وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر سمیت قومی خودمختاری کے تقاضوںاور مستقبل کے لائحہ عمل جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کیااور افغانستان کی صورتحال پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہاں امن کے شراکت دار تو ہو سکتے ہیں لیکن جنگ میں ساتھ نہیں دے سکتے۔ بے شک وزیراعظم نے ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا کو اڈے دینے کے حوالے سے دو ٹوک جواب دیا جس کو پوری قوم نے سراہا کیونکہ فرنٹ لائن اتحادی کا کردارادا کرنے کے باوجود امریکا نے پاکستان کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی و مذہبی جماعتوں کو حکومت کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے قومی یکجہتی کو فروغ دینا چاہئے کہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کواپنے انٹرویو میں بھی وزیر اعظم نے واضح کیا تھاکہ پاکستان افغان طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے علاوہ ہر طرح کے تعاون کے لیے تیار ہے۔ ایسے میں خطے کے بدلتے منظر نامے میں قومی سیاسی و عسکری قیادت کا اکٹھا ہونا خوش آئند ہے کیونکہ دنیا کی نظریں افغانستان اور ان حالات میں پاکستان پر ٹکی ہیں۔ یہ بات بہرطور مدنظر رکھنے کی ہے کہ افغانستان کے حالات کا پاکستان پر براہِ راست اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایسے وقت کہ امریکا وہاں سے اپنی افواج نکال رہا ہے‘ افغانوں کی اپنی مرضی و منشا کے مطابق کوئی میکنزم نہ بنا تو پورے خطے بالخصوص پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کسی بھی تنازع میں پڑنے سے گریز کیا جانا چاہئے کیونکہ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ موجودہ حالات میں مقبوضہ کشمیر اور افغانستان سے ملنے والے بعض اشارے سنگین چیلنجوں کی نشاندہی کر رہے ہیں اور ہماری کیفیت یہ ہے کہ داخلی مسائل سے نکلنے کی کاوشیں بھی پوری طرح بارآور نہیں ہو رہیں۔ اس جنگ کے دوران پاکستان کے 70 ہزار سے زائد شہری شہید جبکہ معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔افسوس واشنگٹن نے پاکستان کی عظیم قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سلامتی اور خودمختاری کے معاملے میں ہمارا ساتھ دینے کے بجائے بھارت اور دیگر پاکستان دشمن عناصر کولاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔ کٹھ پتلی افغان حکومت کی معاونت سے بھارتی دہشت گردوں نے پاکستان میں جو وحشت و دہشت کا بازار گرم کیا‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ نائن الیون سانحہ کے بعد امریکی صدر بش نے پاکستان کو پتھر کے زمانے کی جانب دھکیلنے کی دھمکی دے کر اسے افغان جنگ میں اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنا کر ''ڈومور‘‘ کے جو تقاضے کیے تھے ‘وہ آج بھی اسی طرح دہرائے جا رہے ہیں۔
اس بات میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے امریکی بلاک میں شامل ہونے سے سوویت یونین ہی نہیں دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا تھا ۔ افغانستان کے حوالے سے پاک امریکا تعلقات کے سبب70ء کی دہائی سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں اور ان تعلقات کا خمیازہ لاکھوں افغان مہاجرین کے بوجھ کے علاوہ ملک میں پیدا ہونے والی بدامنی کی صورت میں بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت سمیت ملک دشمن قوتوں کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان پر فیٹف کی تلوار لٹکتی رہے۔ دنیا اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ خطے میں قیامِ امن کیلئے پاک فوج اور قوم نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں‘ لہٰذا ایسی شاندار کارکردگی پر پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں گزشتہ 2 دہائیوں کے دورا ن امریکی کارروائیوں کا سب سے بڑا مرکز‘ بگرام ایئر بیس بھی امریکا خالی کر چکا ہے۔ امریکا نے جب نائن الیون کے بعد افغانستان کے خلاف جارحیت کاارتکاب کیا تھا تو واشنگٹن اور اس کے اتحادی ممالک کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ افغانستان میں من پسند مفادات حاصل کرنے میں انہیں کن کٹھن راستوں سے گزرنا پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ جہاں نتائج توقعات کے برعکس نکلے‘ وہیں شکست کے باعث ہونے والے مالی نقصانات نے ان ممالک خاص طور پر سپرپاور امریکا کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس امریکی کمزوری کا فائدہ کٹھ پتلی کابل انتظامیہ نے بھرپور طریقے سے اٹھایا۔ افغانستان میں امن کے راستے میں غنی حکومت کے ایسے بیشتر کرپٹ اراکین حائل ہیں جنہوں نے ایک جانب امریکا سے مالی مفادات جبکہ دوسری جانب پاکستان کے خلاف بھارت سے بھی بھاری فنڈز حاصل کر رکھے ہیں اور اس کامودی انتظامیہ نے خود بھی اعتراف کیا تھا کہ کچھ تنظیموں اور گروپوں کی بھارت کی جانب سے فنڈنگ کی گئی ہے۔
امریکا کو افغان جنگ میں 2001 ء سے اب تک2 کھرب ڈالر سے زائد نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ 30ہزار امریکی فوجی اس جنگ میں نشانہ بنے جن میں سے 3ہزار کے لگ بھگ ہلاک اور باقی عمر بھر کیلئے معذور ہوئے۔ افغانستان میں جنگ، تعمیرِ نو اور بحالی کے کاموں کیلئے کانگریس نے 144 بلین ڈالر کی رقم منظورکی لیکن جب ان منصوبوں کا جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ کل بجٹ کا 30 فیصد کرپشن اور دیگر ناجائز استعمال پر خرچ کیا گیا۔ 2008ء میں امریکی حکومت کے قائم کردہ ادارے ''سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن‘‘ کی رپورٹ کے مطابق‘ افغانستان کی تعمیرِ نو کیلئے ملنے والے 2.4 ارب ڈالرز پر شب خون مارا گیا؛ تاہم معیشت اور مالیات کے شعبے میں امریکا کا سب سے بڑا زوال یہ ہے کہ وہ آج قرض دینے والے ملک کے بجائے ''مقروض ‘‘ ملک میں تبدیل ہوچکاہے۔ گزشتہ چند برس سے امریکی معیشت سست روی کا شکار ہونے سے لاکھوں شہری بے روزگار ہوئے ہیں۔ دنیا کی سب بڑی معاشی طاقت2003ء کے بعد سے قرضوں کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے جس میں مسلسل500ارب ڈالر سالانہ کی اوسط سے اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی قرضوں میں 2008 ء میں ایک کھرب ڈالر، 2009 ء میں 2 کھرب ڈالر، 2010 ء میں 1.7 کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ جون2011 ء تک امریکا کے واجب الادا قرضوں کا حجم مجموعی طور پر 14.46 کھرب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔2019ء میں امریکی بجٹ خسارہ بھی کھربوں ڈالرز تک پہنچ چکا تھا۔ اس کے بعد کورونا کی وبا سے امریکی عوام جو کچھ بھگتنا پڑا‘ وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ پوری دنیا میں سب سے زیادہ‘ پانچ لاکھ سے زائد امریکی کورونا کے سبب ہلاک ہوئے۔
دوسری جانب افغانستان اور عراق کی جنگوں میں برطانیہ کی مداخلت پر اس کا 30 ارب پائونڈ خرچ ہوا۔ اسی طرح امریکا کے دوسرے اتحادی ممالک سے متعلق شائع ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی جانب سے افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھنے سے گریز کی بڑی وجہ جنگ میں ہونے والے عظیم اخراجات تھے جن کے وہ مزید متحمل نہ ہو سکتے تھے۔ فغانستان میں دہشت گردی کا وجود ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا کیونکہ باہر سے آئے دہشت گردوں کی نظریں پاکستان پر بھی مرکوز ہیں،لہٰذا حکمت و تدبر سے کام لیتے ہوئے زمینی حقائق کو تسلیم کر کے کوئی ایسا فیصلہ کرنا ہو گا جس پر عمل کر کے نہ صرف افغان سرزمین پر امن قائم ہو بلکہ ایسا نظام بھی وضع ہو جائے جوخطے میں امن کی ضمانت دے سکے۔ گزشتہ 4 دہائیوں کی کشیدگی کے دوران پاکستان نے 40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی ذمہ داری سنبھالے رکھی‘ اس دوران پاکستان اسلحے اور منشیات جیسی علتوں کا شکار ہوا جس سے معاشرے میں شدت پسند نظریات کو فروغ ملا۔ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا معاملہ افغانستان کے معاشی اور سکیورٹی معاملات سے جڑا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستانی حکومت نے افغان امن عمل میں بھرپور سہولت کاری کا فریضہ انجام دیا ہے اور اس کا ثمردوحہ میں 29 فروری 2020ء کو طے پانے والے امریکا طالبان امن معاہدہ کی صورت میں سامنے آیا۔ اشرف غنی انتظامیہ بھارتی ایما پر امن معاہدے اور امن عمل کو سبوتاژکرنے کے درپے ہے کیونکہ بھارت کے افغانستان میں عمل دخل ختم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اقتدار کو بھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں اور افغان حکومت وہی کچھ کررہی ہے جو بھارت کی طرف سے اسے کہا جارہاہے۔