افغانستان میں امریکی شکست؟

جوبائیڈن انتظامیہ کم و بیش تین ماہ مخمصے کا شکار رہنے کے بعد بالآخر اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ امریکا اپنی طویل ترین جنگ کا اختتام کرتے ہوئے نائن الیون کے 20 سال مکمل ہونے تک افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کا عمل مکمل کر لے گا۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا یہ کام مئی میں شروع ہو گا۔ اس ضمن میں یہ تحفظات بھی سامنے آئے ہیں کہ اگر افواج کی واپسی کے دوران افواج پر کوئی حملہ ہوا تو امریکا بھرپور جوابی کارروائی کرے گا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ خفیہ اداروں کی رپورٹ پر صدر جو بائیڈن اور ان کے عسکری رفقائے کار نے افغانستان میں نیٹو فوج کے قیام میں توسیع کا عندیہ دیا تھا جس پر پاکستان نے حسبِ سابق پائیدار امن کے لئے فوجی حل کی نفی کرتے ہوئے دوحہ امن معاہدے پر کاربند رہنے پر زور دیا تھا۔ اب امریکی حلقوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اگر نیٹو فوج کو واپس نہ بلایا گیا تو آئندہ شاید ان کی واپسی ممکن نہ ہو۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلیفونک رابطے کے دوران افغان امن عمل میں حالیہ پیش رفت، خطے کی سکیورٹی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا۔ آرمی چیف نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ بلاشبہ صائب ہیں جس سے دنیا کو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ پُرامن افغانستان کی مدد سے علاقائی وسائل کے بہترین استعمال کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگرممالک کے درمیان تعاون و اشتراک کی راہیں ہموار ہوں گی؛ چنانچہ امریکی فوج کی واپسی کا چار ماہ کا عرصہ انتہائی حساس نوعیت کا حامل ہے جس کے لئے افغان فریقین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر کسی بھی قسم کی کشیدگی پیدا نہ ہونے دیں اور تمام امن عمل افہام و تفہیم اور خوش اسلوبی سے مکمل کریں۔
خیال رہے کہ ا قوام متحدہ اور قطرکے تعاون سے استنبول (ترکی) میں دوحہ معاہدہ کو آگے بڑھانے کیلئے 24 اپریل سے 4 مئی تک افغان امن کانفرنس کا انعقاد نہایت اہم ہے۔ افغان حکومتی نمائندوں اور طالبان نمائندوں کے مابین مذاکرات ہوں گے جس میں فریقین کو مشتر کہ بنیادی نکات پر مشتمل سیاسی مفاہمت کا روڈ میپ بنانے میں مدد دی جائے گی۔ اسی سلسلے میں گزشتہ ماہ روس نے بھی ماسکو میں افغانستان پر ایک عالمی کانفرنس کی میزبانی کی تھی جبکہ روسی وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان کے دوران بھی دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں اور علاقائی امن اور استحکام کیلئے کاوشوں خاص طور پر افغان امن عمل کیلئے پاکستان کے مخلصانہ کردار کا اعتراف کیا گیا۔ بلا شبہ افغانستان میں امن کوششوں کا جلد بارآور ہونا عالمی امن کے مفاد میں ہے اور پاکستان اس ضمن میں مقدور بھر کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ سوویت یونین کی فوجی چڑھائی، سوویت افواج کا انخلا اور اس کے بعد پیدا ہونے والے غیر سنجیدہ حالات، طالبان کی حکومت سازی، نائن الیون سانحہ اور اتحادی افواج کی جارحانہ آمد سمیت کسی بھی قسم کے حالات میں پاکستان نے افغانستان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ چالیس سال سے زائد عرصے سے لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔
جنرل (ر) حمید گل مرحوم فرماتے تھے ''جب تاریخ رقم ہو گی تو لکھا جائے گا کہ پاکستان نے امریکا کی مدد سے روس کو شکست دی اور پھر لکھا جائے گا کہ پاکستان نے امریکا کے ذریعے امریکا ہی کو شکست دی‘‘۔ آج دو دہائیوں بعد جنرل (ر) حمید گل مرحوم کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور دنیا کی سپر پاور کہلوانے والا ملک امریکا افغان سرزمین سے بھاگنے پر مجبور ہوا۔ بلاشبہ افغان طالبان اور امریکا کے مابین طے پانے والا امن معاہدہ جری و بہادر افغان قوم کی فتح کا مظہر ہے۔ قبل ازیں اسی خطے میں اُس وقت کی ایک بڑی طاقت سوویت یونین کا تکبر اور غرور خاک میں ملایا گیا تھا۔ جدید ٹیکنالوجی اور مہلک جنگی ہتھیاروں سے لیس اقوام عالم کی نمبر ون عسکری و فوجی قوت 20 سال تک افغانستان کی سنگلاخ چٹانوں اور پہاڑوں میں دھول چاٹتی رہی۔
یہ وہی امریکا ہے جس نے نائن الیون کا بہانہ بنا کر ایک مفلوک الحال غریب ملک کو تر نوالہ سمجھ کر ہضم کرنا چاہا تھا اور نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کو جواز بنا کر نہتے اور مظلوم شہریوں کو بربریت کا نشانہ بنایا۔ ان افغان شہریوں پر ''مدر بموں‘‘ سے بمباری کرتے ہوئے تباہی اور بربادی کے ہولناک مناظر دہرائے گئے۔ اس سے پہلے دوسری جنگِ عظیم میں جاپان نے امریکی جزیرے پرل ہاربر پر حملہ کر کے امریکی طاقت کو للکارا تھا جس کے نتیجے میں امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی کو ایٹم بموں کے ذریعے خاک میں تبدیل کر دیا تھا اور جاپان گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ دراصل نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں میں امریکی عالمی بالادستی کو چیلنج کیا گیا تھا، تب امریکا نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ''یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن ہیں‘‘ یعنی اقوام عالم کو صرف ایک آپشن دیا گیا کہ امریکا کے ساتھ کھڑے ہو جائیں وگرنہ اس کی بربریت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس پرائی جنگ کا حصہ بننے کے نتیجے میں پاکستان کو انتہا پسندی، عدم برداشت اور ان سب کے نتیجے میں ہولناک دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔
افسوس دنیا کی تمام قوموں کے محافظ اور ان کے حقوق کی پاسداری کرنے والے اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں نے بھی ان مظالم میں پورا پورا ساتھ دیا۔ حالانکہ جنرل (ر) حمید گل صاحب نے کوشش کی تھی کہ مسئلہ گفت وشنید سے حل کر لیا جائے اور امریکا افغانستان پر فوجی چڑھائی کا فیصلہ بدل دے، اس سلسلے میں ضروری تھا کہ افغان قیادت کو اعتماد میں لیا جاتا۔ ایک جیوری بھیجنے کی تجویز بھی امریکا کو پیش کی گئی تھی جو انکوائری کرے کہ واقعی اسامہ بن لادن نائن الیون جیسے واقعے میں ملو ث ہے یا نہیں؟ دنیا نے دیکھا کہ افغان طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں پلاننگ کی جاتی ہے اور افغانستان کو نشانہ بنانے کے لئے نیٹو پائلٹوں کو ٹریننگ امریکا میں دی جاتی ہے۔ سلامتی کونسل میں 48 ملکوں کی رضامندی سے امریکی فوج افغانستان پر چڑھ دوڑتی ہے۔20 سال بعد تاریخ نے انصاف کرتے ہوئے طاقت کے نشے میں چور امریکا کو انہی ''جاہل، اجڈ اور ان پڑھ‘‘ لوگوں کے سامنے جھکا دیا جن سے امریکا بات چیت پر بھی تیار نہ تھا۔ اب اسے اپنی فوجیں بحفاظت یہاں سے نکانے کیلئے طالبان سے امن معاہدہ کرنا پڑ رہا ہے۔ دوحہ میں ملا انس حقانی اور ملا برادر سے ہاتھ ملایا گیا اور انہی افغان طالبان رہنمائوں کے دستخط سے مذکورہ معاہدہ ممکن ہو سکا۔
قارئین کرام! آج وہی امریکا اور وہی یونائٹیڈ نیشنز ہے‘ جنہوں نے طالبان کو دہشت گرد قرار دیا تھا اور آج اپنے مفادات کی خاطر ان ''دہشت گردوں‘‘ سے نہ صرف ڈیل کر لی بلکہ سلامتی کونسل سے اس معاہدے کی توثیق بھی کروا لی گئی ہے۔ یعنی عالمی اداروں کا کام بھی محض امریکا، ناجائز ریاست اسرائیل اور مسلم دشمن قوتوں کے مفادات کی نگہبانی کرنا رہ گیا ہے۔ جنگِ افغانستان سے متعلق خفیہ دستاویزات سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس خطے میں امریکی مہم بدترین شکست سے دوچار ہوئی ہے، جس کی وجہ سے امریکی فوج اور حلیف ممالک کی فوجوں کے مقتولین میں مسلسل اضافہ ہوا، دو دہائیاں گزرنے کے باوجود دسیوں ہزار شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ امریکا یہاں اپنی فوجی کاروائیوں پر 760 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے جبکہ متعدد رپورٹوں میں یہ تخمینہ ایک ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ لگایا گیا ہے۔ اس دوران 3200 امریکی فوجی مارے گئے، 20 ہزار 500 زخمی ہوئے۔ نیٹو اور اتحادی ممالک کے 1145 فوجی مارے گئے۔ واضح رہے کہ یہ تعداد صرف فوجیوں کی ہے دیگر شعبوں میں کام کرنے والے اور افغان فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 64 ہزار سے بھی زائد بتائی گئی ہے۔ ہم امریکا کی شکست کے حوالے سے ویتنام اور کوریا کی جنگوں کے بہت حوالے دیتے ہیں لیکن یہ اکیسویں صدی کی سب سے بڑی مثال ہے کہ جہاں جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی اور پڑوسی ملکوں کی لاجسٹک سہولتوں سے لیس ملک نے خرقہ پوشوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
موجودہ عالمی تناظر میں علاقائی امن و سلامتی کا سوال ہو یا عالمی امن اور ترقی کو درپیش چیلنجز‘ افغان امن عمل کی کامیابی کے بغیر ممکن نہیں۔ بھارت نے افغانستان میں ایسے پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ امن کی ہر کوشش اس کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پاتی۔ جب تک افغان عوام اور حکومت کو بیرونی سازشوں اور استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے نجات نہیں مل جاتی، خطے میں پائیدار امن کا قیام مشکوک رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں