بھارت کی سلامتی کونسل میں رکنیت اور خطے پر اس کے اثرات

ہمارے وزیر خارجہ درست فرماتے ہیں کہ بھارت کے سلامتی کونسل میں چلے جانے سے کوئی قیامت نہیں برپا ہو گی ‘ قیامت تو اس روز بھی نہیں آئی تھی جب غاصب بھارت نے پاکستان کی شہ رگ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے اسے ہڑپ کر لیا تھا اور ادھر ہماری حکومت نے اعلان کیا تھا‘ جو ایل او سی کی جانب جائے گا‘ وہ ملک دشمن ہو گا۔قیامت تو ابھی آئی ہی نہیں کہ مسلم مخالف قوانین کی آڑ میں ہندوستان میں بسنے والے 24 کروڑ مسلمانوں سے جینے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس کی سرپرستی میں مسلم نسل کشی جاری ہے‘ جس کی بدترین مثال حالیہ دہلی مسلم کش فسادات ہے‘ جس میں مسلمانوں کی جان و مال کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ ہندو بلوائیوں نے مساجد کی بے حرمتی کی اور ادھردارالحکومت میں مندر تعمیر کیا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے مسلمان خاندانوں کو زود و کوب کیا جا رہا ہے۔ وائرس کے بہانے مرکز نظام الدین اولیا اور تبلیغی جماعت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور سینکڑوں مزدوروں کی موت سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے کورونا سے نمٹنے میں ناکامی کاسارا ملبہ تبلیغی جماعت کے اراکین پر ڈال دیا گیا۔ ایسے میں بھارت کا سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہو جانا کیا قیامت سے کم ہے؟۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے دشمن ‘کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنانے والے بھارت کو سب سے زیادہ ووٹ ملے جو یقیناً پاکستانی حکومت کیلئے بھی باعث ہزیمت ہے ۔ایسے میں کہاں ہے‘ ہمارا دفتر خارجہ ؟جو خارجہ سے زیادہ خارجی بن چکا ہے کہ سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست بھارت کی جھولی میں ڈال دی:؎
گرقیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے
شہر جلتا رہا اور لوگ نہ گھر سے نکلے
بھارت کو 192 ووٹوں میں سے 184ووٹ ملے اور وہ آئندہ دو سال کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کو نسل کا رکن منتخب ہ چکاا اور 2021ء میں بطور رکن وہ کونسل میں چین کے ساتھ والی نشست پر برا جمان ہو گا‘وہ بھی ان حالات میں جب چین کے ساتھ اس کا سرحدی تنازع چل رہا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ساری دنیا جو بھارت کو ووٹ دے کر سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بنوا رہی ہے‘ اس بات سے بے خبر ہے کہ بھارت کشمیر میں کشمیری مسلمانوں اور پورے بھارت میں کس طرح منظم فسادات کے تحت مسلمانوں کا قتل ِ عام کر رہاہے۔یہ وہی بھارت ہے‘ جس میں اسلامو فوبیا عروج پر پہنچ چکا۔ مذہبی انتہا پسندی نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کی نظر میں مسلمان کی حیثیت ایک جانور سے بھی کم ہے۔ دنیا کو یاد ہوگا کہ جب گجرات فسادات میں بھارتی مسلمانوں کو ہلاکتوں کے حوالے سے مودی سے سوال پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا تھا کہ اگر میری گاڑی کے نیچے آکر کوئی کتا بھی مر جائے تو مجھے افسوس ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ سنگھ پریوار کے پرچارک مسلمانوں کے قاتلِ اعظم کے نزدیک ایک مسلمان کی کیا وقعت ہے؟ دوسری جانب ہندوستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ سمیت امریکی و یورپی کمیشنوں کی متعدد رپورٹیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ بھارت کو مسلمانوں کا مقتل بنا دیا گیا ہے۔ ان حالات میں بھارت جیسے دہشت گرد ملک کو انسانوں کے ادارے میں اعزاز بخشتے ہوئے اُسے وہاں کی رکنیت دیدی گئی ہے وہ تو اس قابل بھی نہیں کہ اسے جانوروں کے کسی عالمی ادارے کی نشست سونپی جائے۔
اقوام متحدہ کا قیام بلاتفریق رنگ و نسل اور مذہب ہر قوم و ملک کے تحفظ و اس کے حقوق کی پاسداری کیلئے عمل میں لایا گیا تھا ‘ لیکن 75 برسوں میں طاغوتی طاقتوں کا ساتھ دیا اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ دراصل امریکہ کی باندی بن چکا اور اس کا ہر فیصلہ اسرائیلی و امریکی مفادات کے تابع ہوتے ہیں ۔ مشرقی تیمور کو راتوں رات آزادی دلائی جا سکتی ہے ۔ سوڈان میں ایک الگ عیسائی ریاست کا وجود عمل میں لاہا جا سکتا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ کشمیر و فلسطین کو آزاد کروانے کی بات آئے تو ایکشن کی بجائے صرف قراردادوں پر ہی اکتفا کیا جا تا ہے ۔ سلامتی کونسل میں مستقل اور غیر مستقل دو طرح کی رکنیت ہوتی ہے ‘جن میں اصل اختیارات کے مالک پانچ مستقل ارکان ہیں‘ جن میں امریکہ‘ برطانیہ‘ چین‘ روس اور فرانس شامل ہیں۔ انہی پانچ ارکان کو ویٹو پاور حاصل ہے اور یہی طاقتیں حقیقت میں دنیا کے مقدر اور مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں۔ غیرمستقل ارکان کی تعداد دس ہے اور ان ارکان کا انتخاب دوسال کیلئے ہوتا ہے۔ بھارت ماضی میں متعدد بار اس فورم پر منتخب ہوتا رہا ہے‘ جبکہ پاکستان بھی اس فورم کا رکن رہ چکا ہے۔ غیرمستقل ارکان میں طاقت اور معیشت کی بجائے زیادہ تر رکنیت اور لابنگ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ افریقہ کے کمزور ملک بھی انتخابی مہم اور لابنگ کی بنیاد پر غیرمستقل ارکان کی نشست حاصل کرتے ہیں۔
ہمارے وزیر خارجہ بارہا کہہ چکے ہیں سلامتی کونسل میں بھارت کی حمایت کرنا ہماری مجبوری تھی ‘اگر ہم اس کی حمایت نہ کرتے تو وہ آئندہ ہماری بھی نہیں کرے گا۔ افسوس !میری نظر میں ا زلی دشمن اور مسلمانوں کے خون کی پیاسی بھارتی سرکار کی تائید میں حکومتی بیانات یقینا محب وطن پاکستانیوں اور آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ عالمی و علاقائی سطح پر بھارت نے کبھی بھی ہمارے ساتھ کھڑا نظر آیا۔اول تو بھارت نے کبھی پاکستان کو وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا‘ وہ وطن عزیز کے قیام سے اس کو توڑنے اور صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔ نیو کلیئر کلب کی ممبر شپ سے لے کر افغانستان کے معاملے تک روڑے اٹکانا اپنا فرض سمجھتا ہے وہ تو ہمیں دہشت گرد سٹیٹ قرار دینے کیلئے بے چین ہے۔ پاکستان کی سالمیت و خود مختاری کیخلاف عالمی محاذ پر پورا پلاٹ تیار کر رکھا ہے اور آج جو ایف اے ٹی اے کے اندر جکڑے ہوئے ہیں‘ وہ بھارت کی مذموم کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ بھارت نے ہمیشہ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی۔ عرب امارات میں پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ِعمل ہے۔ سعودی عرب میں زہر افشانیاں ہم کیسے بھول جائیں اور ایک ہم ہیں کہ بجائے بھارت کا سلامتی کونسل جیسے اہم عالمی ادارے میں جانے کا راستہ روکتے بڑے فخر کے ساتھ اسے سلامتی کونسل کی رکنیت تحفے میں دیدی۔ میرا سوال حکومت ِوقت سے ہے کہ کیا یہ وطن ِ عزیز سے دوستی ہے؟ کیا یہ اُن کشمیریوں کے لہو سے زیادتی نہیں‘ جو برہمن کے پنجہ استبداد سے آزادی کے لئے گزشتہ 73 سال سے بہہ رہا ہے۔ کیا ان کشمیری نوجوانوں سے غداری نہیں‘ جو پاکستانی پرچم میں دفن ہونا اعزاز سمجھتے ہیں۔ آخر ایسی کون سی مجبوری ہے کہ ایسی کون سی غلامی کی زنجیر اور گلے کا طوق ہے‘ جس سے ہم نجات ہی نہیں چاہتے۔ بھارت اقوام متحدہ شملہ معاہدہ‘ لاہور معاہدہ سمیت دیگر معاہدات کو اپنے پیروں تلے مسل چکا اور ہم ان معاہدوں سے باہر ہی نہیں آسکے۔آج تک وزیراعظم عمران خان کی ٹرافی ہماری سمجھ سے بالا تر ہے‘ جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ دورے سے واپسی کے بعد جیت کر لائے تھے۔ دراصل ہر معاملے میں ان کے یوٹرن اور کہہ مکرنیوں نے ملک کو دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کشمیر میں کرفیو کو نو ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ۔ ہماری عالمی سطح پر ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ ہم ایک روز کیلئے وہاں سے کرفیو نہیں ہٹا سکے۔
جنگیں ٹویٹراور سوشل میڈیا پر نہیں جیتی جاتی ۔جنگیں حوصلے ‘جرأت اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جیتی جاتی ہیں۔ ہمیں چین سے سبق سیکھنا چاہیے‘ جس نے لداخ میں بھارتی فوج کی درگت بنائی اور اپنا علاقہ بھی واپس لے لیا۔ ادھر نیپال بھی بھارت کے سامنے ڈٹ گیا اس کی جرأت کو سلام کہ ہم سے کئی گنا کمزور ملک نے متنازع نقشہ بھی منظور کر لیا۔ میں کب سے کہہ رہا ہوں کہ بھارتی سفارت خانہ بند کر دیا جائے ‘جب بھارت نے سفارتی عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے سفارتی عملے کو زدوکوب کیا اور انہیں وہاں سے نکال دیا تو ہماری حکومت کو بھی ہوش آ گیا کہ اب‘ وہ بھی پچاس فیصد سفارتی عملہ کم کردے گی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم بھارت کی تقلید کرتے رہیں گے؟ پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی حدود تبدیل کی جا رہی ہے۔
خدارا ...! ہمیں ''نیا پاکستان‘‘ نہیں قائداعظم ؒکا پاکستان ہی چاہیے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں