کشمیر پر بھارتی تسلط اور آذربائیجان کی فتح

اُمت مسلمہ کے لئے یہ بڑی خوشخبری ہے کہ آخر کار آذربائیجان آرمینیا سے جنگ میں فتح یاب ہو گیا اور کاراباخ سمیت شوشا کا علاقہ بھی بازیاب کروا لیا جس پر پچھلے تقریباً تیس سالوں سے آرمینیا قابض تھا۔ تین دہائیوں بعد شوشا کی مسجد میں اللہ اکبر کی صدائیں گونجنے پر دشمنانِ اسلام میں صفِ ماتم بچھی ہو ئی ہے۔اس جنگ میں مسلم ملک آذر بائیجان کی جیت سے ثابت ہو گیا کہ مسلمان اگر اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرتے ہیں تو ان کے سامنے کفر کی مجتمع طاقتیں بھی ریت کی دیوار سے زیادہ کچھ نہیں۔ جس طرح افغانستان میں جدید ٹیکنالوجی سے ناآشنا افغان طالبان نے خود سے کئی گنا بڑی منظم عسکری قوتوں روس و امریکہ کو کو پسپا ئی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ 73سالوں سے کشمیر پر ہمیں مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے پر کیا ملا؟ نتیجتاً دنیا نے بھارت کو کشمیر میں بربریت و سفاکیت کی کھلی چھٹی دے دی کہ اپنی من مرضی کرتا پھرے اور مذموم عزائم پر کار بند رہے۔ کسی جانب سے بھی بھارت پر دبائو نہیں ڈالا گیا کہ وہاں سے کم از کم کرفیو ہی ہٹا دیا جائے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیریوں پر ہونے والے تشدد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔نگورنو کارا باخ کی طرح مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھی اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کروانے میں عالمی ادارہ ناکام نظر آتا ہے۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ اب اقوام عالم کی طرف دیکھنے کے بجائے کشمیر ی مسلمانوں کی آزادی کے لیے ایک جامع حکمت عملی تشکیل دے‘ کیا ہم آزربائیجان سے بھی کمزور ہیں ؟ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم غیروں کے رحم و کرم پر ہیں۔یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آزادی قربانیوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ آذربائیجان نے قابض علاقوں کو آرمینیا سے آزاد کرانے کیلئے جدوجہد کی اور اپنی عسکری طاقت کے ذریعہ اسے حاصل کیا۔
ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی تائید و حمایت پر کئی ممالک خصوصاً یورپ نے ترکی کے خلاف کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن ترک صدر رجب طیب اردوان جس طرح ایک مردِ مجاہد کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہے‘ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ روس کو بھی گھٹنے ٹیکنا پڑے اور اس نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کو اہمیت دی تاکہ آرمینیا کو مزید نقصانات سے بچایاجاسکے۔ دراصل روس کو یہ گمان تھا کہ آذربائیجان اپنے نسبتاً طاقتور مخالف آرمینیا کے ہاتھوں ماضی کے تناظر میں شکست تسلیم کرے گا اور ترکی یونان کے ساتھ جاری کشیدگی کی وجہ سے آذربائیجان کی عملاً کوئی مدد نہیں کر سکے گا لیکن ترکی نے آذربائیجان کا ساتھ دے کر تمام مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا بلکہ آرمینیا سمیت روس کو بھی ایک ایسے امن معاہدے پر مجبور کردیا جس سے خطے میں ترکی مخالف قوتوں کے علاوہ یونان اور فرانس‘ جو ترکی کی مسلسل جنگ کی دھمکیاں دے رہے تھے‘ کو بھی ایک واضح پیغام ملا کہ اب ترکی یورپ کا ''بیمار ِمرد‘‘ نہیں بلکہ اسے خطے میں صدر طیب اردوان کی جرأت مندانہ قیادت میں ایک نمایاں اور برتر مقام حاصل ہوچکا ہے۔ ترکی کی طرح پاکستان نے بھی ہمیشہ کی طرح آذر بائیجان کا ساتھ دیا اور آرمینیا کے اقدام کے خلاف باقاعدہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں مذمتی قرار دادیں منظور کیں۔ علاوہ ازیں پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر جناب علی علیزادہ نے مشکل کی اس گھڑی میں آذربائیجان کے ساتھ کھڑا رہنے پر پاکستانی حکومت اور پاکستانیوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔ 
اُدھر آرمینیا کے عوام نے حکومت اور فوج کی نااہلی اور جنگ میں شکست پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی دفاتر پردھاوا بولا اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے اپنے خطاب میں کہا کہ جنگ بندی کا معاہدہ آرمینیا کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز ہے جس پر آرمینیائی حکومت کو تقریباً ڈیڑھ ماہ سے زائد معرکہ آرائی کے بعد دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔ 
آذربائیجان ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں 96 فیصد مسلمان رہتے ہیں ان میں 85 فیصد اہلِ تشیع مسلمان ہیں اور15 فیصد سنّی آباد ہیں۔آرمینیا عیسائی اکثریتی ملک ہے جس میں 95فیصد آبادی عیسائی آباد ہیں۔یہ روس کے زیر قبضہ رہتے ہوئے خلافت عثمانیہ کے خلاف بھی لڑتے رہے ہیں ۔تیل کے ذخائر سے مالا مال آذربائیجان بحیر ہ کیسپین کے ایک کنارے پر مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے بیچ واقع ہے۔ اس کے شمال میں روس ‘جنوب میں ایران اور مغرب میں آرمینیا موجود ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کئی نئی ریاستیں وجود میں آئیں جن میں آرمینیا اور آذربائیجان بھی شامل تھے۔ ان ممالک کے درمیان تنازع 90ء کی دہائی میں شروع ہوا جب آرمینیا نے آذربائیجان کے علاقے نگورنو کاراباخ پر قبضہ کر لیا۔اس علاقہ کی آبادی مسلمان تھی جن پر آرمینین فوج کے ظلم و ستم کی وجہ سے نہ صرف بیشتر مقامی آبادی کو ہجرت کرنا پڑی بلکہ خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔سفاک آرمینیا آرمی نے 6000نہتے مسلمانوں کو ایک ہی دن میں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا تھا۔
اگر آذربائیجان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو 19ویں صدی میں آج کے دور کا آذربائیجان فارس اور روسی سطلنت میں بٹا ہوا تھا۔ اسی صدی کے وسط میں یہاں دنیا کا پہلا تیل کا ذخیرہ دریافت ہوا تھا۔1918 ء میں آذربائیجان نے خود کو ایک آزاد ملک قرار دیا لیکن پھر سوویت فوج نے اس پر قبضہ کر لیا اور یہ 1991 ء تک سوویت یونین کا حصہ رہا۔ 1991 ء میں جب آذربائیجان سوویت یونین سے آزاد ہوا تو ترکی ‘پاکستان ،امریکا اور ایران وہ ابتدائی ممالک تھے جنہوں نے اس کے ساتھ سفارتی سطح پر تعلقات قائم کیے۔ آذربائیجان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ترکی جبکہ دوسرا ملک پاکستان تھا جبکہ اسرائیل کی طرح پا کستان نے آج تک آرمینیا کو بھی بطورِ ر یاست تسلیم نہیں کیا ہوا۔ نگورنو کاراباخ باضابطہ طور پر جمہوریہ آذربائیجان کا حصہ ہے اور دار الحکومت باقو سے 270 کلو میٹر (170 میل) مغرب میں آرمینیا کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ 1988 ء سے 1994 ء تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران آرمینیا نے نگورنو کارا باخ سمیت آذربائیجان کے دیگر سات علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 1994 ء میں جنگ بندی تو ہو گئی؛ تاہم کوئی امن معاہدہ طے نہیں پایا۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد میں آرمینیا کی فورسز سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آذربائیجان کے مقبوضہ علاقوں کو فی الفور خالی کرے۔ اس قرارداد میں اس جنگ زدہ علاقے پر 2005 ء میں یو این او فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ بھی پیش کی گئی جس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ یہ علاقہ آذربائیجان کا ہے۔ درحقیقت اس علاقے پر قبضے کے اصل مذموم مقاصد کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں، وہ یہ کہ یہاں موجود بیش بہا تیل اور گیس کے ذخائر یورپ ہڑپ کرنا چاہتا ہے اور اس کی برآمد کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ ایک شمال مغربی روس اور دوسرا جنوب مغربی راستہ قفقاز یا کاکیشیائی ریاستیں۔ یورپ روس کے بجائے اس راستے کو ترجیح دیتا ہے اور اس سے گزرنے والی دو پائپ لائنیں اس کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کو یہاں سے پورا کرنے کے لیے مستقبل میں یہاں سے مزید پائپ لائنوں کی تعمیر کا خواہش مند ہے۔ آذربائیجان روزانہ آٹھ لاکھ بیرل تیل پیدا کرتا ہے اور یورپ اور وسطی ایشیا کو تیل برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک شمار ہوتا ہے۔نگورنو کارا باخ سے بھی چند پائپ لائنیں گزرتی ہیں؛ تاہم یہ پہاڑی علاقہ خود گیس یا تیل پیدا نہیں کرتا۔ اس علاقے میں کشیدگی عالمی منڈی خصوصاً یورپ کو گیس اور تیل کی ترسیل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں