استعماری طاقتیں مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے اسلام کے قلعے اور مسلم امہ کی ایٹمی طاقت‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سالمیت و خود مختاری پر شب خون مارنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان ملک دشمن عناصر کا اصل ہدف ہماری ایٹمی صلاحیت ہے جس کے لئے ہنود و یہود گٹھ جوڑ مسلسل سرگرم ہے جبکہ خطے پر داعش کا خطرہ مسلسل منڈلا رہا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ہمارا مکاردشمن ہر محاذ پر شکست سے دوچار ہو چکا ہے اور نہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن قائم ہو تاکہ وہ اپنی مذموم سازشوں کے لئے پاکستان کے لئے نت نئی مشکلات کھڑا کرتا رہے۔ یاد رہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان سے ہوتی ہے۔
پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے، دنیا جانتی ہے کہ کیسے ہم نے امریکا‘ طالبان مذاکرات میں مثبت کردار ادا کیا، دوسری جانب کٹھ پتلی افغان انتظامیہ ہے جو فقط روپے پیسے کے لالچ اور بھارتی خوشنودی کے لیے اپنے برادر اسلامی ملک پاکستان کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے۔ نیز اپنی سرزمین پاکستان کو کمزورکرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغان جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے جس نے امریکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کی واحد سپرپاور اور جدید ترین جنگی اسلحے سے لیس امریکی فوج افغانستان میں 18 برس کی جنگ کے بعد بھی ناکام رہی ہے اور اب افغان سرزمین سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے کے چکروں میں ہے۔ افغان امن عمل سے جو اندیشے منسلک تھے‘ اب عملی اور دلخراش صورت میں سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ خدشہ تھا کہ بھارت کو اس سارے عمل سے دور رکھنے پر‘ وہ اور اس کے پشتیبان امن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، گوادر‘ کراچی کوسٹل ہائی وے اور رزمک میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے انہی ملک دشمن قوتوں کی کارستانی دکھائی دیتے ہیں۔ درحقیقت کراچی اور بلوچستان خصوصی طور پر دشمن کے نشانے پر ہیں، فوجی قافلوں پر حملے، ایل او سی پر بھارت کی بزدلانہ تخریبی کارروائیاں‘ یہ سب ایک ہی لڑی کا تسلسل ہیں۔
بلوچستان کے حوالے سے بھارت پہلے ہی واضح طور پہ کہہ چکا ہے کہ یہ ہمارے ٹارگٹ پر ہے اور بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے۔ بعض بلوچ نوجوانوں اور نام نہاد رہنمائوں کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے میں بھارت کا کردار دنیا بھر کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔ افواجِ پاکستان اور دیگر سکیورٹی اداروں نے ملک میں مختلف قسم کے آپریشن کے بعد کراچی، بلوچستان، فاٹا، وزیرستان اور شمالی علاقوں میں امن قائم کیا، یہ امن نہ صرف بھارت کے لیے خطرے کی علامت بن گیا بلکہ اس کے اربوں کھربوں روپے بھی اسے ضائع ہوتے نظر آئے جو اس نے پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لیے صرف کیے تھے۔ اب کراچی اور بلوچستان کے حالات ایک بار پھر حساس ہوتے جا رہے ہیں اور اس کا فوری طور پر کوئی سیاسی حل نہ نکالا گیا تو مشکلات بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ بلاشبہ دہشت گردی کے خاتمے میں افواج پاکستان کی قربانیاں بے مثال و لازوال ہیں؛ تاہم اچانک ایسے واقعات میں اضافہ اس امر کا متقاضی ہے کہ آپریشن ردالفساد کو مزید تیز اور موثر بنایا جائے تا کہ بیرونی اوراندرونی دہشت گردی پر مکمل قابو پایا جا سکے۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ادھر افواجِ پاکستان اپنی جانوں کے نذرانے دے کر سرحدوں کی حفاظت کا اپنا فریضہ سر انجام دے رہی ہیں تو دوسری جانب سیاستدان سیاست‘ سیاست کھیلنے میں مگن ہیں۔ اپوزیشن کے جلسوں میں کسی لیڈر کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ سرحدوں پر جامِ شہادت نوش کرنے والے سپاہیوں کو خراجِ تحسین پیش کرے۔ یہ وقت ملک کے وسیع تر مفاد میں متحد ہو کر افواجِ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے، کھینچا تانی کرنے کا نہیں۔ بدقسمتی سے موجودہ وقت میں کوئی بھی ایسی سیاسی قد آور شخصیت نہیں جو حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور حکومت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اگر دونوں طرف ضد قائم رہی تو حالات مزید بگاڑ کا شکار ہوں گے۔ وقت کا تقاضا تو یہی ہے کہ سیاسی معاملات میں اداروں کو ملوث کرنے کی ہرگز کوشش نہ کی جائے تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ دفاع وطن کی ذمہ داریاں نبھاتے اور ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی دشمن کی سازشیں ناکام بناتے رہیں۔ بے شک ہماری جری و بہادر عساکر نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ ہر محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کیے ہیں اور ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران اپنی جانیں تک نچھاور کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔
اس وقت بھارت کے ارادے اچھے نہیں اور وہ مسلسل پاکستان کے خلاف کسی مہم جوئی کی کوشش کر رہا ہے۔ بلوچستان میں بھی بھارتی سازشیں عروج پر ہیں۔ بلوچ عوام محب وطن ہیں‘ ان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن جماعتوں کو مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کیلئے اپنی تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں۔ نریندر مودی کے پاکستان کے خلاف جنگی عزائم اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ بھارت نہ صرف تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے بلکہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے جنگ بھی مسلط کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ افغانستان میں بھارت کی موجودگی اور اس کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کا مضبوط نیٹ ورک اس امر کی نشان دہی کر رہا ہے کہ امریکا کی جانب سے بھارت کو عملی شکل میں افغانستان میں کلیدی کردار دلانے کی کوشش کئی برسوں سے جاری ہے۔ اس صورت میں اگر بھارتی فوجی افغان سکیورٹی فورسز میں شامل ہو جاتے ہیں تو پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ بھارت اپنے فوجی افغانستان میں بھیج کر اپنی دیرینہ خواہش بھی پوری کرنا چاہتا ہے کہ کسی بھی قیمت پر کابل کا کنٹرول یا حکومتی اقدامات پر اثر و نفوذ حاصل کرے تاکہ مشرقی سرحدوں کی طرح پاکستان پر مغربی جانب سے بھی دبائو ڈالا جا سکے جبکہ اس کا ایک مقصد سی پیک منصوبے کو نقصان پہنچانا بھی ہے۔ اسی لیے بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کی مشرقی اور پھر شمال مغربی سرحدوں پر محدود پیمانے کی جنگ چھیڑ دی جائے جس سے سی پیک منصوبہ خطرے کا شکار ہو جائے۔ چین اور پاکستان کی انمول دوستی اور اقتصادی و دفاعی ترقی کے اقدامات بھی کئی ممالک کو کھٹک رہے ہیں، لہٰذا چین کی طرف سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے جو معاہدات طے پائے ہیں انہیں پایہ تکمیل تک پہنچنے سے روکنے کیلئے نت نئے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ‘ عالمی ادارۂ انصاف کی دہری پالیسیوں نے ہی بھارت کو یہ شہ دی ہے جبکہ پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کی دھمکیوں اور سی پیک کی مخالفت کے پیچھے بھی امریکہ اور بھارت ہی ہیں۔
بلوچستان اور شمالی وزیرستان میں ہمارے فوجی جوانوں کی شہادت اس کا بین ثبوت ہے کہ ہمارا کینہ پرور اور مکار دشمن بھارت یہاں موجود اپنے ایجنٹوں اور دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کرنے کی سازشیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے درپے ہے۔ امریکی جریدے ''فارن پالیسی‘‘ نے بھارت کی طرف سے دہشت گردوں کو مدد فراہم کرنے اور پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے مذموم بھارتی عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم مولانا عادل کی شہادت کے نازک موقع پر ہم سب کا فرض ہے کہ صبر و تحمل اور دانشمندی سے کام لیں اور دشمن کی سازش کو ناکام بنائیں اور اس کیلئے مذہبی و بین المسالک ہم آہنگی اور اتحادِ اُمت کو فروغ دینے کیلئے تمام کاوشیں بروئے کار لانا ہوں گی تاکہ دشمن کو اس محاذ پر بھی عبرتناک شکست ہو۔