اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید کی سورۃ الاسراء میں فرماتے ہیں (ترجمہ)اگر تم اپنی پرانی روش (ظلم) کے ساتھ پلٹو گئے تو ہم بھی (اپنی سزا کے ساتھ) پلٹیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کیلئے (ہمیشہ کے لیے) قید کا ٹھکانہ بنایا ہے۔ (آیت 8) ۔ قرآنِ کریم کی اس ایک آیت میں سمجھنے کیلئے بہت سا مواد تھا مگر افسوس مسلم دنیا کے فکری انحطاط نے ایسی سبیل ہی نہ نکلنے دی جس سے مسلمان آنے والے خطرات کا پہلے سے اندازہ کرسکتے۔ آج طاغوت کی بھڑکائی ہوئی ظلم کی آگ پوری طرح دنیا کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ افغانستان میں اس آگ نے لاکھوں انسانوں کو لقمۂ اجل بنایا۔ اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ آگ محض ایک مقصد کی جانب اشارہ کرتی ہے یعنی اب امریکا کے بعد اسرائیل کی بین الاقوامی سیادت کا قیام عمل میں لانا ہے اور اس کیلئے لازم ہے کہ خطے کے تمام ممالک کو اسرائیل کے سامنے سرنگوں کیا جائے تاکہ اس کے بعد باقی دنیا کو اس دجالی حکومت کے احکامات ماننے پر مجبور کیا جاسکے۔
آج سے تقریباً تین دہائیاں قبل افغانستان میں ایک طویل خونیں جنگ کے بعد اوراس کے نتیجے میں سوویت یونین کی تحلیل کے ساتھ عالمی سطح پر جاری سرد جنگ اپنے انجام کو پہنچی تھی، یوں سوویت یونین کے ساتھ ہی سرد جنگ بھی تاریخ کے اوراق میں اتر گئی مگر اس خلا کو امریکا اور اس کی اتحادی مغربی قوتوں نے مسلمانوں کے خلاف ''گرم جنگ‘‘ کی شکل میں پُرکیا۔ نیویارک کے جڑواں ٹاورز ماچس کی ایسی تیلی ثابت ہوئے جس نے تمام دنیا خصوصاً مسلم دنیا میں آگ بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس میں ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسلام کے طرزِ معاشرت اور طرزِ معیشت کر سرے سے تبدیل کرنا مقصود تھا تو دوسرا مقصد امریکا سے لے کر یورپ تک‘ اسلحہ ساز کمپنیوں کی بھٹیوں کو گرم رکھناتھا، نیز مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر ان کے تیل اور دیگر وسائل پر مکمل قبضہ جمانا۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کی معاشی کمر توڑنے کیلئے پہلے مرحلے میں یہاں آپس میں جنگیں کرائی گئیں۔ نوے کی دہائی میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ اوسلو معاہدہ کیا جاتا ہے جس میں غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر ایک اُدھڑی ہوئی فلسطینی ریاست کا خواب دکھا کر 1970ء کی دہائی سے اسرائیل کے خلاف جدوجہد کرنے والی فلسطینی مزاحمتی جماعتوں کو غیر مسلح کرنے کا عمل شروع ہوتا ہے، اسی دوران90ء کی دہائی میں عراق کے کویت پر قبضے کی سازش کا جال بچھایا جاتا ہے اور پھر کویت کی آزادی کے نام پر پورے خطے کی آزادی سلب کرلی جاتی ہے۔جب حماس جیسی تحریک نے الفتح کے ختم ہوجانے کے بعد آزادیٔ فلسطین کا جھنڈا بلند کیا تو اسے غزہ میں محصور کردیا گیااور آج کل جو کچھ وہاں ہورہا ہے‘ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ منظم سازش کے تحت صدام حسین کو راستے سے ہٹا کر عراق کو تباہ کر دیا گیا‘ پھر عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں ''داعش‘‘ کو تخلیق کر کے وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ لیبیا میں خانہ جنگی کرائی گئی اور معمر قذافی کو قتل کر دیا گیا۔ یمن میں آگ بھڑکائی گئی اور حوثیوں کو کھڑا کر کے سعودی عرب کو ہراساں کیا گیا تاکہ سعودی عرب اپنے دفاع کے معاملے میں امریکا کا محتاج رہے اور تیل کی فروخت سے سعودیہ کو حاصل ہونے والے اربوں ڈالر امریکی خزانے میں جمع ہوتے رہیں۔ دوسری طرف ایران کو بھی نہ بخشا گیا، اس پر بھی معاشی پابندیاں عائد کر دی گئیں، اب اس علاقے میں کیا باقی بچا ہے جو صہیونیوں کے مقابل آسکے؟
آج خلیجی حکمرانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ منہ سے چاہے کچھ نہ کہیں مگر عملاً مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی سے دستبردار ہوچکے ہیں۔ آج خلیج میں ایسے ''سٹریٹیجک تھنک ٹینک‘‘کام کر رہے ہیں جن کی آڑ میں عرب عوام کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ''اگر بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق ہے تو یہودی بھی اس پر برابر کا حق رکھتے ہیں، وہ بھی ہزاروں برس اس سرزمین پر آباد رہے ہیں‘‘۔ کیا آج دھڑا دھڑ عرب حکومتیں اسرائیل سے قربتیں نہیں بڑھا رہیں؟ اسرائیل سے قربتیں بڑھانے کی دوڑ میں ان حکومتوں نے مظلوم فلسطینی، شامی، یمنی اور عراقی مسلمانوں کے بہتے خون سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔عرب ذرائع کا کہنا ہے کہ خطے میں ممکنہ بڑی جنگ کے دوران عربوں کی جیب سے ٹریلین ڈالرز نکل کر صہیونی بینکوں میں پہنچ جائیں گے اس کے بعد ان ریاستوں میں بھوک اور بیروزگاری کا راج ہوگا۔ در اصل مشرقِ وسطیٰ میں اس جنگ کی کیفیت پیدا کرکے تیل پیدا کرنے والے عرب ملکوں کا محفوظ سرمایہ اسلحے کا انبار لگانے کی دوڑ میں خرچ کرا دیا گیا ہے۔ میری نظر میں نائن الیون کا ڈرامہ اسی مقصد کیلئے رچایا گیا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ سمیت مسلم دنیا کے اثاثوں پر قبضہ جماکر انہیں ہمیشہ کیلئے مفلوج کردیا جائے۔ امریکا اور مغربی ممالک پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو مشرقِ وسطیٰ اور سینٹرل ایشیا پر کنٹرول کے حوالے سے اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ امریکا کے قومی سلامتی کے سابق مشیر زبگینو برزنسکی نے اپنی کتاب ''دی گرینڈ چیس بورڈ‘‘میں لکھا تھا کہ امریکا کسی ایسی طاقت کو نہیں ابھرنے دے گا جو یورپ اور ایشیا میں امریکی مفادات کیلئے خطرہ بن سکے، امریکی صدر نکسن نے اپنی کتاب میں تحریر کیا کہ دنیا کو کنٹرول کرنے کی چابی مشرقِ وسطیٰ اور خلیج میں تیل کے ذخائر ہیں۔ دوسری جانب سوویت یونین کی جانب سے گرم پانیوں تک رسائی کی خواہش تو کی جاتی تھی لیکن امریکا اور مغربی دانشوروں نے جان بوجھ کر اسے اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ مسلم دنیا میں خوف کی لہر دوڑ گئی، ورنہ وہ سوویت یونین جسے افغان مجاہدین نے دبوچ لیا تھا‘ آج روس کی شکل میں ایک گولی چلائے بغیر چین کے ساتھ گوادر تک اسے رسائی حاصل ہے۔ ان تمام حالات میں افغانستان کی صورتحال امریکا اور اسرائیل کو پریشان کردینے کیلئے کافی ہے کیونکہ جو مقاصد تیزی کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں حاصل کئے گئے، افغانستان میں اس کے بالکل الٹ ہوا۔
افغانستان میں امریکی انخلا اور طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کو چاہئے کہ وہ ترکی کے ساتھ مل کر شمالی مشرق وسطیٰ سے لے کر افغانستان تک خطے میں اپنا کردار نمایاں کرے۔ یہاں اس بات کو بھی ذہن نشین کرنا ہوگا کہ دنیا بھر میں جنگی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے‘ اسی طرح طور طریقے بھی۔ منتشر جنگی گروپ روایتی فوجوں سے زیادہ امریکا اور اسرائیل کیلئے خطرناک ثابت ہوں گے۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجرنے عربوں کو دھمکاتے ہوئے کہا تھا ''اسرائیل پر حملہ آوروں کو ہم سڑکوں پر ہی جلا کر راکھ بنا دیں گے‘‘۔ تاریخِ عالم طاغوتی طاقتوں کی مکارانہ چالوں کی گواہ ہے کہ کس طرح خلافت عثمانیہ کو توڑنے اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کیلئے پہلی عالمی جنگ کرائی گئی۔ پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر ترکی کے سوا تمام مسلم ممالک کو مسلم دشمن قوتوں نے اپنی کالونی بنا لیا۔ دوسری عالمی جنگ شروع کرنے کا مقصد دنیا پر یہودیوں کیلئے ناجائز ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لانا تھا کیونکہ اس وقت امریکی و برطانوی سرزمین کے مالیاتی معاملات صہیونیوں کے تصرف میں تھے اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کو یہودیوں نے اپنے حق کیلئے بھرپور استعمال کیا اور اب وہ گریٹر اسرائیل کے قیام کیلئے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیل رہے ہیں ۔اسرائیل جانتا ہے کہ جو خلیجی خطے کا مالک ہوگا وہی پوری دنیا کا مالک بن سکتا ہے، اس خطے میں اسی لیے فرقہ وارانہ فسادات کو ایندھن فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ یہاں خانہ جنگی شروع ہو اور یہ ممالک کمزور ہو کر امریکا اور مغرب سے مدد مانگیں‘ بدلے میں اسرائیل کی غلامی قبول کر لیں اور پھر اسرائیل کی ایک کالونی بن جائیں؛ چنانچہ مشرقِ وسطیٰ کو تباہ کرنے کیلئے امریکی گریٹ گیم جاری ہے۔