کھکری کی تباہی:پاک بحریہ کا بے مثال کارنامہ

ہر سال پاک بحریہ 9 دسمبر کو پی این ایس ہنگور کے غازیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے اُس عظیم کارنامے کی یاد میں ہنگور ڈے مناتی ہے جب71 ء کی پاک بھارت جنگ میں پاک بحریہ کی آبدوز ہنگور (PNS Hangor)نے بھارتی بحریہ کے جہاز آئی این ایس کھکری (INS Khukri)کو تارپیڈو (آبی گولے) حملے میں نیست و نابود جبکہ بھارتی بحری جہاز آئی این ایس کِرپان کو شدید نقصان سے دوچارکیا تھا۔ یہ دن پاک بحریہ کی آبدوز ہنگور کے جانبازوں کے دلیرانہ مشن، ان کی پیشہ ورانہ مہارت، بے مثل کامیابی اور مضبوط عزم کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
ہنگور سمندر کی لہروں کا سینہ چیرتی ہوئی دشمن کے سر پر جا پہنچی تھی اور اسے خبر تک نہ ہوئی تھی۔ پاک بحریہ کے تباہ کن حملے میں بھارتی بحری جہاز کھکری پر موجود 18 بھارتی افسران جبکہ 176 سیلرز ہلاک ہوئے تھے۔ 9 دسمبر کو دشمن کو یہ کاری ضرب لگانے کے بعد 13 دسمبر کو مشن کی تکمیل کے بعد ہنگور وطن واپس لوٹی تھی۔ ہنگور دشمن کے لیے دہشت کا نشان اور پاکستانی قوم کے فخر اور وقار کی علامت ہے۔ بحریہ ہیڈ کوارٹر کے حکم کے مطابق‘ ہنگور مختلف سمندری علاقوں میں گشت کرتی رہی، 2 دسمبر کو دوپہر کے وقت ہنگور کو ممبئی بندرگاہ کی سمت سے ریڈار پر خطرات سے آگاہ کیا گیا۔ 2 اور 3 دسمبر کی درمیانی شب ہنگور کے ریڈیو آپریٹر نے بھارتی ویسٹرن کمانڈ کے جہازوں کا ایک مواصلاتی پیغام ٹریس کیا جو کراچی پر میزائل حملے سے متعلق تھا۔ ہنگور پانیوں میں چپ سادھے کھڑی تھی‘ اسی دوران بھارتی جہازوں کا ایک سکواڈرن اس کے اوپر سے گزرا۔ یہ حملے کا بہترین موقع تھا مگر ابھی تک نیول ہیڈ کوارٹرز سے حملے سے متعلق احکامات موصول نہیں ہوئے تھے۔ دشمن کی نظروں سے بچنے کے لیے تمام نشریاتی آلات اور سسٹم بند کر دیے گئے تھے۔ 3 دسمبر کو بھارتی بحریہ نے دو جہاز اس سمت روانہ کیے۔ ہنگور کے سونار آپریٹر نے سطح آب پر 6 سے 8 میل کے فاصلے پر دو جہازوں کی نشاندہی کی جن پر مسلسل نظر رکھی جا رہی تھی۔ بالآخر 4 دسمبر کو نیول ہیڈ کوارٹرز نے ہنگور کو حملے کی اجازت دے دی۔ 9 دسمبر کو ان کی شناخت آبدوز شکن جہاز کھکری اور کرپان کے نام سے کی گئی۔ یہ وہی جہاز تھے جو ہنگور کو شکار کرنے کے لئے اُس پیغام کے نتیجے میں آئے تھے جو ہیڈ کوارٹرز کو بطورِ انتباہ بھیجا گیا تھا۔ کمانڈنگ آفیسر نے حتمی پیش قدمی کرتے ہوئے حملے کے لیے آبدوز کو سمندر میں گہرا غوطہ لگانے کا حکم دیا۔ تارپیڈو ٹیم اہداف کے درمیانی فاصلے‘ تارپیڈو کی صلاحیت اور اپنی حکمتِ عملی کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔ شام 7 بج کر 45 منٹ پر ہنگور سے کرپان پر گولا داغ دیا گیا۔ یہ گولا گہرائی زیادہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکا البتہ دشمن اس بات کا بخوبی اندازہ لگا چکا تھا کہ اُن پر حملہ ہوا ہے۔ یہ خطرناک صورتِ حال تھی کیونکہ دشمن حملے کی جگہ کا تعین کر چکا تھا۔ کرپان جیسے ہی فائرنگ رینج سے نکلا‘ کھکری جنوب کی سمت سے آبدوز پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ تارپیڈو ٹیم کی تمام تر توجہ اپنے دوسرے شکار پر مرکوز ہو گئی جس نے پُرسکون انداز میں تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھکری کو نشانے پر لیا۔ پاک بحریہ کے جانبازوں نے اعصاب شکن لمحات میں پُرسکون رہنے کی روایت پر عمل کرتے ہوئے جھپٹنے‘ پلٹنے‘ جھپٹنے کے سارے مراحل طے کئے اور دوسرا تارپیڈو کھکری پر داغ دیا۔ اس بار نتیجہ مختلف تھا۔ اس گولے نے کھکری کے بارود کے ذخیرے کو ہِٹ کیا تھا۔ بھارتی غرور خاک میں مل چکا تھا اور کھکری سمندر برد ہو رہا تھا، ہنگور جب کھکری تک پہنچی تو محض دو منٹ کے عرصے میں کھکری جہاز 194 ارکان سمیت غرق ہو چکا تھا اور کوئی بھی شخص زندہ نہ بچ سکا۔ یہ پوری بحریہ کی تاریخ کا ایک منفرد کارنامہ ہے کہ محض ایک گولے سے ایک جنگی بحری جہاز مکمل طور پر غرق ہو گیا۔اسی دوران کرپان ڈیبتھ چارج فائر کرتا ہوا آگے بڑھا۔ ہنگور نے تیسرا تارپیڈو کرپان پر فائر کیا جس نے اسے بری طرح نقصان پہنچایا اور کرپان نے واپسی کی راہ لی۔
اس معرکے سے پاک بحریہ اور ہنگور نے بھارتی بحریہ پر اپنی ہیبت و دہشت قائم کر لی۔ 9 دسمبر کی رات اس بے پناہ نقصان کا بدلہ لینے کے لیے بھارتی بحریہ نے آپریشن فالکن ترتیب دیا جس میں آبدوز شکن جہاز، ہیلی کاپٹر اور ہوائی جہازوں کے سکواڈرن شامل تھے؛ جنہوں نے سمندر میں ڈیڑھ سو سے زائد حملے کیے تاہم ہنگور کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور بالآخر چار دن بعد ہنگور مشن کی کامیابی کے بعد بحفاظت کراچی پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ دنیا کی جنگی تاریخ کا بھارتی جنگی جہاز کو ڈبونے کا عالیشان فتح یابی کا یہ واقعہ بھارت کے مغربی ساحل پر ڈیو ہیڈکے جنوب مشرق میں 30 میل دور وقوع پذیر ہوا تھا۔ 
آبدوز ہنگور یقینا پاک بحریہ کا فخر ہے۔ اس کا یہ معرکہ نہ صرف ایک شاندرا جنگی حربہ تھا جس نے بھارتی نیوی کے فریگیٹ جہاز کو سمندر برد کر دیا بلکہ یہ پاک بحریہ کی سٹریٹیجک حکمت عملی کا ایسا آغاز تھا جس نے 71ء کی جنگ میں بھارت کی جانب سے پاکستان پر مسلط کی گئی جارحیت کا بھرپور جواب دے کر اسے محدود کر دیا۔ کھکری کے ڈوبنے کے ساتھ ہی بھارتی بحریہ کے محض حوصلے ہی پست نہیں ہوئے بلکہ دشمن کے مغربی پاکستان بالخصوص کراچی پر حملہ آور ہونے کے مذموم ارادے بھی خاک میں مل گئے۔ بھارتی بحری جہاز کھکری کا سمندر میں پاک بحریہ کے ہاتھوں غرقاب ہونا صرف ایک جنگی جہاز کی تباہی نہیں تھی بلکہ اس کے باعث بھارتی بحریہ کا مورال اور ناپاک عزائم‘ دونوں خاک میں مل گئے تھے۔ 1971ء کی جنگ کے دوران بھی پاک بحریہ کے آفیسرز اور جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر کے اس ملک کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا تھا۔ دوسری جانب پاکستان نیوی کی آبدوز غازی کو بے آف بنگال میں تعینات کر کے سمندری بارودی سرنگیں بچھانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان میں موجود پاکستان نیوی کی گن بوٹس راج شاہی اور کومیلا نے بھارتی حملوں کے سامنے بھرپور مزاحمت کی اور ان کے کئی جہازوں کو نقصان پہنچایا۔ 1965ء کی جنگ میں بھی پاک بحریہ کے جہازوں نے بھارت کے پانیوں میں 200 سمندری میل اندر جا کر بھارتی بحریہ کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔
پاک بحریہ کا جانوں کے نذرانے پیش کرنے کا جذبہ صرف جنگوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ بحری تنصیبات اور اثاثہ جات کی حفاظت اور نگرانی میں بھی یہی جذبہ کار فرما ہے۔ پاکستان نیوی کے ایوی ایشن بیس پی این ایس مہران پر حملہ ہو یا پاک بحریہ کے تعلیمی اور تربیتی ادارے پی این وار کالج لاہور میں موجود اہم ملکی اور غیر ملکی شخصیات کی زندگیوں کے تحفظ کی ضمانت‘ دہشت گردوں کے ناپاک عزائم ناکام بنانے میں پاک بحریہ کے بہادر آفیسرز اور جوانوں نے اپنی قیمتی جانیں پیش کر کے ہزاروں قیمتی انسانی جانوں اور حساس دفاعی تنصیبات کی حفاظت کی۔ شجاعت،جرأت اور بہادری کے یہ کارنامے آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں۔ آج پاکستان نیوی دنیا کی بہترین نیویز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس جدید اور بہترین دفاعی اور دشمن پر سبقت رکھنے والے ہتھیار موجود ہیں۔ یاد رہے کہ دنیا کی 93 فیصد تجارت سمندروں کے ذریعے ہوتی ہے، پاکستان نیوی کا کردار امن و جنگ‘ دونوں زمانوں میں بہت اہم ہے اور پاک نیوی اس سے پوری طرح آگاہ ہے۔ آج بھارتی و استعماری قوتوں کی بڑھتی ہوئی سازشوں اور سی پیک سمیت گوادر پورٹ و مزید ملکی تعمیرو ترقی اور سکیورٹی کے پیش نظر پاک نیوی کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مستقبل کی جنگیں سمندروں میں لڑی جائیں گی‘ ایسے میں بحریہ کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا اپنی بحری برتری کی دھاک بٹھانے کے لئے خلیج فارس سے لے کر بحر ہند تک ہر حربہ آزما رہا ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنی سمندری حدود کی حفاظت کی ضرورت نہیں‘ وہ کسی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ ہماری بقا و سلامتی بری، فضائی اور بحری قوت میں پوشیدہ ہے۔ ہماری نیوی کے جانباز سرکریک سے جیونی کے ساحلوں تک جذبہ ایمانی و حب الوطنی سے سرشار دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں۔
اسلامی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سب سے پہلا جنگی بحری بیڑہ حضرت عثمان غنی ؓ کے دور میں امیر معاویہؓ نے بنایا تھا۔ 28ھ میں پہلا اسلامی بحری بیڑا پہلی دفعہ بحر روم میں اترا تھا۔ اس طرح افریقہ اور یورپ کی سرزمین پر اسلامی جھنڈا سمندر میں لہرایا گیا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاک بحریہ بھی ہماری بری اور فضائی افوج کے شانہ نشانہ ملکی دفاع و سالمیت کے لئے پوری طرح مستعد ہے اور کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاک بحریہ چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل امجد خان نیازی کی قیادت میں سمندری حدود کے دفاع، سی پیک اور گوادر پورٹ کی سکیورٹی کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ ایڈمرل امجد خان نیازی خطے میں بے شمار چیلنجز سے نبرد آزما ہیں اور بحر ہند میں بھارتی مذموم سر گرمیوں کے تدارک اور امن و استحکام کے قیام کے لیے مسلسل سرگرمِ عمل ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں