ہی تاریخ میں کبھی ہوئی ہوں‘پیلٹ گنوں کے استعمال سے تحریک آزادی کے متوالوں کی بینائی زائل کی جا رہی ہے‘گولہ بارود سے تعلیمی اداروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے‘ لیکن سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ اقوام متحدہ ‘عالمی برادری اور او آئی سی کا اس ظلم و ستم کیخلاف کوئی موثر کردارتاحال دیکھنے کو نہیں ملا؛حالا نکہ اقوام متحدہ کا قیام بلاتفریق رنگ و نسل اور مذہب ہر قوم و ملک کے تحفظ اس کے حقوق کی پاسداری کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ جموں و کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور اس کے مسلم تشخص کے باعث قائداعظمؒ نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا‘ لیکن ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اس شہ رگ کو کاٹ کر بے دست و پا بنارکھاہے ‘جس کی ساری ذمہ داری اس ملک دشمن ٹولے پر عائد ہوتی ہے‘ جنہوں نے وطن کی مٹی سے غداری کرتے ہوئے ہمیشہ طاغوتی طاقتوں کا ساتھ دے کر امریکا کی باندی ہونے کا کردار ادا کیا ۔جنرل حمید گل مرحوم نے بھی تحر یک آزادی کیلئے جو کردار ادا کیا‘وہ تاریخ میں سنہرے حروف کے ساتھ درج ہے ۔آپ کہاکرتے تھے کہ''کشمیر کو آزاد کرانے کی خاطر اگر پاکستان کو 50 جنگیں بھی لڑنا پڑیں تو ہم اس کیلئے تیار ہیں‘لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ کی وفات کے بعد کشمیر کو کازکو جتنا کو نقصان پہنچا ‘وہ ناقابل بیان ہے۔جنرل حمید گل مرحوم حقیقی معنوں میں تحریک آزادی کے بے باک ترجمان تھے ‘یہی وجہ ہے کہ بھارت آج بھی اپنے اندر علیحدگی کی تحریکوں کا الزام جنرل صاحب پر لگاتا ہے۔
دوسری طرف کورونا ونا نے ان دنوں دنیا بھر میں جو تباہی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ اس سے کوئی ملک محفوظ نہیں۔ترقی یافتہ ممالک اس موذی وائرس کے آگے بے بس دکھائی دے رہے ہیں ۔ جموں وکشمیر میں بھی اس جان لیوا مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔صحت اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور لاک ڈائون سے نظام زندگی بری طرح تباہ ہو چکا۔کشمیریوں کی اذیتوں و تکلیفوں کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کو اپنے پیاروں کے جنازے میں جانے کی بھی اجازت نہیں۔مقام افسوس ہے کہ سلامتی کونسل کے آج تک کشمیر کے موجودہ حالات پر منعقد ہونے والے اجلاس بند کمرے تک ہی محدود رہے ہیں‘کیونکہ نہتے کشمیریوں کو سفاک بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے‘اگر مشرقی تیمور کو راتوں رات آزادی دلائی جا سکتی ہے‘سوڈان میں ایک الگ عیسائی ریاست کا وجود عمل میں لایاجا سکتا ہے ‘تو کیا بڑی وجہ ہے کہ کشمیر و فلسطین کو آزاد کرانے کی بات آئے تو ایکشن کی بجائے صرف قراردادوں پر ہی اکتفا کیا جا تا ہے ۔ دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک اور اقوام متحدہ نے مظلوم کشمیری و فلسطینی ‘ روہنگیائی ‘ شامی ‘ افغانی مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی مرتکب عالمی طاقتوں امریکا ‘ فرانس ‘ برطانیہ جنہوں نے بھارت و یہو د ہنود کو مسلمانوں پر ظلم ڈھانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ِغور ہے کہ کشمیریوں ‘ فلسطینیوںاور دنیا کے کونے کونے میں مقیم مجبور ومقہور مسلمانوں کی سسکیوں اور آہوں کا ہی یہ اثر ہے کہ آج پوری دنیا خاص طور پر خود کو سپر پاور کہلانے والا امریکا اس نہ نظر آنے والے وائرس کے آگے بے بس دکھائی دے رہا ہے۔
نریندر مودی کی پالیسیاں کشمیریوں پر قہر بن کر ٹوٹ رہی ہیں۔مودی سرکار آئے دن کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔بھارت کوئی بھی موقع اپنے سے ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا ہے کہ جس سے تحریک آزادی کو نقصان نہ پہنچتا ہو‘حال ہی میں کشمیرکے مسلم تشخص کے خاتمے کیلئے ہندوستان نے جدوجہد آزادی کے کچلنے کیلئے ڈومیسائل کے قانون میں تبدیلی کے ذریعے ایک اور وار کر دیا ہے‘ جسے جموں و کشمیر ری آرگنا ئزیشن آرڈر 2020ء کا نام دیا گیا ہے‘ جس کے تحت وادی میں5 ہزار ہندوؤں کو بسانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اعلیٰ سرکاری عہدوں سے بھی نوازا جائے گا اور کشمیریوں پر اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بند کر دئیے گئے ہیں۔غیر ریاستی افراد مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے آہستہ آہستہ بھارتی حکومت کی شہ پر کشمیریوں کے وسائل پر قبضہ کر لیں گے اور کشمیریوں کی زمینیں ہتھیانے میں یہ قانون انہیں سہولت فراہم کرے گا ۔ کشمیر میں اسرائیل ماڈل اپنا تے ہوئے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے اسرائیلی طرز کی بستیاں بسائی جا رہی ہیں‘ جس سے حکومتی مسلم دشمنی پالیسی عیاں ہو گئی ہے کہ آئندہ چند ماہ میں خطے کی مسلم آبادی کا تناسب بگاڑتے ہوئے کشمیریوں کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دیا جائے گا۔ 1948 ء میں لاکھوں فلسطینیوں کو ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیا۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کیلئے یہودی سرمایہ داروں نے بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کی تھی کہ فلسطین منتقل ہونے والے یہودی خاندان وہاں زمینیں خریدیں اور منظم طریقے سے اپنی بستیاں بسائیں‘مشہور یہودی اور صہیونی لیڈر تھیوڈور ہرتزل نے فلسطین میں اسرائیلی ریاست قائم کرنے کے لیے 1897ء میں صہیونی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ تھیوڈور ہرتزل کی صہیونی تحریک میں اس بات کو مقصود قرار دیا گیا تھا کہ فلسطین پر دوبارہ قبضہ حاصل کیا جائے اور ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کی جائے۔ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں ''اے اسرائیل‘ تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں‘‘۔
دراصل صہیونی اور ہندوتوا سوچ ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ صہیونی فلسطین کو فلسطینیوں اور ہندو برہمن ہندوستان و کشمیر سے مسلمانوں کا نام ونشاں مٹانے کے درپے ہیں۔اس میں بھی کوئی شک وشبے کی گنجائش نہیں کہ شہدا ء کے خون سے کشمیر کے دریائوں کا رنگین پانی پاکستان کی فصلوں کو سیراب کر رہا ہے‘ لیکن اب حکومتی معذرت خواہانہ پالیسیوں سے کشمیر کو کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے‘ اس سے قبل جونا گڑھ پر قبضہ کر کے ہندوستان میں ضم کر دیا گیا ‘ہم نے کیا کیا؟صرف وہی امن و برداشت و تحمل کی پالیسی پر قائم رہے ‘ بنگلہ دیش ہم سے جدا کر دیا گیا ‘پھر بھی ہم امن کی بانسری بجاتے رہے‘ دشمن ہمارے بخیے ادھیڑتا رہا اور ہم شملہ معاہدے سے ہی باہر نہیں نکلے ‘ادھر بھارت نے تمام معاہدوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ پاک آرمی کشمیر کے ساتھ کھڑی ہے '' آخری سپاہی و آخری گولی‘‘ تک لڑیں گے۔ اس نے کشمیر کی تحریک کو نئی قوت بخشی۔ ہمیں یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر ‘نہ توتقریر سے ‘ نہ ہی تحریر سے اور نہ سیاستدانوں کی تدبیر سے‘ بلکہ اس کا حل صرف اور صرف شمشیر سے ہوگا ۔