کورونا کاعفریت اور مودی سرکار کی اسلاموفوبیا مہم…(2)

دنیا بھر کی طرح بھارت میں بھی اسلام اور مسلمانوں سے خوف زدہ کرنے کے لیے'' اسلامو فوبیا ‘‘کا لفظ کثرت سے استعمال کیا جارہا ہے۔ مودی حکومت مذہبی سیاست کا کارڈ کھیل کرمسلمانوں کے مذہبی تشخص اور تہذیب کے خلاف مستقل پراپیگنڈہ شروع کئے ہوئے ہے اوراسلام سے خوف دلانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ اسلام دشمن عناصر لفظ''اسلامو فوبیا ‘‘کا استعمال تقریبا ً40یا50برس سے کر رہے ہیں‘ لیکن اس میں تیزی نائن الیون کے بعد ہی دیکھنے کو ملی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ بی جے پی مسلم شناخت اور تشخص کے خاتمے کے لیے سنگھ پریوار کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس کے لیے آر ایس ایس 95برس سے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے ۔اس کا اصل مقصد ''ہندو راشٹریہ‘‘ کا نفاذ ہے ‘کیونکہ اس بھیانک منصوبے میں ہندوستان میں بسنے والے 20 کروڑ مسلمان ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔
بی جے پی کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کے پاس ہے‘ ایم ایس گووالکر کی کتاب ''ہم یا ہماری قومیت کی وضاحت‘‘ سے مودی کی تنظیم کے اراکین کی فکر واضح ہوجاتی ہے جو 1940ء میں گیوار کے بعد آر ایس ایس کا سربراہ بنا تھا۔اس نے لکھا کہ ''جس دن مسلمانوں نے ہندوستان کی سر زمین پر قدم رکھا‘ اس دن سے آج تک ہندو قوم ان کے خلاف جنگ کررہی ہے ‘جس کے باعث اب ان میں قومیت کا احساس اجاگر ہونے لگا ہے‘ ہندوستان میں ہندوئوں کو ہی رہنا چاہیے‘ باقی سب قومیتوں سے تعلق رکھنے والے غدار اور قومی مفاد کے دشمن ہیں‘ سادہ الفاظ میں اگر بیان کیا جائے تو وہ احمق ہیں۔ ہندوستان میں بسنے والی تمام قوموں کو ہندوئوں کے زیر نگیں رہنا چاہیے‘ وہ کوئی حق مانگیں اور نہ ہی کوئی مراعات‘ ترجیحی برتائو اور شہری حقوق کا مطالبہ بھی نہ کریں ‘اپنی قوم اور ثقافت کو دوسری قوموں کے اثرات سے بچانے کے لیے جرمنی نے یہودیوں سے اپنی دھرتی کو پاک کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا‘ اہل جرمنی میں قومیت کا فخر پیدا کیا گیا‘ اس میں ہمارے لیے بہت سے اسباق پنہاں ہیں‘‘۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ فرقہ ورانہ فسادات برپا کرنے میں سرِفہرست ہے‘ 1927ء کے ناگپور فسادات میں اسی تنظیم کا اہم کردار تھا جبکہ 1948 ء میں مہاتما گاندھی کا قتل بھی آر ایس ایس کے غنڈے نتھورام نے کیا تھا۔ 1969 ء احمد آباد اور 1989 ء جمشید پور فرقہ وارانہ فسادات بھی آر ایس ایس کی کارستانی تھے۔آر ایس ایس کی دہشت گردی کے دیگر بڑے واقعات میں مالیگاؤں بم دھماکہ‘ حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکہ‘ اجمیر بم دھماکہ اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ شامل ہیں۔2002ء میں نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کی سر پرستی میں ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی‘ جب مودی نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تو مسلمانوں سے بابری مسجد چھین لی ‘ متنازع شہریت کے قانون کی آڑ میں آسام کے مسلمانوں کی دربدری کا گھنائونا منصوبہ بنایا گیاجبکہ دہلی مسلم کش فسادات 2020ء نے بھارتی سیکولر ازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔آر ایس ایس کا پرچارک نریندر مودی ہٹلر کے فاشسٹ نظریات پر عملدرآمد میں مصروف ہے اور نشانے پر مسلمان ہیں۔ عرب اور خلیجی ممالک میں لاکھوں انڈین شہری غیر ملکی زرمبادلہ کا انتہائی اہم ذریعہ ہیں کیونکہ یہ ان ممالک سے ہر سال تقریباً 50 ارب ڈالر سے زائد انڈیا بھیجتے ہیں۔مودی کی ذاتی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب آنے والے برسوں میں انڈیا میں تقریباً ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کرنے والے ہیں‘لیکن انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی سیاست سے ان کوششوں کو دھچکا سا لگاہے۔ انڈیا میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے بارے میں خلیجی ممالک بھی تشویش کا شکار ہیں لیکن ‘انہیں ان لاکھوں مسلمانوں کے بارے میں کوئی فکر لاحق نہیں جنہیں مسلسل بدسلوکی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف انڈیا میں نفرت کی موجودہ لہر میں کوئی کمی آئے گی یا نہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت اور مشکل ہے لیکن یہ پہلی باردیکھنے کو مل رہا ہے کہ جب حکمران بی جے پی اور ہندوتوا کے علمبردار یہ محسوس کر رہے ہیں کہ انڈیا کی اندرونی سیاست کے بین الاقوامی مضمرات بھی ہو سکتے ہیں۔بھارت کی شروع دن سے یہی کوشش رہی کہ خطے میں اپنی بالا دستی کے لیے پاکستان کو ٹیرر فنانسنگ کے الزامات لگا کر ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ڈلوا دے اور یہ جارحانہ عزائم پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژکرنے کے لیے اٹھائے جا رہے تھے‘ کیونکہ بنیئے کو ہمالیہ کے پہاڑوں سے بلند پاک چین دوستی ہضم نہیں ہورہی ۔
مقبوضہ وادی میں کرفیو کی آڑ میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی ہو یا بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام‘ ایل او سی پر جارحیت ہو یا پھر بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردی کے واقعات ان سب گھنائونے منصوبوں کا مقصد پاکستان کو کشمیریوں کی استصواب رائے کے بنیادی حق کی حمایت سے دستبردار کرانا اور سی پیک منصوبے کو روکنا ہے۔پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت ہر اہم عالمی فورم پر بھارتی جارحیت وبربریت اور مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگرکرتے ہوئے مذاکرات کی دعوت دی لیکن انڈیانے ''ہندوتوا‘‘کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے امن کوششوں کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا۔ پاکستان اسلام کا قلعہ اور ایٹمی صلاحیتوں سے مالا مال ملک ہے‘ ایسے میں اگر بھارت نے میلی آنکھ سے دیکھنے کی غلطی کی توغیور عوام اور پاک ا فواج دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا جذبہ اور صلاحیت رکھتی ہیں۔ پاکستان جنگ میں پہل نہیں کرے گا‘ لیکن پھر بھی مودی نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ترک نہ کیا تو اس کاانجام ایٹمی جنگ پر منتج ہو سکتا ہے ‘یہاں ضرورت اب اس امر کی ہے کہ خطے میں قیام امن کی کوششوں کو رائیگاں ہونے سے بچانے کے لیے اقوام متحدہ کو چاہیے کہ کورونا کو جواز بناتے ہوئے بی جے پی کی حکومت بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں جس طرح مسلم نسل کشی کے لیے سر گرم ہے‘ اس کی روک تھام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں