افغانستان میں تبدیلی سے وابستہ امیدیں

اللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا ''اور اعلان کردو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔ اللہ نے افغانستان کے معرکے میں بے نام، بے عنوان بنا کسی فوج اور بغیر جدید جنگی طیاروں کے دنیا کی سب سے بڑی ایئر فورس کا غرو ر خاک میں ملا دیا۔ 20 سالوں تک شیر دل افغانوں پر ظلم و جور کے پہاڑ توڑنے والوں کا رات کے اندھیرے میں اس طرح رسوا ہو کر نکل بھاگنا اللہ کے کرم کا نتیجہ نہیں تو کیا ہے؟ الحمدللہ سرزمین افغانستان پر یہ بشارت پوری ہوئی۔اللہ نے ان طالبان کو اس نام نہاد سپرپاور پر غالب کر دیا جس نے 20 سال تک افغان سرزمین پر اپنا ناجائز قبضہ جما رکھا تھا جس کے ہزاروں فوجیوں نے جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس ہو کر جذبۂ حریت سے لبریز افغان طالبان کے خاتمے کیلئے افغانستان پر چڑھائی کی تھی مگر ان سے نبرد آزما شیروں نے انہیں ناکوں چنے چبوا دیے۔ طالبان کی جیت نے ان مغلوب قوموں کو یہ پیغام دیا کہ یقینا امریکا ناقابلِ شکست نہیں ہے اور جس طرح جنگوں میں دوسرے ممالک شکست کھا سکتے ہیں‘ امریکا بھی شکست کھا سکتا ہے۔ایک پیغام دنیا کو یہ بھی ملا کہ جو اقوام ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیں‘ وہ کسی سے شکست نہیں کھا سکتیں۔
فاتح افغانستان جنرل (ر) حمید گل کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی کہ2014ء میں دنیا نیوز کے ایک پروگرام میں انہوں نے کہا تھا کہ جب تاریخ رقم ہو گی تو لکھا جائے گا کہ افغانستان میں آئی ایس آئی نے امریکاکی مدد سے روس کو شکست دی، پھر ایک اور جملہ لکھا جائے گا کہ اسی نے امریکا کی مدد سے امریکا کو شکست دی۔ 15 اگست 2021ء کو ان کی چھٹی برسی کے موقع پر کابل فتح کر کے انہیں تحفہ دیا گیا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ جنرل (ر) حمید گل کے افکار و نظریات اور ان کی ڈاکٹرائن آج بھی زندہ ہے اور وقت نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے۔ نائن الیون کے بعد انہوں نے پیش گوئی کرتے ہوئے ایک تاریخی جملے میں سب کو خبردار کیا تھا کہ نائن الیون بہانہ، افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے، اللہ نے مردِ حُر کو سرخرو کیا۔دراصل افغان جنگ نہ تو روس کے خلاف تھی اور نہ امریکا کے خلاف بلکہ یہ وہاں رائج سسٹم کے خلاف تھی۔ طالبان نے اسلامی نظام کے قیام کیلئے طویل جدوجہد کی اور اللہ نے انہیں ان کے مقاصد میں نصرت فرمائی،بلاشبہ افغان سر زمین پر طالبان کی فتح‘ عالم اسلام کی فتح ہے اورمیں امارات اسلامیہ افغانستان کے قیام پر افغان قیادت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان شاء اللہ دیگر قوموں کیلئے مشعل راہ بنتے ہوئے ایک نئے اسلامی نظام کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔بلاشبہ سقوطِ کابل نے اسلامی سنہری دور‘ فتح مکہ کی یاد تازہ کردی۔ نبی آخرالزمان محمد مصطفیﷺ 8 سال بعد جب ایک کثیر فوج کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے تو اللہ کے رسولﷺ کا سب سے پہلا اعلان عام معافی کا تھا‘ بغیر ایک قطرہ خون بہائے‘ نہ صرف مکہ فتح ہوجاتا ہے بلکہ خود انہیں ستانے اور ان کی جان کے درپے دشمنانِ اسلام تک کو معافی دے دی جاتی ہے۔ اگر طالبان نے معاف کیا نہ ہوتا تو کیا کٹھ پتلی اشرف غنی نوٹوں کے تھیلوں کے ساتھ فرار ہو سکتے تھے؟ اگر طالبان کے بجائے کرزئی یا اشرف غنی انتظامیہ فاتحانہ انداز میں کابل میں داخل ہوتی تو کیا ہوتا؟ طالبان اور مخالفین کو ابو غریب، گوانتاناموبے اور بگرام کے عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا مگر دنیا دیکھ رہی ہے کہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں اموات میں کمی واقع ہوئی ہے اور جو گولیاں کابل ایئرپورٹ پر چلیں‘ وہ امریکی فوج نے ہجوم پر چلائیں۔ حالانکہ بیس سال سے ناکردہ گناہوں کی سزا ئوں کی پاداش میں‘ طالبان کی عوامی حکومت کو تاراج کرنے اور 20 برسوں کے دوران لاکھوں کی تعداد میں ان کا خون بہانے والوں اور ان کے ساتھیوں کو عام معافی دینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب عالمی قوتوں کو افغانستان میں کامیاب اسلامی نظام چلتا نظر آیا تو اس حکومت کو تاراج کرنے کیلئے نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا۔امریکا سمیت دنیا کی دیگر قوتوں نے طالبان کو خبردار کیا تھا کہ اگرطاقت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو عالمی امداد نہیں ملے گی لیکن طالبان نے ا س تجویز کو ٹھوکر سے اڑا دیا۔ جرمنی نے کہا کہ اگر طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اماراتِ اسلامیہ کے نفاذ کا اعلان کیا تو وہ انہیں امداد نہیں دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جرمنی کون ہوتا کسی خود مختار ملک سے یہ کہنے والا کہ وہاں کون سے قوانین نافذ ہونے چاہئیں ؟ اس ساری صورتحال میں یورپی اور امریکی میڈیا کا کردار انتہائی گھنائونا رہا۔بھارتی ٹی وی چینلز پر بھی افغان خواتین کے حوالے سے پروپیگنڈا مشینری مسلسل مصروفِ عمل ہے۔ 15 اگست کو کابل کی فتح نے بھارتی یومِ آزادی کو مرن دن بنا کر رکھ دیا‘ اور وہ اس وقت سے مسلسل سوگ میں ہیں۔ بھارت کو افغانستان میں اپنی 3بلین ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آ رہی ہے لیکن طالبان کی جانب سے بھارت کو ترقیاتی منصوبے جاری رکھنے کی اجازت دینا خیر سگالی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔
اب دنیا کو طالبان پر سے دہشت گردی کا لیبل اتار دینا چاہیے۔ طالبان قیادت کی جانب سے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے خواتین کی ملازمت و تعلیم کی اجازت کے اعلان نے نام نہاد لبرل دنیا کے منہ بند کر دیے ہیں۔ اب بات ہو رہی ہے کہ طالبان کی حکومت کو پہلے کون تسلیم کرے گا؟ میں کہتا ہوں کہ طالبان کی حیثیت کو سب سے پہلے امریکا تسلیم کر چکا ہے‘ اس تسلیم کے بعد ہی تو دوحہ مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ امریکی قانون کے مطابق دہشت گردوں سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کیے جاتے اور اگر امریکا نے انہیں مانا‘ ان سے معاہدہ کیا ہے تو اس کا مطلب انہیں‘ ان کی حیثیت کو تسلیم کرنا ہی ہے۔ طالبان نے عسکری سٹریٹیجی کے تحت بنا خوں ریزی کے یکے بعد دیگرے فتوحات حاصل کیں وہ آندھی کی طرح آئے اور طوفان کی طرح چھا گئے۔ ڈپلومیٹک سٹریٹیجی کے تحت دوحہ میں امریکہ سے مذاکرات بھی کئے جاتے رہے اور دوسری جانب پیش قدمی بھی جاری رکھی۔ سیاسی سٹریٹیجی اختیار کرتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں مقام پیدا کیا جس کی بدولت انہیں کابل میں بھی کسی قسم کی عوامی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ امریکا نے بھی اعتراف کیا کہ طالبان کی سٹریٹیجی کے سامنے ان کی تمام تر عسکری حکمت عملیاں ناکام ہوگئیں۔ طالبان نے چین کو ووہان راہداری کے حوالے سے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہاں ان کی جانب سے مداخلت نہیں ہوگی۔ روس سے بھی دخل اندازی نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہے‘ ترکمانستان میں تاپی گیس منصوبے پر ان کی ایران کے ساتھ مفاہمت پائی جاتی ہے، اگر چہ ترکی کو امریکا نے بلیم گیم میں شامل کرنے کی سازش رچائی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا اور ترکی صدر طیب اردوان کی اشرف غنی سے بات چیت پر طے ہوا تھا کہ اگر آپ حکومت دو ماہ چلا سکے تو ترکی معاونت کرے گا؛ تاہم موجودہ تناظر میں چین اور روس نے طالبان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور تعلقات استوار کرنے کا عندیہ بھی دیدیا ہے مگر پاکستان ابھی تک گومگو کی کیفیت کا شکار ہے۔
18 اگست کو منعقدہ کانفرنس میں پاکستان اشرف غنی کو مدعو کرنے پر تیار تھامگر کیا وجہ ہے کہ اب حکومت طالبان لیڈر شپ کو دعوت دینے سے گریزاں ہے۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ طالبان لیڈر شپ کو باور کروایا جائے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر دہشت گرد عناصر کے خلاف مؤثر و منظم حکمت عملی بنا کر پاک افغان بارڈر کو محفوظ بنائیں کیونکہ ایک مضبوط افغانستان ہی مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بھی عظیم قربانیاں شامل ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں