لداخ میں چین کی پیش قدمی …

وطنِ عزیز اس وقت ایک کٹھن دور سے گزر رہا ہے‘ ایک طرف کورونا اور دوسری جانب ملک دشمنوں کی سازشیں عروج پر ہیں۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ استعماری طاقتیں مہلک وبا کے ان دنوں میں بھی اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ عید سے قبل بلوچستان میں دہشت گردی کی یکے بعد دیگرے وارداتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پاک فوج کی توجہ کشمیر ایشو سے ہٹانے کیلئے صوبے میں تخریبی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ۔ سکیورٹی فورسز پر مسلسل حملے بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ دراصل خطے میں مذموم استعماری خواہشات کی تکمیل کیلئے گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ بلوچستان جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘ لہٰذا سی آئی اے‘ را اور موساد کا مشترکہ پلان طویل عرصے سے اس علاقے کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہے۔ افغانستان کے ذریعے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کا منظم نیٹ ورک صوبے میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث عناصر کو اسلحہ اور سرمایہ کی فراہمی کے علاوہ شر پسند عناصر کو تربیت بھی دیتا رہا ہے جوپاکستان کی سلامتی کیلئے خطرے کا باعث ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی آگ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت گزشتہ 73 سالوں سے سلگائی جا رہی ہے ۔ نواب آف قلات کا مقدمہ ابھی تک اقوام متحدہ میں ہے‘ جن کا مؤقف تھا کہ انہوں نے کبھی پاکستان سے الحاق نہیں کیا بلکہ زبردستی ان کی آزادی کو چھین کر انہیں محکومی پر مجبور کیا گیا۔اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ''آزاد بلوچستان‘‘ کی چنگاری کو بھڑکائے رکھنے میں نہ صرف بیرونی بلکہ اپنے لوگوں کا ہاتھ بھی ہے۔یورپ اورامریکہ میں پاکستان دشمن پروپیگنڈے پر مبنی زہر آلود لٹریچر کی تقسیم‘ فری بلوچستان موومنٹ کے زیر اہتمام ریلیاں ‘ مظاہرے اور پلے کارڈز اور پوسٹرز کی تقسیم کی مہم کس نے شروع کروائی اور کس کے ایما پر پاکستان کی سالمیت کے خلاف محاذ تیار کئے جا رہے ہیں؟ یقیناً مقامی مدد و تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا۔ لمحہ ٔ فکریہ ہے کہ بلوچستان کو Battle Groundبنا لیا گیا ہے ۔ ''را ‘‘ کے تحت چلنے والے تین چینلز 24 گھنٹے بلوچستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں اور ہندوستان یو این او کی سلامتی کونسل میں آزاد بلوچستان کے حق میں قرار داد لانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے ‘اس لئے ملکی و قومی سالمیت و خودمختاری کے تحفظ اور دشمنوں کی سرکوبی کیلئے کارروائی ضروری ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ ہمارا دفترِ خارجہ حالات کی سنگینی کو نظر انداز کرتے ہوئے کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔2005ء میں امریکی کرنل Ralph Petersکا ''Blood Borders‘‘ کے نام سے ایک نقشہ منظر عام پر آیا تھا‘ جس میں بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ دکھایا گیا تھا ۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ مذکورہ نقشے پر ہی عملدرآمد جاری ہے ۔ کوئی دو رائے نہیں کہ پاک فوج اور ایف سی صوبے میں امن و امان کے قیام اور استحکا م اور سی پیک سمیت ترقی کے منصوبوں کی تکمیل اور ان کی حفاظت کیلئے کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ موجودہ حالات و واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ا فواجِ پاکستان کو استعماری طاقتوں کے اشارے پر چاروں جانب سے الجھا دیا گیا ہے۔ اگرچہ کورونا اوردگرگوں ملکی حالات کے پیش نظر پاک آرمی کیلئے موجودہ وقت آزمائش سے کم نہیں ‘مگر انشاء اللہ ہماری فوج تمام بحرانوں سے سرخرو ہو کر نکلے گی ۔
اُدھرلداخ اور سکم پر چینی فوج کی پیش قدمی نے ہندوستان کے اوسان خطا کر دیئے ہیں۔کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھانے والی ہندو سینا چین کے سامنے ڈھیر نظر آتی ہے‘ بلکہ لداخ کی سرحد پر مزید پانچ ہزار چینی فوجیوں کی تعیناتی سے پاکستان کو دھمکی دینے والے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ‘ مشیر قومی سلامتی اجیت ڈووال اور بھارتی فوج کے چیف آف ڈیفنس سٹاف بپن راوت بھی دم بخود ہیں۔ بھارتی میڈیا چیخ رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ دوسرا سانحہ کارگل ہو چکا ہے اور بھارت اپنے سینکڑوں مربع کلومیٹر رقبے کا قبضہ کھو چکا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان 3500کلومیٹر طویل غیر متعین سرحد ہے جو ہمالیہ کے ساتھ ملتی ہے اور عسکری لحاظ سے انتہائی حساس خطہ ہے ‘ وادی گلوان کا علاقہ چینی ملکیت ہے جو اکسائے چن میں ہے‘ گلوان وادی لداخ اور اکسائے چن کے درمیان سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہیں سے لائن آف ایکچوئل کنٹرول دونوں ممالک کو علیحدہ کرتی ہے۔ بھارت روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین کے علاقے کے اندر فوجی تنصیبات کی غیر قانونی تعمیرات میں مصروف تھا؛ چنانچہ ہندوستان کو سبق سکھانے کیلئے چینی فوج نے پیش قدمی کی‘ جبکہ بھارت بخوبی جانتا ہے کہ یہ علاقہ چین کے تصرف میں ہے ۔ اس کے باوجود امریکی پشت پناہی پر علاقے پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ‘مگر چین کے فوجیوں نے بھارتی سینکوں کو دھول چٹا دی ۔ چین نے بھارت کو واضح پیغام دیا ہے کہ متنازع علاقے کا سٹیٹس یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ موجودہ سر حد ی تنازعہ کوئی اچانک رونما نہیں ہوا ‘ میڈیا رپورٹوں کے مطابق بھارت مئی کے آغاز سے وادی گلوان میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دراندازی کی کوششیں کر رہا تھا ۔ بھارت کے فسطائی اقدامات نے خطے کا امن دائو پر لگا دیا ہے اور اس کا اثر یقینا بیجنگ ‘ دہلی معاہدوں پر بھی پڑے گا اور ڈوکلم تناز ع بھی شدت اختیار کر سکتا ہے ۔
دوسری جانب مغربی دنیا نے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بیجنگ کو مورد الزام ٹھہرایاہے‘ جبکہ یہ بات بھی خارج ازامکان نہیں کہ امریکہ اپنے سیاسی مفادات کیلئے بھارت کو چین کے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔بہرکیف لداخ میں چین کے ہاتھوں بھارتی فوج کی دھلائی نے بنیے کی نیندیں حرام کردی ہیں ۔ مودی نے آرٹیکل 370 اور 35A ہٹا کر ایسی غلطی کی ہے جس سے شاید اس کو اب لداخ سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ اب تک چین صرف اس لئے پیچھے تھا کہ اقوام متحدہ کے یہ آرٹیکل اسے کوئی کارروائی کرنے سے روکے ہوئے تھے‘ یاد رہے بھارت نے یہ آرٹیکل ہٹا کر صرف مقبوضہ کشمیر کو ہتھیانے کو کوشش کی تھی لیکن اسے شاید یہ معلوم نہیں تھاکہ چین‘ جس نے 70 بلین ڈالر تک کی سرمایہ کاری پاکستان میں کی ہے وہ سی پیک پرکبھی کوئی آنچ نہیں آنے دے گا۔
بہرحال یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مودی نے بھارت کو ایسی جگہ پہ لا کھڑا کیا ہے جہاں آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے۔دراصل نہتے کشمیریوں پرانسانیت سوز مظالم کیلئے بھارت کو کھلی چھٹی نے اُسے آپے سے باہر کر دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ متشدد مودی سرکار کے جنگی جنون نے چین کے ساتھ بھی محاذ کھول لیا ہے جو یقینا اس کیلئے مناسب نہیں کیونکہ ہندوستان 1962ء میں چین کی فوج کے ہاتھوں اپنی عبرتناک شکست کو بھولا نہیں ہوگا۔یہاں سوال یہ ہے کہ دنیا کی کوئی فوج بیک وقت دو محاذوں پر نہیں لڑتی‘ لیکن بھارتی فوج کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے فوجی آپریشن بھی کر رہی ہے اوردوسری جانب لداخ میں بھارتی فوج کی نقل وحرکت سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بھارت کو امریکی آشیرباد اور اسرائیلی عسکری و مالی تعاون بھی حاصل ہے۔
خطے میں ‘سی پیک‘ افغانستان اور بلوچستان ایشوز کو ہوا دی جا رہی ہے‘ سی پیک جیسے عظیم منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے امریکہ کی بھارت پر نوازشیں جاری ہیں اور' وار ہسٹریا ‘میں مبتلا بھارت خود کو علاقے کا تھانیدار سمجھ بیٹھا ہے۔ 5 اگست 2019ء سے اب تک مودی سرکار کے فسطائی اقدامات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کشمیریوں کے قتلِ عام اور بھارت میں بسنے والے 20کروڑ مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف ہماری حکومت بیانات و اعلامیے جاری کرنے سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ہٹ دھرم بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسترد کر دیا ہے اور ایک ہم ہیں کہ ابھی تک اعلانِ لاہور سمیت دیگر معاہدوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں