ٹیپو سلطان ایک عہد ساز حکمران اور عزم و استقلال کے پیکر تھے۔ ان کی تلوار کی گرج چمک سے تختِ بر طانیہ پر بھی ہمیشہ لرزہ طاری رہا۔وہ اپنوں کی غداری سے دشمن کے محاصرے میں آگئے مگر مردانہ وار لڑتے ہوئے دادِ شجاعت دی اور بالآخر جامِ شہادت نوش کیا۔ سلطان ٹیپو کے دشمنوں میں سے بھی کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ سلطان شہید ہو چکے ہیں۔ ان کی شہاد ت کے بعد بھی ان کا رعب و دبدبہ قائم رہا۔ فرنگی فوج ان کے جسدِ خاکی کو چھونے کی ہمت نہیں کر سکی۔ سلطان کی دونوں آنکھیں کھلی تھیں اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجی ہو ئی تھی۔ جنرل ولزلی نے ان کے جسم کو ہلکا سا چھوا اور سمٹ کر دور کھڑا ہو گیا۔ جب سلطان کی شہادت کی خبر جنرل ہارس کو دی گئی تو اس پر بھی کافی دیر تک ڈر و خوف کی کیفیت چھائی رہی۔ سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے نعرہ لگایا ''آج ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔ سلطان کے حوالے سے مورخین کا کہنا ہے کہ ان جیسا بہادر ، نڈر و جری حکمران برصغیر کی تاریخ نے نہیں دیکھا۔ بلاشبہ یہ ٹیپو سلطان کے لہو کی برکت ہی ہے کہ ان کے بعد برطانوی و بعدازاں برہمنی سامراج کی جارحیت کے خلاف جہاد کا سلسلہ آب و تاب سے جاری و ساری رہااور سلطان کے متوالوں و جاں نثاروں میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا‘ جو اسلام کی سربلندی کیلئے سلطان ٹیپو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جھکے نہیں‘ بکے نہیں بلکہ وقت کے طاغوت کے سامنے علمِ جہاد اٹھائے رکھا۔ ٹیپو سلطان کی المناک شہادت کے اثرات آج ہمارے سامنے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فرنگیوں کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع ملا اور انہوں نے مسلمانانِ برصغیر کے خلاف ہندو بنیے کے ساتھ ساز باز کر کے سازشوں کا بازار گرم رکھا۔ اس ملی بھگت کی بدترین مثال کشمیر کا سودا ہے۔ آج 2021ء میں مقبوضہ کشمیر کے ٹیپو سلطان‘ 92سالہ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کے جسد خاکی کو دیکھ کر بھی نریندر مودی اور اس کی فوج پر ہیبت کا عالم چھایا رہا، وہ ان کے مردہ جسم کی قوت سے بھی ڈرتے رہے۔ اسی لئے فوجی سنگینوں کے سائے میں رات کے اندھیرے میں انہیں مقامی قبرستان میں دفنا دیا گیا‘ حالانکہ ان کی وصیت تھی کہ انہیں شہدا کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔
سید علی گیلانی کشمیر کی تحریک آزادی کا درخشاں ستار ہ تھے جنہوں نے کشمیر اور پاکستان کے اٹوٹ رشتے کا پرچم ہمیشہ بلند رکھا اور 92 برس کی عمر میں بھا رتی قبضے سے کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا خواب سجائے وہ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ پاکستان سے اپنی نسبت جوڑنے والے سید علی گیلانی پاکستانی پرچم میں مدفون ہوئے۔ بلاشبہ حریت رہنما شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے کیونکہ بھارت کی فاشسٹ حکومت نے انہیں مقبوضہ کشمیر میں طویل عرصے سے جبری طور پر نظر بند کر رکھا تھا اور جان بوجھ کر انہیں علاج و معالجے کی سہولتوں سے محروم رکھا گیا تھا ۔ بھارتی حکومت اس مردِ حر سے اس قدر خوفزدہ رہتی تھی کہ انہیں کینسر کے علاج کیلئے بیرونِ ملک جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ جدوجہدِ آزادیٔ کشمیرکے سرخیل سید علی گیلانی کی وفات سے آزادیٔ جموں و کشمیر کا تاریخ ساز عہد تمام ہوا اور وہ مردِ آہن ''ہم پاکستانی ہیں‘ پاکستان ہمارا ہے‘‘ کا نعرہ لگاتے لگاتے دنیا سے رخصت ہو گیا۔
سید علی گیلانی کی رحلت نہ صرف کشمیری بلکہ پاکستانی عوام کیلئے بھی ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ ان کے انتقال سے اگرچہ ایک نہ پُر ہونے والا خلا پیدا ہو گیا ہے لیکن تحریک آزادیٔ کشمیر کو اس سانحہ ارتحال سے ایک نئی روح ملے گی۔سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر پربھارتی قبضے کے خلاف اٹھنے والی سب سے دبنگ آوازاور حق خود ارادیت کے عظیم علمبردار تھے۔ ان کی وفات کی خبر سنتے ہی مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کی سڑکیں سیل کر دیں‘ موبائیل اور انٹرنیٹ پر فوری پابندی لگا دی گئی اور پورے علاقے میں کر فیو نافذ کر دیاگیا۔ لوگوں کی نقل وحرکت روکنے کے لیے جابجا بندشیں عائد کی گئیں جو حقوق انسانی کی سنگین اور بدترین خلاف ورزی ہے۔بزدل بھارتی فوج نے ان کی میت کو زبردستی قبضے میں لے لیا اورجنازے کی بے حرمتی کرتے ہوئے اسلامی شعائر کی تضحیک کی۔ ان کے جنازے پر فوجی پہرہ لگا کر ان سے محبت کرنے والوں کو ان کی تدفین اور آخری رسومات کی ادائیگی میں شرکت کو ہی ناممکن بنا دیاکیونکہ بھارتی حکومت کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر نمازِ جنازہ کا اعلان ہوا تو سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں فرزندانِ تو حید اس شمعِ آزادی کے آخری سفر میں شرکت کرنے کے لیے امڈآئیں گے۔کشمیر کے شیر کو رات کے اندھرے میں دفنا کر مودی سرکار سمجھتی ہے کہ شاید تحریک آزادی دم توڑ گئی ہے‘ ہر گز نہیں! اس میں مزید شدت آگئی ہے اور سب پر عیاں ہو گیا ہے کہ بھارت کے نزدیک مقبوضہ وادی کے باسیوں کے کیا حقوق ہیں، ان شاء اللہ اب کشمیر کو آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
سید علی گیلانی کشمیر کی آزادی کی وہ طاقتور آواز تھی جسے غداری کے مقدمات ، جیل کی سلاخیں اور قید و بند کی صعو بتیں بھی خاموش نہ کروا سکیں۔ ان پر ہر ظلم ڈھایا گیا‘ ان کو چپ کرانے کیلئے ہر حربہ آزمایا گیا مگر وہ آخری سانس تک اپنے نظریے پر استقامت سے ڈٹے رہے۔ یہ نظریہ ان کے مرنے کے بعد بھی زندۂ جاوید ہے۔ یقینا انسان فانی ہے‘ اس نے ایک نہ ایک دن اس دنیا سے چلے جانا ہوتا ہے لیکن اس کے نظریات قائم رہتے ہیں جو اس کے بعد اس کے متوالوں ، جاں نثاروں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوتے ہیں اور اسی ڈاکٹرائن پر جدو جہد کا سفر جاری رہتا ہے۔
ٹیپو سلطان سے فرنگی فوج لرزتی تھی تو اس نحیف دکھائی دینے والی شخصیت سے بھارتی فوج کانپتی تھی۔ ٹیپو سلطان کی زندگی کا مقصد تھا انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی اور سید علی گیلانی آخری دم تک مقبوضہ کشمیر کو برہمن کے پنجۂ استبداد سے نجات دلانے کیلئے لڑتے رہے۔ ان کا ایک ہی مشن تھا ''مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور اس کا پاکستان سے الحاق‘‘۔اَن گنت مقدمات ، زندان کی اذیتیں بھی ان کو اس نظریے سے نہ ہٹا سکیں بلکہ غاصب بھارت کے ظلم و ستم کے سامنے وہ عزم و ہمت کا کوہِ ایستادہ ثابت ہوئے‘ وہ آزادی کی بے پایاں تحریک کا استعارہ اور کشمیریوں کے اتحاد کی علامت تھے‘ جن سے بھارتی حکمران اور ان کے کٹھ پتلی لیڈران اتنے خوفزدہ تھے کہ انہیں قیدوبند میں رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے تھے؛ چنانچہ سیدعلی گیلانی نے زندگی کے 20 سے زیادہ سال بھارتی قیدوبند کی صعوبتوں میں گزارے۔ ایک بار سعودی عرب جانے کیلئے نیا پاسپورٹ بنونے کی ضرورت پڑی وہ اس لئے نہ بن سکا کہ شہریت کے خانے میں انہیں بھارتی شہری لکھنا گورار نہیں تھا۔ وہ صرف اور صرف کشمیری تھے اور تمام عمر کشمیر کیلئے جیئے۔ دو سال قبل‘ 5 اگست 2019ء کو جب بھارت کی فاشسٹ مودی سرکار نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا یکطرفہ اقدام کیا تو سید علی گیلانی نے اپنی نظربندی کے دوران ہی عالمی برادری بشمول نمائندگانِ عالمی اداروں‘ عالمی قیادتوں اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی قیادت کو بھی اپنے کھلے مراسلے کے ذریعے جھنجوڑا اور کہا کہ وہ اپنی زندگی میں ہی کشمیر کی آزادی کے خواب کی تعبیردیکھنا چاہتے ہیں۔ قدرت نے انہیں اس کی مہلت نہ دی۔ بزرگ لیڈر نے رودادِ قفس، نوائے حریت ، دید و شنید ، بھارت کے استعماری حربے ، صدائے درد سمیت متعدد تصانیف و تحریروں کے ذریعے بھارتی سفا کیت و بربریت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ مرحوم کی آخری رسومات پر قدغن لگا کر بھارت نے یہ ثابت کیا کہ وہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے اس عظیم لیڈر سے بعد از وفات بھی خوفزدہ ہے۔ بھارتی بوکھلاہٹ مرحوم کی صلاحیت اور کردار کی تصدیق کیلئے کافی ہے‘ مگر بھارت پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ کشمیر ی قائدین کے جنازے روکنے‘ کرفیو نافذ کرنے اور جبر کے دیگر ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود جدو جہدِ آزادی میں مزید شدت آئے گی۔
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں