پنجاب رینجرز: تاریخ کا روشن باب

پاکستان رینجرز کی تاریخ بہادری کے کارناموں سے بھری پڑی ہے،بلاشبہ رینجرز کے بہادر سپوتوں نے پاک فوج کے شانہ بشانہ اپنے لہو سے جرأت و شجاعت کی تاریخ رقم کی ہے۔ قوم کو رینجرز کے افسروں و جوانوں کی بہادری پر ناز ہے۔ پاکستان میں قیامِ امن کے دیرینہ خواب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے رینجرز نے گراں قدر خدمات انجام ہیں اور ان کی لازوال قربانیوں کی بدولت آج خوف کے سیاہ بادل چھٹ چکے ہیں اور شہری بلاخوف و ہراس معمول کی زندگی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان رینجرز ایک نیم فوجی ادارہ ہے جو اپنے نصب العین ''ہمیشہ تیار‘‘ کے تحت سرحدوں کی حفاظت، شورش زدہ علاقوں میں عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے۔رینجرز پاکستان میں داخلی سلامتی کو برقرار رکھنے اور ملک میں قانون نافذ کرنے والے ایک بڑے ادارے کی بھی ذمہ داریاں اداکرتے ہیں؛ تاہم اس کے باوجود انہیں پولیس کی طرح گرفتاری کا اختیار حاصل نہیں ہے البتہ ریاست عارضی طور پر ایسی پابندی ختم کر سکتی ہے ۔ داخلی سکیورٹی فورس کی حیثیت سے اس کا بنیادی مقصد حفاظتی اقدامات کے علاوہ منظم جرائم کا قلع قمع ہے۔ رینجرز کے ذریعے گرفتار تمام مشتبہ افراد کو بعد میں مزید تفتیش اور ممکنہ قانونی کارروائی کے لئے پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے‘ سوائے ان شاذ و نادر واقعات کے جب ریاست کے ذریعے رینجرز کو قانونی طور پر اختیار دیا جاتا ہے اور وہ مشتبہ افراد کو گرفتار اور نظربند کر پاتے ہیں۔ حکومت نے دوسری سکیورٹی تنظیموں جیسے فرنٹیئر کور کو بھی عارضی طور پر یہی مراعات دی ہیں۔
اس ادارے کا قیام ملک کے قیام کے ساتھ ہی عمل میں آیا تھا۔پاکستان رینجرز کو انتظامی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پنجاب رینجرز اور سندھ رینجرز جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اسے فرنٹیئر کور کہا جاتا ہے۔ اس کا سربراہ میجر جنرل ہوتا ہے، جسے چیف آف آرمی سٹاف تعینات کرتے ہیں۔ پنجاب رینجرز کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عامر مجید مغل ہیں اور اس کا ہیڈکوارٹر لاہور میں ہے۔ پنجاب رینجرز بھارت کے ساتھ 1300 کلومیٹر لمبی سرحد کی حفاظت کے بنیادی مشن کے علاوہ، گلگت، اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری، تربیلا، راجن پور اور کشمور میں داخلی سلامتی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پنجاب رینجرز اعلیٰ کارکردگی، پیشہ ورانہ مہارت، فرائض کی بجاآوری، احساسِ ذمہ داری کی روشن مثال ہیں۔پاکستان سپر لیگ 2018 ء کے لاہور میں ہونے والے میچوں میں پاک فوج کے ساتھ رینجرز کے جوانوں نے سکیورٹی کے فرائض سر انجام دیے تھے۔رینجرز کے جوانوں کا جوش اور ولولہ قابلِ تحسین اور مثالی ہے اور وہ اپنے مقدس فرائض کی ادائیگی میں کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔پنجاب رینجرز کی خدمات کا دائرہ کار صرف امن و امان تک محدود نہیں بلکہ رینجرز کے جوان سماجی کاموں اور موسم کی شدت سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ پسماندہ علاقوں میں میڈیکل کیمپوں کا انعقاد بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی ناگہانی صورتحال جیسے قحط سالی، سیلاب اور شدید بارشوں کی صورت میں سول انتظامیہ کے ساتھ امدادی کارروائیوں میں بھی مشغول نظر آتے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر پنجاب میں رینجرز کی کاوشیں قابلِ تحسین ہیں۔ پنجاب رینجرز کے جوان جنوبی پنجاب کے دور افتادہ علاقوں میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، مزید برآں پولیس اور فوج کے ساتھ مل کر معاشرے میں سمگلنگ اور منشیات کی روک تھام کے لیے کسٹم کے ساتھ مل کر کوشاں ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پنجاب رینجرز نے دہشت گردوں، ملک دشمن عناصر، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، اغوا برائے تاوان اور سٹریٹ کرائمز میں ملوث مجرموں کے خلاف کامیاب آپریشن کئے ہیں۔ سرحدوں، سرحدوں سے منسلک بستیوں اور دیہات کا تحفظ، سرحدی علاقوں سے غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنا ان کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جہاں بھی کہیں‘ دیہی و شہری علاقوں میں ضرورت پڑتی ہے مقامی سلامتی کے اداروں اور مقامی انتظامیہ کی مدد اور سہولت کاری میں یہ ادارہ پیش پیش رہتا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان سکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ رینجرز کی لازوال قربانیاں اور شہادتیں پاکستان کی تاریخ کا روشن باب ہیں جبکہ دہشت گردوں کی سرکوبی، سمگلروں کا قلع قمع کرنے میں رینجرز کا کلیدی کردار ہے۔رینجرز کا انسدادِ دہشت گردی ونگ 2004 ء سے سرگرمِ عمل ہے۔ اسے پاکستانی فوج کے خصوصی خدمات گروپ (ایس ایس جی) کی ضرار کمپنی نے تربیت دی ہے۔ایک نیم فوجی ملٹری سکیورٹی فورس ہونے کے حوالے سے رینجرز وفاقی وزارتِ داخلہ کے کنٹرول میں آتے ہیں۔ پاکستانی آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت ہنگامی حالات میں انہیں شہروں میں طلب کیا جا سکتا ہے۔
رینجرز خصوصی آپریشن انجام دینے میں آرمی کے سپیشل سروس گروپ کی معاونت کے فرائض بھی سرانجام دیتی ہے۔ 2009ء میں رینجرز نے سپیشل سروس گروپ کے ساتھ ساتھ، لاہور میں ایک خصوصی فوجی آپریشن مکمل کیا جب دہشت گردوں نے مناواں پولیس اکیڈمی پر حملہ کیا تھا۔ اس آپریشن کی سربراہی پاکستان رینجرز نے کی تھی۔اس سے قبل 1973 ء میں پنجاب رینجرز اور اسلام آباد پولیس نے غیر قانونی اسلحے کی اطلاعات پر اسلام آباد میں واقع عراق کے سفارت خانے پر چھاپہ مارا تھا۔ پاکستان رینجرز (پنجاب) نے اقوام متحدہ امن مشن کے تحت کوسوو، ہیٹی، مشرقی تیمور اور آئیوری کوسٹ میں پاکستان فارمیڈ پولیس یونٹ میں بھی خدمات سرانجام دی ہیں ۔دارفور (سوڈان) میں امن و امان کی بحالی کی ذمہ داری کیلئے تعینات سول آرمڈ فورس دستے میں بھی رینجرز کے دستے شامل رہے۔
پنجاب رینجرز کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل‘ میجر جنرل عامر مجید اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے سے ہی شاندار انداز میں اپنی قومی و ملکی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ خصوصاً مہلک وبا کورونا کے پھیلائو کو روکنے کی غرض سے لاہور سمیت صوبے بھر میں لاک ڈائون کو مؤثر بنانے کے سلسلے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی سر براہی میں پنجاب رینجرز دشوار ترین حالات میں عوامی خدمت میں مسلسل سرگرم عمل ہے۔ لاک ڈائون کے دوران پنجاب رینجرز نے ننکانہ صاحب، شوالہ پتجا سنگھ مندر سیالکوٹ میں سکھ اور ہندو برادریوں میں راشن تقسیم کرکے بین المذاہب ہم آہنگی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ دونوں برادریوں نے اس مشکل وقتوں میں اقلیتی طبقات کے ساتھ کھڑے ہونے پر رینجرز کی کاوشوں کو سراہا۔ ڈی جی رینجرز پنجاب اس دوران اپنے مسیحی بھائیوں کو بھی نہیں بھولے اور ان میں بھی راشن تقسیم کر کے بھائی چارے کو فروغ دینے میں اہم کردارادا کیا۔ رواں سال مارچ میں رینجرز نے ڈاکوئو ں، سمگلروں اور قانوں شکن عناصر کی سرکوبی کیلئے جنوبی پنجاب میں روجھان اور کچے کے علاقے میں آپریشن'رد السارق‘ کیا۔ اس آپریشن کا مقصد ان علاقوں میں قانون کی بالادستی کے علاوہ عوامی بہبود کے منصوبوں کو جانچنا بھی تھا۔ ڈائریکٹر جنرل پاک رینجرز (پنجاب) کی ہدایت پر کچے کے پسماندہ علاقوں میں میڈیکل کیمپوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ مستحق خاندانوں کو گھر گھر فری راشن بھی پہنچایا گیا۔ پنجاب رینجرز دیگر انتظامی اداروں کے ساتھ مل کر تعلیم، صحت اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کی تکمیل میں پیش پیش ہے۔ دراصل بارڈر کی سکیورٹی کی ڈیوٹی کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اندرونِ ملک بھی رینجرزکے اقدامات کا مقصد پسماندہ عوام میں شعور اجاگر کرنا اور علاقے سے احساسِ محرومی کا خاتمہ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں