کشمیریوں کی محصوری اور یہ خاموشی‘ آخر کب تک ؟

گزشتہ74 برسوں میں کشمیری ایک دن کیلئے بھی ہمت نہیں ہارے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی جدوجہدِ آزادی میں شدت آتی جارہی ہے۔ عظیم شہدا کی جلائی گئی شمع کی روشنی میں آج مظلوم وادی کا ہر جوان ہر بچہ برہمن کے تسلط سے نجات کیلئے نبرد آزما ہے۔ کشمیری اپنے اسلاف کی تقلیداور بھارت کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ اختیار کر تے ہوئے آزادی کی خوں رنگ تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کررہے ہیں تو دوسری جانب نریندر مودی کی پالیسیاں کشمیریوں پر قہر بن کر ٹوٹ رہی ہیں۔ مودی سرکار آئے دن کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکا ڈال رہی ہے۔ بھارت کوئی بھی موقع اپنے سے ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا کہ جس سے تحریکِ آزادی کو نقصان نہ پہنچتا ہو۔ ان برسوں میں بھارت نے کشمیریوں کی نسل کشی، خواتین کی بے حرمتی ، بچوں کے قتل، بے گناہ کشمیریوں کو پابندِ سلاسل کرنے سمیت ان کی قیمتی املاک کو نقصان پہنچانے سمیت کوئی ظلم وستم کا حربہ نہیں چھوڑا۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے آرٹیکل 370 اور35 اے کو ختم کر کے کشمیریوں سے ان کی جداگانہ شناخت چھین لی اور ایک طویل عرصے تک وادی میں کر فیو نافذ کر کے اسے دنیا کے بڑے عقوبت خانے میں تبدیل کر دیا۔ کشمیری 2برس سے زائد عرصے سے مکمل محاصرے میں ہیں، مقبوضہ وادی میں ماورائے عدالت قتلِ عام جاری ہے۔ 'کورونا‘کو جواز بناکربچی کھچی رعایتوں کو بھی سلب کر لیا گیا۔ ہر طرف سڑکوں پربھارتی سکیورٹی فورسز کے جوانوں سے لدی فوجی گاڑیاں نظر آتی ہیں، بھارتی فوج کے ہاتھوں جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اب ہو رہی ہیں‘ شاید ہی تاریخ میں کبھی ہوئی ہوں۔ ایک طرف پیلٹ گنوں کے استعمال سے تحریکِ آزادی کے متوالوں کی بینائی زائل کی جا رہی ہے‘ گولہ بارود سے تعلیمی اداروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف انٹر نیٹ بند، کشمیری گھروں میں مقید، باہر نکلنے پر بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ وادی میں حقوقِ انسانی کی تنظیموں کے داخلے پر بھی پابندی عائد ہے۔ کشمیریوں کو ڈبل لاک ڈائون کا سامنا ہے۔ کورونا جیسے مہلک وائرس میں مبتلا کشمیری مردو خواتین کو ہسپتالوں تک رسائی نہیں دی گئی‘ وہ علاج معالجے کی سہولتوں سے مسلسل محروم ہیں، نام نہاد سرچ آپریشن کی آڑ میں ہزروں بے گناہ کشمیریوں کو گھروں سے اٹھا کر غائب کیا جاچکا ہے۔ قابض افواج کے عقوبت خانوں میں نوجوانوں پر تشدد ڈھا یا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں۔ ہزاروں بے نام قبریں بھارتی سفاکیت اور درندگی کا زندہ ثبوت ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں نئی فوجی چھائونیوں اور بنکروں کی تعمیر سے وادی میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے واقعات مزید بڑھ جائیں گے۔
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے دورۂ سرینگر پر کشمیری نوجوانوں کے خلاف گھیرا مزید تنگ کر دیا گیا، ہزاروں کی تعداد میں ان کی بلاجوز گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ امیت شاہ متعصب جنونی اور گجرات میں مسلم قتلِ عام کا ملزم ہے لیکن بھارتی حکومت اور عدالتوں میں جرأت نہیں کہ اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں لا سکیں۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ مسلمانوں کو بھارت سے نکال باہر پھینکے ۔ پیرا ملٹری فورسز‘ بارڈرسکیورٹی فورسزاور سینٹرل ریزرو پولیس کشمیر میں گھیراؤ اور تلاشی کے آپریشنز مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں انسانی حقوق کا کوئی پاس نہیں رکھا جاتا۔ کومبنگ آپریشنزکے دوران، آرمی کیمپوں، تفتیشی مراکز، پولیس سٹیشنز اور جیلوں میں تشدد معمول کی کارروائی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کو ہراساں کرنے کیلئے اجتماعی زیادتیوں کے واقعات خوفناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔ بھارت جنگی جنون کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات افسوسناک ہیں۔ بھارت کو افغانستان سے سبق سیکھنا چاہیے کہ جبر و دھونس کے ذریعے کسی بھی قوم کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ روس کو بھی افغانستان سے بھاگنا پڑا تھا، سپر پاور امریکا کو بھی افغان سرزمین پر ہزیمت و شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامِ افسوس ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی برادری اور او آئی سی کا اس ظلم و ستم کے خلاف کوئی مؤثر کردارتاحال دیکھنے کو نہیں ملا حالانکہ اقوام متحدہ کا قیام بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب و قوم و ملک‘ انسانی حقوق کی پاسداری اور ان کے تحفظ کیلئے عمل میں لایا گیا تھا۔ سلامتی کونسل کے کشمیر کے حالات پر منعقد ہونے والے اجلاس بھی بند کمرے تک ہی محدود رہے۔ نہتے کشمیریوں کو سفاک بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگر مشرقی تیمور کو راتوں رات آزادی دلائی جا سکتی ہے‘ سوڈان میں ایک الگ عیسائی ریاست کا وجود عمل میں لایاجا سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ کشمیر کو آزاد کرانے کی بات آئے تو ایکشن کے بجائے صرف قراردادوں پر ہی اکتفا کیا جا تا ہے؟ افسوس ہے کہ کشمیر میں بھارتی درندگی پر حقوقِ انسانی کے علمبردار وں نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔
27اکتوبر کو مقبوضہ وادی میں بھارتی قبضے کے خلاف یومِ سیاہ مناتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کئے گئے تو بھارتی قابض افواج نے نہتے مظاہرین پر تشدد شروع کر دیا جس سے درجنوں‘ سینکڑوں کشمیری زخمی ہو گئے۔ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور اس کے مسلم تشخص کے باعث قائداعظم نے اسے پاکستان کی ''شہ رگ‘‘ قرار دیا تھا ۔ سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل(ر) حمید گل مرحوم‘ جن کی رگوں میں خون نہیں پاکستان کی محبت دوڑتی تھی‘ نے ہمیشہ عالمی سطح پر کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائی اورتحریکِ جوانانِ پاکستان و کشمیر کے پلیٹ فارم سے تحریکِ آزادیٔ کشمیر میں نئی روح پھونکی۔جو خاص شہرت جنرل (ر) حمید گل کے حصے میں آئی ہے‘ وہ بہت کم لوگوں کو ملتی ہے اور اس کی وجہ ان کی اسلام اور پاکستان سے بے لوث وابستگی تھی۔ آپ اکثر کہاکرتے تھے کہ کشمیر کو آزاد کرانے کی خاطر اگر پاکستان کو 50 جنگیں بھی لڑنا پڑیں تو ہم اس کیلئے تیار ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ کی وفات کے بعد کشمیر کو کاز جتنا کو نقصان پہنچا‘ وہ ناقابلِ بیان ہے۔ جنرل صاحب نے بھارت ہی نہیں‘ پوری دنیا کو دوٹوک الفاظ میں انتباہ کیا تھا کہ ہم جنگ کے خواہشمند نہیں‘ لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو پھر چین وعرب ہمارا‘ سارا ہندوستا ن ہمارا ہو گا۔
اس امر میں کسی شک وشبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ کشمیر کے دریائوں کا شہدا کے خون سے رنگین پانی پاکستان کی فصلوں کو سیراب کر رہا ہے لیکن حکومتی معذرت خواہانہ پالیسیوں سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جونا گڑھ پر قبضہ کر کے اسے بھارت میں ضم کر دیا گیا‘ ہم نے کیا کیا؟مشرقی پاکستان کو جدا کر کے بنگلہ دیش بنا دیا گیا‘ پھر بھی ہم امن کی بانسری بجاتے رہے، دشمن ہمارے وجود پر ضربیں لگاتا رہا اور ہم شملہ معاہدے سے ہی باہر نہیں نکلے، ادھر بھارت نے تمام معاہدوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مسلسل نفی کر رہا ہے اور اس وقت مقبوضہ وادی نو مین لینڈ بن چکی ہے۔ کشمیر کے معاملے میں ہمیں چین سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جس نے بھارتی غنڈہ گردی کامنہ توڑ جواب دیا۔ ا س نے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی جانب نہیں دیکھا بلکہ دشمن کو ناکوں چنے چبواتے ہوئے اپنا علاقہ واپس لیا۔ نیپال کو دیکھئے کہ وہ کمزور سا ملک ہونے کے باوجودبھارت کی ہٹ دھرمی کے سامنے ڈٹ گیاہے، اس نے بھارتی علاقے اپنے نقشے میں شامل کر کے اور اپنا نیا نقشہ اسمبلی سے منظور کر کے بھارت کو آنکھیں دکھائیں ہیں۔ پاکستان کی آرمی یقینا کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ہم آخری سپاہی اور آخری گولی تک لڑیں گے لیکن ہمیں یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ مسئلہ کشمیر نہ تقریر سے اور نہ تحریر سے اور نہ ہی سیاستدانوں کی تدبیر سے حل ہو گا بلکہ اس کا حل صرف اور صرف شمشیر سے ہوگا۔ میں تمام کشمیریوں بالخصوص مقبوضہ جموں و کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آپ تکلیف میں ضرور ہیں لیکن تنہا نہیں ہیں۔ آج پاکستان کا بچہ بچہ‘ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سمیت پوری قوم آپ کی حقِ خودارادیت کی جدوجہد میں آپ کے ساتھ ہے اور ان شاء اللہ آزادی کا سورج طلوع ہونے تک ہم آپ کا ساتھ نبھائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں