بھارتی آرمی چیف کا دورۂ خلیج، خطے میں تشویش کی لہر

پاکستان کو غیر مستحکم کروانے میں عالمی و صہیونی قوتیں کس طرح پاکستان کے پرانے دوست ملکوں کو استعمال کرنے کے عزائم رکھتی ہیں‘ اس کا ثبوت بھارتی آرمی چیف کا حالیہ دورۂ عرب ہے جسے بھارت نے ایک تاریخی دورہ قرار دیا ہے۔ جنرل نروانے بھارت کے پہلے فو جی سر برا ہ ہیں جنہوں نے خلیجی ریاستوں کا سرکاری دورہ کیا ہے‘ اس سے قبل کسی بھارتی آرمی چیف نے ان ممالک کا دورہ نہیں کیا تھا۔ دراصل بھارت خطے میں اسرائیل کی ایما پر ''بڑے کردار‘‘ کے لئے پر تول رہا ہے اور اسرائیل کے توسط سے ہی اسے عرب امارات میں پاکستان کے خلاف زمین ہموار کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ بہرکیف اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کے عرب ممالک سے تعلقات میں پہلی جیسی گرمجوشی نہیں رہی ۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں یکے بعد دیگرے تبدیلیوں، عرب ایران کشیدگی، ایرانی سائنسدان کا قتل، امریکا میں نئی حکومتی انتظامیہ جیسے واقعات کے تناظر میں بھارتی آرمی چیف جنرل منوج نروانے کا دورۂ متحدہ عرب امارات و سعودی عرب یقینا تشویشناک ہے۔ بھارتی آرمی چیف جنرل نروانے کی عرب ممالک کی اعلیٰ فوجی قیادت سے ملاقاتیں اور ان سے دفاعی تعاون بڑھانے پر بات چیت بھی ہمارے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں؛ چنانچہ بھارتی آرمی چیف کے دورۂ خلیج کے اصل محرکات کو سمجھنے کے لئے پاکستان کے حوالے سے تیزی سے بدلتی ہوئی سٹریٹیجک صورتحال کو بغور دیکھنا ہو گا۔ سعودی عرب اور یو اے ای کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری اور غلط فہمیوں نے اُس وقت جنم لیا جب گزشتہ سال ترکی کے صدر طیب اردوان، ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان کوالالمپور میں اسلامی ممالک کے سربراہان کا اجلاس بلانے پر اتفاق ہوا‘ جس پر سعودی عرب کا سخت ردعمل سامنے آیا۔ اسی طرح یواے ای نے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں پہلی بار بھارتی وزیر خارجہ کو مدعو کیا جس کے ردعمل میں پاکستان نے او آئی سی اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔یمن کی جنگ میں سعودی عرب کی حمایت نہ کرنے پر پاک سعودی لازوال دوستی میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں، بعد ازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جب او آئی سی میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر نہ کرنے پر عرب ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا تو تلخیاں مزید بڑھ گئیں حالانکہ پاکستان اور سلطنت سعودی عرب کے مابین دیرینہ تعلقات کی تاریخ کئی دہائیوں پر قائم ہے۔ بلاشبہ مسلم اُمہ ایک جسم‘ ایک جاں کی مانند ہے۔ خاتم النبیین حضرت محمدمصطفیﷺ نے مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق اور باہمی تعاون کی تعلیم دی اور فرمایا: مومن کے لئے مومن کی مثال ایک عمارت کی سی ہے جس کے مختلف حصے ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔
مذکورہ حدیث پاک کی روشنی میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں بلکہ ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اس بھائی چارے، ہم آہنگی ا و ردوستی کے تناظر میں وطن عزیز اور مملکت سعودیہ کے مضبوط و گہرے مراسم کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال ریاست نے پُرآشوب حالات میں بھی پاکستان کا ساتھ نہیں چھوڑا جبکہ مشکلات پر قابو پانے کے لئے بے مثل تعاون فراہم کیا۔بحیثیت مسلمان مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے سعودی عرب سے ہمارا عقیدت و احترام کا رشتہ بھی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب کی سلامتی اور حرمین شریفین کی حرمت و تقدس کو اپنی سلامتی و دفاع سے بڑھ کر عزیز جانا ہے۔ سعودی عرب نے بھی پاکستان کی مدد‘ خواہ وہ تیل کی صورت میں ہو یا اربوں ڈالرز کی شکل میں ہو‘ کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز مقاماتِ مقدسہ کے علاوہ شاہی خاندان کی حفاظت پر بھی مامور ہیں، اسلامی عسکری اتحاد کی سربراہی پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے۔ اب ان کے معاہدے کی مدت ختم ہو رہی ہے‘ یہاں پر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کے بعد ملٹری الائنس کی سربراہی کس کو سونپی جائے گی؟اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارتی آرمی چیف کی خلیج یاترا کے بعد عرب ممالک کے بھارت کے ساتھ نئے معاشی معاہدوں کے ساتھ ساتھ عسکری و دفاعی شعبوں میں بھی تعاون بڑھے گا۔ سعودی فوجیوں کو تربیت کے لئے بھارت بھیجا جائے گا اور بھارتی فوجی سعودیہ جائیں گے۔ یہ بھی خارج ازامکان نہیں کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے مابین مشترکہ فوجی مشقوں کا آغاز بھی جلد ہوجائے۔ درحقیقت دونوں دیرینہ و تاریخی دوست مسلم ممالک کے مابین تناؤ کا فائدہ بھارت نے اٹھایا ہے۔دوسری جانب عرب حکمرانوں کی بے اعتنائی اور بے وفائی پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کس طرح ہزاروں مسلما نوں کے قاتلِ اعظم نریندر مودی پر نوازشات کی گئیں۔ ادھر کشمیر میں وہ مسلمانوں کو ذبح کر رہا ہے اور ادھر عرب میں اسے اعلیٰ ترین اعزازات دیے جا رہے ہیں۔ یمن کے معاملے پر سعودیہ ایران تنائو اورپاکستان کی خلیجی ممالک کے ساتھ کشیدگی نے بھارت کو عرب امارات میں پاؤں جمانے کے سنہری مواقع فراہم کئے ہیں؛ چونکہ یمن کی جنگ میں ایک فریق ایران ہے اور حوثی قبائل کی حمایت سعودی عرب سے وجۂ تنازع بنی ہے اور یمن کی جنگ نے خلیجی ممالک کو عدم تحفظ کے احساس سے دوچار کردیا تو حالات کی نزاکت کو بھانپ کر بھارت نے روایتی مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عرب ملکوں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے عربوں کے اس بدلتے ہوئے رجحان کو الیکشن کارڈ کے طور پر استعمال کیا اور عرب اسرائیل امن ڈیل بھی اسی مذموم منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ ادھر چین اور ایران کے مابین طویل مدتی معاہدہ اور چابہار بندرگاہ کی تعمیر و ترقی کے بھارتی ٹھیکے کی منسوخی نے بھارت کے اوسان خطا کر دیے۔ خطے میں چینی اثر و رسوخ سے خائف بھارت نے ایران کو نیچا دکھانے کیلئے عرب ملکوں کے تیل پر نظریں جما لیں۔ پاکستان، ترکی، ایران اور ملائیشیا کے ایک علیحدہ بلاک بنانے کے حوالے سے بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈا نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت کے عربوں سے دوستانہ تعلقات بڑھانے کا ہدف صرف پاکستان کی خلیجی ممالک میں اہمیت کو کم کرنا اور اسلحے کی فروخت ہے۔ براہموس کروز میزائل سسٹم‘ جو خاصا مہنگا ہے اور روس کی اشتراک سے بنایا گیا ہے‘ کو بیچنے کے لئے عرب ممالک سے بہتر کوئی منڈی نہیں۔ موجودہ حالات واقعات کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہنا بھی بے جا نہیں کہ بھارت عرب سر زمین سے پاکستان کو بے دخل کر کے اپنی جگہ بنانے کیلئے مسلسل کوشاں ہے جبکہ ہمارے ازلی دشمن کی عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی سازش یورپی یونین کی ذیلی تنظیم نے بے نقاب کر دی ہے۔ یورپی یونین کی تنظیم ای یو ڈس انفو لیب کے تہلکہ خیز انکشافات نے مودی کے بھارت کا بدنما چہرہ دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے کہ کس طرح750بھارتی ویب سائٹس اور فیک این جی اوز پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا میں سر گرم رہیں۔
ہم کسی بھی صورت میں نہ تو اسرائیل کو تسلیم کرسکتے ہیں اور نہ بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک سکتے ہیں۔ ہماری بہادر پاک افواج ملکی سالمیت و اس کی سرحدوں کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیا ر ہیں۔ الحمدللہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور اسی باعث اسلام دشمنوں کوکھٹکتے ہیں۔ اگر ہم آج مشرق وسطیٰ کے ملکوں کاحال دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے عسکری اداروں نے کس قدر بے جگری سے ملکی استحکام کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے عسکری قیادت اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سعودی عرب اور عرب امارات کا دورہ کر کے ان ممالک کے تحفظات دور کرے۔ حکومت کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور وطن عزیز کے خلاف عالمی ہنود و یہود گٹھ جوڑ کے خطرے کا ادراک کرتے ہوئے از سر نو آزاد خارجہ پالیسی متعین کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں