جنرل (ر) حمید گل‘ عسکری تاریخ کا روشن باب

20نومبر1936ء کودشمن استعمار کو لوہے کے چنے چبوانے والے ایک مجاہد نے جنم لیا۔ کون جانتا تھا کہ سرگودھا کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا یہ بچہ ایک خاص مقصد کے لیے اس دنیا میں آیا ہے؟ کسے خبر تھی کہ یہ مردِ حر بڑا ہوکر دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کا غرور خاک میں ملا دے گا اور دنیا کی سپر پاور ''سوویت یونین‘‘ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ عسکری دنیا کے عظیم نام اور دنیائے انٹیلی جنس میں افسانوی شہرت کے حامل‘ جس کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی‘ جنرل(ر) حمید گل نے آخری سانس تک بھارت سمیت تمام دشمن ممالک اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو تگنی کاناچ نچائے رکھا۔ وہ اکھنڈ بھارت کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ تھے جن کی دلیرانہ پالیسیوں پر 'را‘ کے چیف کو گھٹنے ٹیکنا پڑے تھے۔ ایک محب وطن ہونے کے ناتے انہوں نے خطے میں بھارتی عزائم کو ہر قدم پر ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ غازی جنرل حمید گل پاک فوج اور آئی ایس آئی کے درخشاں ستار ے، ایک ایسے نڈر سپاہی تھے جس کی مثال بڑی مشکل سے تلاش کی جاسکے گی۔ ان کی سپاہیانہ صلاحیتوں، عسکری دانشمندی اور فوجی حکمت عملی نے دنیا کو محو حیرت کر دیا تھا۔ جو شہرت جنرل حمید گل کے حصے میں آئی‘ وہ بہت کم لوگوں کو ملتی ہے۔ جنرل صاحب محض گفتار کے ہی نہیں کردار کے بھی غازی تھے۔ اپنے ناقدین کے سخت جملے سن کر خوش دلی سے ان کا مدلل جواب دے دینا ان کی خوبیوں میں شامل تھا۔
جنرل (ر) حمید گل کانام آج بھی دشمنوں کے دلوں میں ہیبت اور ان پر لرزہ طاری کردیتا ہے۔ آپ اس پاک دھرتی کا وہ بطل حریت تھے کہ جس نے بطور بریگیڈیئر برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ رائل وار کالج کا عسکری کورس یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ''انگریز کون ہوتا ہے مجھے جنگ سکھانے والا، وطن کا دفاع اپنی مٹی کے جس فہم سے آتا ہے، وہ میرے لہو میںدوڑتا ہے‘‘۔ بے شک جنرل صاحب اسلام کے آفاقی پیغام کے پیروکار اور پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کے پاسبان تھے۔ ا س دبنگ شخص کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے کم عمر لیفٹیننٹ جنرل ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ انہوں نے ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا کا چارج اس پیشہ ورانہ منطق کے ساتھ ٹھکرا دیا تھا ''میں ٹینک بنانے نہیں بلکہ ٹینک چلانے کیلئے آیا ہوں‘‘۔ اس عظیم شخص کے جذبۂ حب الوطنی اور جہدِ ملی پر اس کے بدترین نظریاتی مخالف بھی رشک کرتے تھے۔ وہ اتحادِ اُمت پر یقین رکھتے تھے۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز سے آخری سانس تک وہ سالمیتِ پاکستان، استحکامِ پاکستان، دفاعِ پاکستان اور بقائے پاکستان کی جنگ لڑنے کیلئے ہمیشہ ایک مجاہد کی طرح میدانِ عمل میں سرگرم رہے۔ انہوں نے ہمیشہ یاد رکھی جانے والی زندگی گزاری۔ ان کی وفات پر کہا گیاکہ دنیا کے پانچ بڑے دماغوں سے ایک دماغ چلا گیا۔ وسطی ایشیائی ریاستوں میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، وہاں کے مسلمانوں نے کہا کہ جنرل گل کی وجہ سے ہی ہماری مسجدیں محفوظ ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کا نام عظیم جرنیلوں میں ہمیشہ لیا جاتارہے گا۔
مرحوم درحقیقت ایک سچے اور کھرے محب وطن تھے۔ حب الوطنی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا، وہ ایسے منفرد قومی رہنما ہیںجن کی حب الوطنی پر کبھی کوئی آنچ نہیں آئی۔ انہوں نے زندگی اپنے اصولوں کے تحت گزاری اور انہی اصولوں کی پاسداری میں ہمیشہ وقت کے سلطانوں کے سامنے جھکنے سے انکاری رہے۔ وہ فرماتے تھے '' میری منزل اسلام ہے‘ اسلام آباد نہیں، جس دن اس دنیا سے چلا جائوں‘تم میرے مشن، سربلندیٔ اسلام اور دفاعِ پاکستان کیلئے زندگی کے آخری سانس تک لڑنا اور ہمیشہ حق کا ساتھ دینا‘‘۔ بے شک وہ مر کر بھی امر ہو چکے اور وہ ابھی تک اپنی قوم کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ نظریۂ پاکستان اور پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے بہت بڑے حامی تھے۔ ان کے تجزیے کا کوئی بھی جملہ بے وزن نہیں ہوتا تھا۔ آپ ہمیشہ پاکستانی قوم کو الرٹ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے '' افغانستان پر روسی حملہ، افغانستان بہانہ اور پاکستان ٹھکانہ ہے‘‘ اسی طرح امریکا کے بارے میں بھی کہتے تھے '' نائن الیون بہانہ‘ افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے‘‘۔ انہوں نے ایک دفعہ ٹی وی پر کہا تھا کہ پاکستان نے امریکا کی مدد سے روس کو افغانستان میں شکست دے دی، ایک وقت آئے گا کہ آپ سنیں گے کہ امریکا کی مدد سے امریکا کو افغانستان میں شکست دی گئی۔ آج اُس مجاہد کے یہ الفاظ حقیقت کر روپ دھار کر افغانستان میں امریکی پسپائی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ انہوں نے موجودہ بوسیدہ سیاسی نظام کے حوالے سے بھی پیش گوئی کی تھی جو سچ ثابت ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف سوشل میڈیا پر ان کے نظریات کا چرچا ہے بلکہ اب تو ٹرکوں پر بھی اشعار کے بجائے ان کے سنہرے اقوال و افکار لکھے نظر آتے ہیں جس کا مطلب یہی ہے کہ ان کا نظریہ، ان کی ڈاکٹرائن آج بھی سلامت ہے۔
انہوں نے کشمیر کی آزادی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کشمیر لبریشن کونسل کی بنیاد رکھی۔ بھارتی میڈیا میں اس حوالے سے کافی واویلا مچایا جا تا ہے۔ پاکستانیوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ سوویت یونین نے مشرقی پاکستان کو توڑنے میں بھارت کی مدد کی تھی۔ سوویت یونین اور بھارت کا دفاعی معاہدہ تھا جس پر جنگ کے دوران روس کی ایٹمی گن بوٹس نے ہمارے سمندروں کامحاصرہ کیے رکھا اور بحریہ کو مفلوج کر دیا۔ پاکستان کے اتحادی امریکا کی جانب سے پاکستان کو یہ تسلی کرائی گئی کہ امریکا کا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے روانہ کر دیا گیا مگر ''یہ آیا‘ وہ آیا‘‘ کے مصداق وہ کبھی پاکستان کی مدد کو نہیں آیا، بلکہ ہنری کسنجر کی کتاب کے مطابق‘ امریکا نے بھی قیامِ بنگلہ دیش میں بھارت کی مدد کی تھی۔ آئی ایس آئی کے سربراہ‘ جنرل حمید گل نے بہترین منصوبہ بند ی کر کے افغانستان میں سوویت یونین سے ملک توڑنے کا بدلہ لیا۔ سوویت یونین کے خلاف بھرپور مزاحمت اور مجاہدین کی بھرپور اعانت کی گئی۔ جنرل گل کی افغان جہاد میں دلچسپی اور ان کی اس سے والہانہ عقیدت کا ثبوت یہ ہے کہ وہ افغان جہاد کی اضافی ذمہ داریوں کے عوض ملنے والا الائونس بھی جہاد فنڈ میں جمع کروا دیتے تھے۔ نہ صرف افغان مجاہدین اور طالبان قیادت بلکہ وسطی ایشیا کے مسلمان بھی ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد اس کا ٹکڑا کمیونزم کے خاتمے میں ان کے کردار کے اعتراف کے طور پر انہیں پیش کیا گیا۔ بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی را اور انڈین ملٹری انٹیلی جنس نے جنرل گل کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ہمیشہ حاضر سروس جرنیل سمجھا۔ وہ بھارت‘ اسرائیل اور ان کے حمایتیوں کے حوالے سے نہایت سخت جذبات رکھتے تھے۔ بھارتی دارالحکومت دہلی کے صحافی سشانت سنگھ نے اپنے ایک تجزیے میں لکھا تھا کہ حمید گل نے اپنے دور میں خالصتان تحریک کو اس مہارت سے اٹھایا تھا کہ بھارتی حکومت کی چیخیں نکل گئی تھیں۔ بھارت آج بھی مختلف ریاستوں میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں پر موردِالزام جنرل صاحب کو ٹھہراتا ہے۔ وہ بھارت ہی نہیں‘ دنیا کو دوٹوک الفاظ میں انتباہ کیا کرتے تھا کہ ''ہم جنگ کے خواہشمند نہیں ہیں لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو پھر سارا ہندوستا ن ہمارا ہو گا‘‘۔ وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کے بے باک ترجمان تھے‘اکثر فرماتے کہ ' کشمیر کو آزاد کرانے کی خاطر اگر پاکستان کو پچاس جنگیں بھی لڑنا پڑیں تو ہم اس کیلئے تیار ہیں‘۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ان کی رحلت کے بعد کشمیر کاز کو جتنا نقصان پہنچا‘ وہ ناقابلِ تلافی ہے۔ آج میانمار میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں‘ انہیں منظم سازش کے تحت اپنی سرزمین سے بیدخل کیا جا رہا ہے‘ شام میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے‘ عراق اور لیبیا برباد کر دیے گئے‘ مشرقِ وسطیٰ آگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلتے ہوئے اس کا خصوصی ریاستی درجہ ختم کر دیا گیا ہے‘ کشمیری بدترین فوجی محاصرے میں ہیں‘ ان پُر آشوب حالات میں آج پھر دنیا کو حمید گل جیسے عظیم جرنیل اور اسلام کے سچے سپاہی کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں