ڈیتھ آف انڈیا؟

سابق سربراہ آئی ایس آئی سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نے نریندر مودی کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خود اپنے ہاتھوں سے بھارت کو تباہ کرے گا اور آج بھارت میں حالات اس نہج پر آ گئے ہیں۔ آر ایس ایس کے پرچارک بھگوا وزیراعظم نے صرف مسلمانوں ہی نہیں‘ عیسائیوں، دلتوں، نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندوئوں اور سکھوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ بھارتی نام نہاد یوم جمہوریہ پر کسان کش قانون کیخلاف سراپا احتجاج سکھ کاشتکاروں کا لال قلعہ پر سکھوں کا جھنڈا لہرانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اب بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا، یہ تقسیم ایک‘ دو نہیں بلکہ درجنوں حصوں میں ہو گی۔ مقبوضہ کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک‘ آزادی کی تحریکوں میں تیزی آ گئی ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ مائو باغی، تامل، ناگا نسل کے لوگ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ نہ صرف کشمیر آزاد ہوگا بلکہ دہلی کے تخت پر بھی اسلام کا پرچم لہرا رہا ہوگا۔ یہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت بھی ہے جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد سے ذرا پہلے پوری ہونا ہے؛ تاہم سکھ کسانوں نے تمام تر حکومتی جبر، پولیس، آنسو گیس شیلنگ، سپیشل پیرا ملٹری فورسز کی رکاوٹوں کو عبور کرکے لال قلعہ پر دھاوا بول کر فاشسٹ مودی کو یہ پیغام دیا کہ وہ اب اس کے ظلم کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ یہ وہی لال قلعہ ہے جس پر کھڑے ہو کر خطے کے تھانیدار بننے کے خبط میں مبتلا مودی نے پاکستانی علاقوں میں ترنگا لہرانے کے ناپاک ارادے کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو للکارا تھا اور اب ٹھیک اسی مقام پر اسے منہ کی کھانا پڑی ہے۔
دہلی میں دھرنا دینے والی کسان تنظیموں نے بھارتی یومِ جمہوریہ سے دو روز قبل عندیہ دیا تھا کہ اگر نئے زرعی قانون کو منسوخ نہ کیا گیا تو انہیں دارالحکومت کا گھیرائو کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سکھوں کے شدید احتجاج نے بھارتی وزیراعظم کو پریڈ کے وقت سے پہلے ہی گھر جانے پر مجبور کر دیا۔ کسانوں کے ٹریکٹر مارچ میں 1لاکھ سے زائد ٹریکٹروں نے شرکت کی، سارا دن دہلی میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرتا رہا ۔نریندر مودی اور اس کے حواری آج کے جنرل ڈائر بن کر پُرامن جلوسوں اور مظاہروں پر تشدد کا حکم دے رہے تھے۔ دارالحکومت کی فضا میں آزادی کے نعروں کی گونج نے اکھنڈ بھارت کے خواب کو چکنا چور کر دیا جس کی تکمیل کے لئے بھارت نے پورے جنوبی ایشیا کا امن دائو پر لگا رکھا ہے۔ کسان تنظیموں کے مطابق‘ نئی دہلی سرکار سرمایہ داروں کے ہاتھ میں کھیل رہی ہے، آڑھت کے نام پر نجی کمپنیوں کو ایسے غیر معمولی مراعات و اختیارات سے نوازا جا رہا ہے جن کے باعث ان کیلئے ممکن ہو گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے نرخوں پر خریداری و ذخیرہ اندوزی کر سکیں۔ زرعی اراضی بڑے بڑے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو منتقل ہو رہی ہیں، امبانی اور اڈانی کی ایگرو بیس 53 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ گزشتہ دنوں بھارتی کاشتکاروں نے ریلائنس گروپ کی تعمیرات کو آگ لگا کر غم و غصے کا اظہار کیا۔ زرعی شعبے کی اصلاحات کی تباہ کاریاں بھارتی کسان بخوبی دیکھ چکے ہیں‘ قرضوں کی عدم ادائیگی، فصل کی مناسب قیمت نہ ملنے، پیداواری لاگت میں ہوشربا اضافے اور دیگر وجوہات کی بنا پر کسانوں کی خود کشی کے اقعات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ زرعی زمینوں کے خوفناک استحصال کی وجہ سے ان کی حالت ابتر ہو چکی ہے‘ وہ بتدریج اپنی زمینوں سے محروم ہو رہے ہیں، ایسے میں نئے قوانین سے متعلق کسانوں کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس عاجلانہ اور آمرانہ طریقے سے زرعی قوانین کو بھارتی پارلیمان سے منظور کروایا گیا‘ وہ بھارتی جمہوریت کے چہرے کا ایک بدنما داغ ہے۔ کسان تحریک کو بدنام کرتے ہوئے اس کی سرپرستی کا الزام بھی پاکستان پر تھوپ دیا گیا ہے۔ بھارتی متعصب میڈیا حسبِ معمول کسان تحریک کے خلاف نہایت لغو اور غیر ذمہ دارانہ روش اختیار کئے ہوئے ہے۔
2014ء میں بحیثیت وزیراعلیٰ گجرات‘ نریندر مودی نے صوبے کی زراعت کا ٹھیکا اسرائیل کو دیا تھا، بھارت سے سالانہ 88.36 ملین ڈالر سے زائد کی زرعی اجناس اسرائیل بھیجی جاتی ہیں‘ یہی سبب ہے کہ اسرائیلی سفیر نے بھارتی کسانوں کے خلاف مودی سرکار کی حمایت میں بیان دے کر مودی اسرائیل گٹھ جوڑ پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ کسانوں کی تحریک سے خوفزدہ بھارت کو ہر احتجاج میں ''خالصتان‘‘ ہی دکھائی دیتا ہے۔ سکھوں کی ایک بڑی تعداد زراعت سے وابستہ ہے‘ انہیں علیحدگی و خودمختاری کا مطالبہ کرنے کی سزا دینے کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب کورونا کی بدولت دنیا کساد بازاری کا شکار ہے‘ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ آگے آئیں اور بھارت کے کسانوں کی حالت زار کا نوٹس لیتے ہوئے برہمن کے شکنجۂ استبداد سے انہیں نجات دلائیں، وگرنہ مودی کا جانا نوشتۂ دیوار ہے۔بھارتی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی وہاں ستم حد سے بڑھتا ہے‘ عوامی غیظ و غصے پر مبنی سنگین ردعمل سامنے آتا ہے۔ اندرا گاندھی کا قتل، راجیو گاندھی پر خود کش حملہ اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ مودی کو ان واقعات سے عبرت پکڑنی چاہیے۔ آج کے بھارت میں گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کو آر ایس ایس کے فرقہ پرست رہنمائوں نے جڑسے اکھاڑ کر بھارت سے باہر پھینک دیا ہے۔
بھارت میں اس وقت سو سے زائد علیحدگی کی تحریکیں زوروں پر ہیں جن میں 17 بڑی اور دیگر درجنوں چھوٹی تحریکیں ہیں۔ صرف آسام میں 34 عسکریت پسند تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ نکسل باری نے خطرناک شکل اختیار کر لی ہے۔ بھارت کا شمال مشرقی خطہ ایک عرصے سے احساسِ محرومی کا شکار ہے‘ اس خطے کی سات ریاستیں‘ جو ''seven sisters‘‘ کہلاتی ہیں‘ برہمن سماج سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ہر مہینے درجنوں فوجی افسران اور ماتحت فوجیوں کی بڑی تعداد کو برہمن کی ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھا یا جا رہا ہے۔ بھارت کی ریاستی شر انگیزیوں سے اس کے چھوٹے ہمسایہ ممالک نیپال، بھوٹان اور سری لنکا بھی محفوظ نہیں ہیں۔ وطن عزیز کی سالمیت کے خلاف بھی گزشتہ 73 سالوں سے بھارت نے مذموم مہم چھیڑ رکھی ہے اور اپنے ناپاک عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے افغانستان کو اپنی ریشہ دوانیوں کا مرکز بنا رکھا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی نریندر مودی کی آلہ کار بن چکی ہے جس کی سی پیک سے لے کر چابہار بندرگاہ تک‘ عظیم منصوبوں کے خلاف سازشیں جاری ہیں۔ اس وقت بھارت میں داخلی خلفشار عروج پر ہے‘ جی ڈی پی ریٹ گر چکا ہے‘ بیروزگاری بلند ترین سطح پر ہے‘ معاشی صورتحال نہایت ابتر ہے‘ سماجی و سیاسی حالات بھی دگر گوں ہیں‘ ہر شعبہ سنگھ پریوار کے قبضے میں ہے‘ معاشرے سے مسلم چھاپ مٹانے کیلئے مغل حکمرانوں سے منسوب شہروں، شاہراہوں اور عمارات کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں‘ شہریت قانو ن کے نام پر مسلمانوں کیلئے بھارت کو روہنگیا بنانے کی باقاعدہ منصوبہ کی جا چکی ہے اور اس مذموم منصوبے کے پہلے مرحلے میں آسام کے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر انہیں ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرکے حراستی مراکز میں قید کر دیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بھارتی ستم گری پر پوری دنیا میں سکوت طاری ہے، وہ بھارتی عصبیت زدہ معاشرے میں اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے اقلیتی طبقوں پر توڑے جانے والے مصائب پر محو تماشا ہے۔ دہلی فسادات میں مسلمانوں کو خون میں نہلا دیا گیا، 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خود مختاری کو ہڑپ کر تے ہوئے بربریت و سفاکیت کی نئی مثالیں قائم کی گئیں مگر کہیں کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔ یہ ہے وہ دنیا کی نمبر ون جمہوریت کا دعویدار بھارت‘ جس نے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رکھی ہے۔ اگرچہ انڈین سیکولر آئین نے تمام فرقوں اور مذاہب کو دفعہ 25 میں مساواتِ عقیدہ، اخوتِ عبادت، سیاسی، معاشی اور سماجی انصاف کی ضمانت دی ہے لیکن برسر اقتدار بی جے پی کی ہندوتوا پر کارفرما حکومت نے بھارتی سیکولر ازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے اور عنقریب سیکولر انڈیا کی موت ''ڈیتھ آف انڈیا‘‘ ثابت ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں