مشرق وسطیٰ سازشوں کی لپیٹ میں

مشرق وسطیٰ میں استعماری قوتوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا گھنائونا سلسلہ جاری ہے اور اس وقت ایران کی اٹیمی صلاحیت اسلام دشمنوں کے نشانے پر ہے ۔ایران کے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کا قتل بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے جس نے مشرق وسطیٰ میں صورتحال کو مزید گمبھیر کر تے ہوئے خطے کو ایک بڑی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔امریکہ کی جانب سے ایرانی سائنسدان کے قتل سے ایک روز قبل خلیج فارس میں بحری بیڑے کی تعیناتی نے بھی کئی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ دوسری جانب مغربی ممالک بھی ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے سخت خائف ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے ایرانی سائنسدان کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے تہران سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے ۔
محسن فخری زادہ ایران کی وزارتِ دفاع کی ریسرچ اینڈانوویشن آرگنائزیشن کے سربراہ اور ایران کے ایٹمی پروگرام کے روح رواں تھے۔محسن فخری زادہ اسلامی پاسداران انقلاب میں سینئر عہدیدار تھے‘ انہوں نے پاسداران انقلاب دستے میں 1979ء کے انقلاب کے بعد شمولیت اختیار کی تھی۔ شاہد بہشتی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ‘پی ایچ ڈی کی ڈگری اصفہان یونیورسٹی سے لی اور اپنے کیریئر کے آغاز پر 1991ء میں جامعہ امام حسین میں بطور فزکس پروفیسر درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔ فخری زادہ نے گرین سالٹ پراجیکٹ تنظیم کی قیادت بھی کی۔فخری زادہ کی جوہری پروگرام سے وابستگی کی بدولت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور امریکہ دونوں نے 2000ء کی دہائی کے وسط میں ان کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا تھا۔کونسل کے مطابق بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے جب فخری زادہ کا انٹرویو لینا چاہا تو ایران نے ان کی عدم دستیابی کا جواز پیش کیا۔ 2010ء کی دہائی کے اوائل میں انہوں نے دفاعی انوویشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن قائم کی اور اس کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں پر تحقیق میں رہنمائی بھی فراہم کی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایرانی سائنسدان کو نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری کے شبے میں قتل کیا گیا۔ ایران کے دعویٰ کے مطابق انہیں سیٹلائٹ گن آپریشن کے ذریعے مارا گیا اور اس منظم حملے میں اسرائیل کے ملوث ہونے کا شبہ پایا جاتا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے دو سال پہلے محسن فخری زادہ کا نام لیا تھا اور موساد نے اس سے پہلے بھی ان کے قتل کی ناکام کوشش کی تھی۔ اسرائیل کی ایک ویب سائٹ نے انکشاف کیا تھا کہ فخری زادہ ایران کے ان سائنسدانوں میں شامل ہیں جن کا نام موساد کی ہٹ لسٹ پر ہے۔
فخری زادہ2008ء سے 2011ء تک ایس پی این ڈی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے۔ تب مذکورہ ادارے کا الحاق مالک اشتر یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے کیا گیا تھا۔2007ء میں ایرانی دستاویزات لیک ہونے پرسنڈے ٹائمزنے انکشاف کیا کہ فخری زادہ اڈوانسڈ ٹیکنالوجی شعبے کے چیئرمین ہیں جو جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو چلا رہی ہے۔ٖفخری زادہ کوطبیعیاتی تحقیقی مرکز میں کلیدی حیثیت کے طور پر انہیں ایران کے پہلے یورینیم افزدوگی پلانٹ کا منصوبہ ساز مانا جاتا ہے۔2010ء میں دی گارڈین کی رپورٹ میں کہا گیا کہ فخری زادہ ایرانی جوہری پروگرام کے انچارج ہیں۔2012ء میں وال سٹریٹ جرنل نے انہیںجوہری ہتھیاروں کا گروکہا۔ فخری زادہ کے قتل کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے انہیں ملک کا ممتاز ایٹمی و دفاعی سائنسدان کہا۔ مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت امریکہ نے پروپیگنڈا کیا کہ فخری زادہ ایرانی جوہری پروگرام کے انچارج تھے اور ایران کیلئے جوہری بم بنا رہے تھے جبکہ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن معاہدہ دوسرے لفظوں میں ایرانی نیوکلیئر ڈیل میں شمولیت کے ایک سال بعد 2016ء میں ایران انٹرنیشنل کانفرنس سنٹر میں صدر حسن روحانی نے فخری زادہ کو اعلیٰ اعزازات سے بھی نوازا تھا۔ قبل ازیں2010ء سے 2012ء کے درمیان چار نیو کلیئر سائنسدان مسعود علی محمدی‘ ماجد شریری‘ دریش رضا نژاد اور مصطفی احمدی روشن یکے بعد دیگرے قتل کر دیئے گئے تھے‘ جبکہ ایک سائنس دان فریدون عباسی قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے ۔ دو سائنسدانوں کو ان کی گاڑیوں میں ہی مقناطیسی بموں کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔ دریش رضا نژاد کو گولی ماری گئی تھی اور مسعود علی محمدی موٹرسائیکل بم دھماکے میں ہلاک ہوئے تھے۔ ایران کے مطابق ایرانی سائنسدانوں کے قتل میں اسرائیل ملوث ہے۔ مغربی و امریکی خفیہ ایجنسیوں نے بھی اسرائیل کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔ جون 2012ء میں ایرانی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ سائنسدانوں کے قتل میں ملوث تمام ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اسرائیل نے ان الزامات کی نہ تو تردید کی اور نہ ہی تصدیق‘ تاہم اسرائیلی وزیردفاع موشے یاالون نے کہا کہ ہم ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کیلئے ہر طرح کے اقدامات کریں گے‘ہمیں ایران کی ایٹمی صلاحیت برداشت نہیں اور ہم ایران پر پابندیوں کے حامی ہیں ۔ بعد ازاں 2013ء میں ایرانی جوہری ماہرین کے قتل کی مذموم مہم کو امریکی دباؤ پر ختم کردیا گیا تھا ۔ایک پرائیویٹ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سٹارٹ فور کے مطابق 2007ء میں بھی پانچ ایرانی سائنسدانوں کو موساد نے زہر دے کر مارا تھا۔ ایرانی حکومت کے مطابق 2015ء میں بھی موساد کی طرف سے ایک ایرانی جوہری سائنسدان کے قتل کی ناکام کوشش کی گئی۔ایرانی افواج کے سربراہ قاسم سلیمانی کو بھی رواں سال 3جنوری کو بغداد میں ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا تھا جس کے جواب میں ایران نے بغداد میں امریکی بیس پر میزائل حملہ کیا تھا لیکن امریکہ کا کہنا تھا کہ ایرانی حملے سے قبل ہی بیس سے امریکی افواج کو نکال لیا گیا تھا لیکن محسن فخری زادہ کو ایران کی سر زمین پر شہید کیا گیا ہے ۔
یکے بعد دیگرے ایران کے اٹیمی سائنسدانوں کی ہلاکتوں نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے ۔ دراصل ایران کامیزائل پروگرام ہی مسلم دشمنوں کو کھٹک رہا ہے۔جس کی اصل وجہ مشرق وسطیٰ میں صرف ایران کی علمی توانائی ہے جو دولت مند استعماری طاقتوں کی بوکھلاہٹ کے شکار ہونے کا سبب ہے۔ دوسری جانب اسرائیل براہ راست ایرانی میزائلوں کی زد میں ہے اس لئے یہ ایران کی اٹیمی صلاحیت کے درپے ہیں ۔ اس وقت اگر گریٹر اسرائیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو وہ ایران ہے۔ماہرین کے مطابق ٹرمپ جاتے جاتے بھی ایران کو مشتعل کرکے خانہ جنگی میں دھکیلنے کیلئے سرگرم ہے‘ مگر ایران کی جانب سے ''ہم بدلہ لیں گے مگر تحمل کے ساتھ ‘‘کہہ کرکے امریکی عزائم خاک میں ملا دیئے گئے ہیں۔اسرائیل اپنے مقاصد میں ناکام ہوگیا ہے وہ ایران کو اشتعال دلانا چاہتا تھا‘ مگر ایرانی قیادت نے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے دشمن کا ناپاک منصوبہ اس کے منہ پر دے مارا ہے‘جبکہ امریکہ اور اسرائیل کی سیاہ تاریخ دہشت گردانہ کارروائیوں سے بھری پڑی ہے ‘ جس کی سب سے بڑی مثال نائن الیون ہے‘ جس کو بہانہ بنا کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی‘ جبکہ عراق پر حملے میں ایک ملین لوگوں کا قتل عام ہوا یعنی روزانہ کی بنیاد پر ساڑھے پانچ سو افراد کو مارا گیا۔ بعد ازاں امریکی رپورٹوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہاں کوئی تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے۔
3 جنوری 1988ء میں امریکی بحری جنگی بیڑے یو ایس ایس ونسٹ سے ایران کے مسافر طیارے پرمیزائل داغے گئے تھے جس کے اندر 299 مسافر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور حقوق انسانی کے علمبرداروں کو یہ بھی پتہ ہوگا کہ اس بدنصیب حملے میں بے گناہ مسافر وں میں 60 بچے بھی شامل تھے جو مہذب دنیا کے منہ پر ایک طمانچے سے کم نہیں اور اس بربریت پر امریکہ نے آج تک معافی نہیں مانگی ۔ا فغانستان میں تو امریکہ کا بیڑا غرق ہوچکا ہے اور وہ دُم دبا کر وہاں سے بھاگ رہاہے۔ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ پینٹاگون کسی صورت بھی مشرق وسطیٰ سمیت افغانستان سے فوجی انخلا کے حق میں نہیں رہا کیونکہ اس کے معاشی معاملات ان نام نہاد جنگوں سے ہی وابستہ ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں