وَتُعِزُّمَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء

6 ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کی نسبت عسکری قوت میں کمزور مگر جذبۂ ایمانی سے لبریز پاک فوج کے جوانوں نے طاقت کے نشے میں چور بھارتی غرور و تکبر خاک میں ملا دیا تھا اور لاہور میں چائے پینے کا ناپاک خواب دیکھنے والوں کو بی آر بی نہر کے اس پار سے ہی دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔چونڈہ سیکٹر سیالکوٹ کے محاذ پر 300 ٹینکوں کے بل بوتے پر پاک سر زمین پر قبضہ کرنے والوں کا سامنا سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے ہوا۔شہادتوں کے نذرانے پیش کیے گئے۔ بلاشبہ 65ء کی جنگ عظیم ہم وطنوں اور پاک فوج کی قربانیوں کا ایک روشن باب ہے۔بھارتی فضائیہ بھی ہمارے شاہینوں کا مقابلہ نہ کر سکی اور بے شمار مالی و جانی نقصان سے دوچار ہوئی۔
آج افغانستان میں تاریخ نے خود کو دہرایا ہے۔ ایک جانب قوتِ ایمانی،قلتِ تعداد کے باوصف فاقہ مست، کئی دن کی باسی روٹی کھاکر اپنے دین کی حفاظت پر کمر بستہ مجاہدین تھے تو دوسری جانب عالمی حمایت یافتہ، لبرل‘ سیکولر اور دنیاوی اسباب سے مالامال امریکا اور اس کے حواری۔ جبر و استبداد کے خلاف اپنی جنگ میں مومن ظاہری ذرائع اور وسائل پر ہی بھر وسا نہیں کرتا بلکہ اللہ پر توکل کرکے میدان جنگ میں کود جاتا ہے۔ اس کے لیے افرادکی تعداد یااسلحے کی اہمیت ثانوی ہوتی ہے۔ یہی جذبۂ ایمانی اور اللہ پر کامل توکل ہے جو غزہ کے مٹھی بھر مجاہدین کو اسرائیل کے خلاف سینہ سپر کردیتا ہے‘ وہاں امسال رمضان المبارک میں چشمِ فلک نے یہ نظارہ کیا اور محرم الحرام میں دنیا نے افغانستان میں دیکھا کہ کس طرح مجاہدین نے ایسی دشمن طاقت کو زیر کیا کہ جس کا اس سے کوئی موازنہ ہی نہیں تھا۔ طالبان نے کمال شجاعت کا مظاہرہ کر کے طاغوتِ وقت کے آگے جھکنے سے انکار کردیا۔جدید اسلحے سے لیس اشرف غنی کی تین لاکھ کی فوج‘ جس کی تربیت پر امریکا نے 88بلین ڈالر خرچ کیے‘ بے سروسامان 70 ہزار مجاہدین کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔ میرے خیال میں طالبانِ افغانستان پر قرآنِ مجید کی یہ آیت صادق آتی ہے کہ ''بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اِذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ (البقرہ:249)
زمینی فوج کے علاوہ ہوائی دستہ بھی جنگ میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس معاملے میں تو انہونی ہی ہوگئی کہ جہاں اشرف غنی حکومت کے پاس 761 لڑاکا طیارے تھے‘ وہاں طالبان کے پاس ایک بھی جہاز نہیں تھا۔ اشرف غنی کے خزانے میں جہاں 5.5 بلین ڈالر تھے‘ وہاں طالبان کے مادی وسائل بھی انتہائی محدود تھے۔ ا فغانستان میں طالبان کی فتح جذبۂ ایمانی اور خدا پر توکل کی فتح ہے اور یہ شکست ہے امریکا اور اس کے حواریوں کی۔یہ مغرب کی بدترین تہذیبی شکست بھی ہے۔ ویتنام میں امریکا جنگ تو ہار گیا تھا مگر اپنے جنسی بے راہ روی اور قمار بازی کی تباہ کن روایات چھوڑ گیا تھا۔ جاپا ن بھی اپنی تمام تر ترقی کے باوجود تہذیبی اور فوجی طور پر سرنگوں رہامگر افغان مجاہدین نے امریکا اور اس کے حواریوں کو فوجی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی‘ ہر سطح پر ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
امریکا کا اپنے حواریوں سمیت یہ جنگ ہارنا ایک سوالیہ نشان ہے کہ کس طرح بڑے وار کالجز میں پڑھنے والے مات کھا گئے اور وہ خاک نشین‘ جنہوں نے کبھی جنگوں پر ایک کتاب بھی نہیں پڑھی‘ جیت گئے ۔ یعنی ان پہاڑوں میں رہنے والوں کی سیاسی وعسکری حکمت عملی نے دنیا کو سبق سبق سکھا دیا۔ اگر آپ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ مادی وسائل کی بنا پر جنگیں نہیں جیتی جاتیں، اگر ایسا ہوتا تو بڑی بڑی سلطنتیں‘ روم، فارس اور یونان‘ کبھی اس طرح زوال پذیر نہ ہوتیں کہ آج ان کا نام و نشاں تک نہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ مادی وسائل کے بجائے نظریے اور اللہ کی نصرت سے ہی فتح ممکن ہوتی ہے اور آج اسی طرح افغانستان میں طالبان ایک طاقت بن کر ابھرے ہیں۔ آخری امریکی فوجی کے انخلا کی تصویر اس سپر پاور کے منہ پر طمانچہ ہے جسے اپنی فوجی طاقت پر بہت ناز تھا۔ تصویر میں 82 ویں ڈویژن کے جنرل کے چہرے پر شکست و شرمندگی عیاں ہے جو امریکی ہزیمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ماضی کی افغان جنگ میں کہا جا سکتا ہے کہ ڈالر آئے ،فرانس کے میلان طیارے آئے، چین کی مدد آئی حالانکہ تب بھی میدانِ جنگ میں اللہ کے سپاہیوں نے ہی سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا،اس وقت توپاکستان بھی نیوکلیئر پاور نہیں تھا، روس تو افغانستان کا پڑوسی تھا جبکہ امریکہ 17 ہزار کلومیٹر دور سے آیا تھا۔ اس سب کے باوجود مجاہدین غالب رہے۔ افغانستان کو سلطنتوں کا قبرستان یونہی نہیں کہا جاتا۔ انیسویں صدی میں برطانوی سامراج کو‘ جو اس دور کی سپر پاور تھی اور 1989 ء میں روس کو افغانستان سے بھاگنا پڑا۔ یہ جری افغان ہی تھے جنہوں نے 30برس قبل سوویت یونین کو شکست دے کر اس سے سپر پاور کا تاج چھین لیا تھا۔ اب دنیا کی واحد نام نہاد سپر پاور امریکا کو پسپا ہوکر راہِ فرار اختیارکرنا پڑی ہے۔ مغرب کے جنگی ماہرین کا خیال تھا کہ غیر ملکی انخلا کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار رہے گا اور طالبان کبھی بھی اقتدار میں نہیں آسکیں گے۔ بعض نے طالبان کی کامیابی کے لیے 90 دن کا وقت دیا تھا کچھ ڈیڑھ سال کا تخمینہ لگائے بیٹھے تھے لیکن جب فتح مندی کا آغاز ہوا تو فوراً یہ مقدار ایک تہائی گھٹ کر30 دن پر آگئی لیکن وہ بھی غلط نکلی اور30 گھنٹوں میں سارا کھیل سمٹ گیا۔ ان ماہرین نے اپنا سارا حساب کتاب مادی وسائل کی بنیاد پر کیا تھا۔ ایمان کی قوت، جذبۂ شہادت اور اللہ کی نصرت کا اس میں کہیں کوئی ذکر نہ تھا۔ ارشادِ ربانی ہے کہ ''اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمہیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے‘‘۔(آلِ عمران:160)
موجودہ حالات کے تناظر میں امریکا کو اب سوچنا چاہیے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ امریکا اور اتحادیوں کے افغان وار میں تین ٹریلین ڈالر کے قریب اخراجات ہوئے‘ کتنے لوگ مرے‘ یہ بھی انہیں بخوبی اندازہ ہوگا۔ نیٹو افواج کے ساتھ ساتھ امریکی فوجیوں کے تابوت بھی افغانستان سے جاتے رہے۔ پاکستان اس جنگ کا فریق نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس کے دس ہزار کے لگ بھگ سکیورٹی سپوتوں سمیت 80 ہزار افراد اس نامراد جنگ میں شہید ہوئے۔ 120 ارب ڈالر سے زائد کا انفراسٹرکچر کی تباہی کی صورت میں نقصان ہوا۔ سابق امریکی صدر بش ابھی زندہ ہیں‘ ان سے پوچھا جائے کہ ''صلیبی جنگ‘‘ میں کتنی کامیابی حاصل کی؟ امریکا کی اس طویل ترین جنگ میں 2500 امریکی فوجی، 66 ہزار افغان فوجی اور پولیس اہلکار، 457 برطانوی فوجی ہلاک ہوئے جبکہ 50 ہزار سے زائد افغان شہری اور 50 ہزار طالبان و دیگرامریکا مخالف جانبازوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ایک اندازے کے مطابق4 امریکی صدور نے اس جنگ پر سوا دو کھرب ڈالر پھونک دیے۔ ان جنگی اخراجات کی خاطر جو قرض لیا گیا‘ اس رقم پر امریکا کی کئی نسلوں کو سود کی مد میں6 کھرب ڈالرز ادا کرنا ہوں گے؛ تاہم امریکہ داعش کے بہانے ایک بار پھر خطے میں واپسی کیلئے پر تول رہا ہے کیو نکہ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ یہاں سے چلا تو چین و روس اسے ایشیا سے ہی نکال باہر کریں گے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان کے پاس معدنی ذخائر ہیں اور وہ ون بیلٹ ون روڈ کیلئے ایک یہ اہم راہداری کا کردار ادا کر سکتا ہے۔کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کی حمایت میں افغان طالبان کی جانب سے واضح بیان جاری ہونا یقینا خوش آئند ہے۔ ان کے کشمیریوں کے حق میں بات کرنے سے جہاں پاکستان کے موقف کو تقویت حاصل ہوگی وہیں بھارت کویہ پیغام بھی ملے گا کہ اب کشمیریوں کے حق کی لڑائی میں پاکستان اکیلا نہیں ۔اسی طرح بین الاقوامی برادری کو بھی یہ پیغام ملے گا کہ خطے میں تب تک امن و امان قائم نہیں ہوسکتا جب تک بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم ترک کرتے ہوئے کشمیریوں کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ان کا حق خود ارادیت نہیں دیتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں