افغانستان میں امریکی و بھارتی اجارہ داری کا خواب چکنا چور

افغانستان ایک طویل عرصے تک غیر ملکی طاقتوں کیلئے میدانِ جنگ بنا رہا ہے۔نائن الیون کے بعد جدید ہتھیاروں سے لیس نیٹو افواج نے اپنے پوشیدہ عزائم کی تکمیل کیلئے خطے کی سلامتی کوجس طرح دائو پر لگا کرجنگ کا ماحول گرمایا‘ اس سے طالبان کی پیش قدمی تو نہ رک سکی البتہ20برس تک جاری رہنے و الی پُرتشدد کارروائیوں نے ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دے دیا۔ وسطی ایشیا پر کنٹرول کیلئے 1979 ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت واشنگٹن اور لندن نے افغان مجاہدین کی بھرپور مدد کی تھی لیکن آج دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں واشنگٹن کی عبرتناک شکست کے بعد روس کا یہ کہنا ہے کہ خطے میں اس کی دلچسپی اتحادیوں کی سرحدوں کو محفوظ بنانے تک محدود ہے حالانکہ2003ء میں طالبان کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے باوجوداس نے ''امن عمل ‘‘کیلئے مذاکرات کے کئی دور کئے تھے۔
افغانستان کی سرحدیں روس کے اتحادی ممالک تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں لہٰذا وہ نہیں چاہتا کہ امارات اسلامیہ شمالی افغانستان تک پہنچ کر اسے اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو خطرے سے دوچار کرے۔چین اور روس کے جنوبی ایشیا ، مشرق وسطیٰ اور مشرقی یورپ میں جو مشترکہ مفادات ہیں‘ افغانستان ان کی ایک کڑی ہے لہٰذااب نیٹو افواج کے انخلا سے جہاں دونوں ممالک کی تشویش کا خاتمہ ہوا ہے‘ وہیں ان کے مفادات کی تکمیل کیلئے راہ ہموار بھی ہوئی ہے۔ امریکی انخلا کے بعدبیجنگ‘ افغانستان کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی کے نقصان سے بخوبی آگاہ ہونے کی وجہ سے‘ انتہائی محتاط رویہ اختیارکرتے ہوئے '' بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے ‘‘کے ذریعے بلاشرکت غیرے مغربی طاقتوں کا چھوڑا گیا خلاترجیحی طور پر پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس حوالے سے طالبان پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ وہ چین کے ترقیاتی منصوبوں کی حمایت کریں گے۔امریکا کیلئے چین کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیت اور اقتصادی و معاشی ترقی وبالِ جان بنی ہوئی ہے۔چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور ''ون بیلٹ ون روڈ ‘‘منصوبے کی وجہ سے سامراجی طاقتوں کے درمیان ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اس وقت اضافہ ہواجب واشنگٹن نے طالبان کی شورش کا مقابلہ کرنے اور تعمیر نو کیلئے اربوں ڈالر زخرچ کئے لیکن دوسری طرف بیجنگ سرمایہ کاری، تجارت اورسفارتکاری کو استعمال کرتے ہوئے ایشیا میں ذرائع آمدو رفت اور اداروں کا ایک ایسا جال بچھارہا ہے جس کی ہر پالیسی آنے والے منصوبے کو اس طرح تقویت دے کہ پورا خطہ اس کی بانہوں میں سمٹ آئے۔
پاکستان کی سٹریٹیجک سبقت کے آغاز کے خوف سے بھارت کا طالبان کے اقتدار کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانا اس کی بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت ہے۔ 2001 ء میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے بعد طالبان حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا تھالیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی طاقت میں ایسا اضافہ ہوا کہ آج پھر یہ دارالحکومت کابل سمیت پورے افغانستان میں برسر اقتدار آچکے ہیں۔ طالبان کی وجۂ شہرت ماضی میں کرپشن ولاقانونیت کا خاتمہ، علاقے میں سڑکوں کی تعمیر اور اپنا کنٹرول مضبوط بنانے کیلئے تجارت کوفروغ دینا تھا۔انہی اقدامات کو مدنظر رکھتے ہوئے قبل ازیں بھی افغان عوام نے سوویت افواج کے انخلا کے بعدملک میں ہونے والی خانہ جنگی کے پیش نظر انہیں خوش آمدید کہاتھا تاکہ حالات کو قابو میں لایا جا سکے۔طالبان نے بہترین جنگی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف مغربی مفکرین کے سارے اندازے غلط ثابت کئے بلکہ اشرف غنی کو نفسیاتی دبائو میں لاکر اقتدار کی پُر امن منتقلی پر مجبوربھی کیا۔ امریکا کی طرف سے غیر ملکی دہشت گرد قرار دیے جانے اور اقوامِ متحدہ کی پابندیاں عائد ہونے کے باوجود حقانی نیٹ ورک‘ جس نے1980 ء کی دہائی میں سوویت مخالف جنگ میں نمایاں انداز میں کارروائیاں سر انجام دی تھیں‘ اب طالبان کے نئے سیٹ اَپ میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔یاد رہے کہ سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد بھی جلال الدین حقانی کے بنائے گئے اس گروپ کا اثر و رسوخ برقرار رہاتھااور جلال الدین حقانی طالبان کے پہلے دور میں وزیر رہے۔ 2018 ء میں ان کی وفات کے بعد سراج الدین حقانی کو سربراہ بنایا گیا۔ یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ 2019 ء میں ان کے چھوٹے بھائی انس حقانی کی افغان حکومتی حراست سے رہائی کو امریکا اور طالبان کے مابین براہِ راست مذاکرات کی شروعات کے طور پر دیکھا گیا جو بالآخر امریکا کے افغانستان سے انخلا پر منتج ہوئے۔ امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ چنددنوں میں نئی افغان حکومت قائم ہو جائے گی جس کیلئے مشاورت و مذاکرات جاری ہیں لیکن حکومت بننے سے قبل ہی غیر ملکی طاقتوں نے افغانستان کے فنڈز روک لیے ہیں تاکہ طالبان کو کمزور کیا جا سکے۔ایسے حالات میں‘ جب طالبان کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش سمیت دوسرے دہشت گرد گروپوں کوہتھیار پھینکنے اور انہیں پیچھے ہٹنے کے احکامات جاری کر چکے ہیں‘ کابل ایئر پورٹ پرخود کش حملے کروا کے‘ جس میں 13امریکی فوجی بھی مارے گئے‘ طالبان کے امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔جوبائیڈن نے خود اعتراف کیا تھا کہ انہیں داعش کی جانب سے دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ اطلاعات تھیں تو انخلا کا عمل سست کیوں رکھا گیا؟ اور ایئر پورٹ‘ جس کی سکیورٹی 31 اگست تک امریکا کے سپرد ہے‘ پر لاپروائی کیوں برتی گئی؟
داعش‘ جس نے امریکی شہ پر ہی عراق سے شام تک اور افغانستان سمیت دیگر ممالک میں دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کیا‘سے جب خود پنٹاگون کو خطرہ لاحق ہوا تو اس پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ حیرت اس پر ہے کہامریکا سمیت نیٹو افواج بھی اتنے برسوں میں خطے سے داعش و دیگر دہشت گرد عناصر کا قلع قمع نہ کر سکیں جس سے ان کے سکیورٹی سسٹم کی کمزوریاں مزید کھل کر سامنے آتی ہیں۔واضح رہے کہ اس وقت بھی ہزاروں غیر ملکی باشندے کابل سے انخلا کے منتظر ہیں۔ آخر طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد شہرمیں خوف و خدشات کو کس نے ہوا دی ؟اس خودکش حملے کے بعد سے بھارتی و مغربی میڈیا کو طالبان اور افغانستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع میسر آ گیا ہے اور وہ افغان طالبان کو ناکام ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔داعش کے اعتراف کے بعد طالبان کو موردِ الزام ٹھہرانا کیونکر درست ہو سکتا ہے؟
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس افغان صورتحال، پاکستان کی قومی سلامتی اور پاک فوج کے امن اقدامات کے تناظر میں کافی اہم تھی کہ بھارت نے افغانستان میں 3ارب ڈالرز افغانوں کی ہمدردی میں نہیں‘ پاکستان کی دشمنی میں خرچ کئے اور اس نے دو دہائیوں میں جو گھنائونا کھیل کھیلا اس نے افغانستان کو غیر مستحکم کر کے رکھ دیا۔ بلاشبہ یہ بھارت ہی ہے جوزہریلے سانپ کی طرح بل کھا رہا اور اب داعش کی سرپرستی کر رہا ہے۔ افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری ڈوبنے سے بھارت صدمے کی کیفیت میں ہے اور امارات اسلامیہ کے قیام نے اس کی اور اسرائیل کی نیندیں حرام کر دی ہیں؛چنانچہ ہمیں بھارتی عزائم پر کڑی نگاہ رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اب عالمی برادری پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرے کیونکہ اگرمزید مسائل پیدا ہوئے تویہ کسی بڑے خطرے سے خالی نہیں ہو گا۔امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جو مسائل پیدا کیے‘ ان کا خمیازہ افغان عوام اور ہمسایہ ممالک کوبھگتنا پڑ رہا ہے لہٰذا ایسے میں اقوام متحدہ کو چاہئے کہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچانے کیلئے '' امن عمل ‘‘کے تمام فریقوں کو ساتھ لے کر اپنا مؤثرکردار ادا کرے۔پاکستان اور چین نے ''ٹرائیکا پلس‘‘ کا حصہ ہوتے ہوئے امن کاوشوں کو آگے بڑھانے میں گرانقدر معاونت فراہم کی ہے لیکن بھارت نے ہمیشہ افغانستان اور خطے میں دہشت گردی کو فروغ دیا۔ افغانستان میں قیامِ امن اور نئی حکومت کی تشکیل کیلئے تمام فریقوں کو مل کر کوشش کرنا ہوں گی کیونکہ امریکی و مغربی دستوں کی واپسی سے جو سکیورٹی خلا پیدا ہوا ہے‘ اسے فوری پُر نہ کیا گیا تویہ پوری دنیا کیلئے خطرنا ک ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں