سانحاتِ 16 دسمبر :کیا کھویا کیا پایا ؟

16 دسمبر جب بھی آتا ہے خون کے آنسو رلاتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ اور آرمی پبلک سکول کا سانحہ زخموں کو کرید کر چلا جا تا ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی بازو ہم سے جداہوا اور 2014ء میں اس دن پاکستان کی تاریخ کا اندوہناک واقعہ پیش آیا جب انسانیت سے عاری درندوں نے پلک جھپکتے ہی قوم کے نونہالوں کو خون میں نہلا دیا تھا۔ بلاشبہ محصوم شہدا کی قربانیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نئی روح پھونکی جس کے بعد نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا اورضربِ عضب آپریشن کے ذریعے سفاک دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا۔ افسوس !ان الم ناک سانحات کی یاد دہانی کیلئے ہر سال کانفرنسیں، اجلاس و سیمینارز کا انعقاد ہو تا ہے اور بنگلہ دیش بننے کا سارا ملبہ دشمن پر ڈال کر حکومتی‘ سیاسی و سماجی اداروں پر ایک سکوت چھا جاتا ہے، اس دوران نہ ہمیں 71ء کی پاک بھارت جنگ میں وطن کی سالمیت پر مر مٹنے والے شہدا کی یاد ستاتی ہے اور نہ ان لٹے پٹے مہاجرین کاخیال آتا ہے جنہوں نے پاکستا ن کی خاطر بنگلہ دیش میں رہنا گوارہ نہ کیا۔ وہ بہاری مسلمان آج بھی پاکستان آنے کے انتظار میں ہیں۔ اس میں کسی حد تک مغربی پاکستان میں بسنے والے لوگ بھی قصور وار ہیں‘ آخر کیوں زمینی و جغرافیائی فاصلوں کے ساتھ وہ دلوں کے فاصلے نہ مٹا سکے۔ 2005ء کے زلزلے کے وقت قوم نے اپنے ہم وطنوں کو دکھ کی گھڑی میں اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔ یہ جذبہ اس وقت کہاں تھا جب مشرقی پاکستان میں نومبر1970ء میں دریا ئے میگھنا میں ایک شدیدسمندری طوفان آیا تھا جس کے نتیجے میں بڑی انسانی تباہی ہوئی۔ افسوس کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والے ہم وطنوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا تھا۔ عوامی لیگ نے اس قدرتی آفت سے بھرپور سیاسی فائدہ کشید کیا اور ''را ‘‘کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کی۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس نازک مرحلے پر بھی ہمارے سیاستدان اپنی اپنی دکانداری چمکانے میں مصروف رہے۔ اگر اقتدار کی منتقلی میں تاخیر سے کام نہ لیا جاتا،مخالفین کا مینڈیٹ دل سے تسلیم کرکے افہام و تفہیم سے کام لیا جاتا اور زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کو اقتدار دے دیا جاتا‘ جو عوامی لیگ تھی‘ تو شاید مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ نہ ہوتا۔ افسوس آج ایک دفعہ پھر ہم ویسے ہی حالات سے دو چار ہیں۔ قومیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے ہی سیکھتی ہیں اور ہم نے اس سے کیا سبق سیکھا؟
1971 ء میں مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو بھارت نے نہ صرف یہ قبیح پروپیگنڈا جاری رکھا بلکہ باقاعدہ فوج کشی کرکے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ1965ء کی جنگ میں ملنے والی بدترین ذلت و شکست کا بد لہ لینے کیلئے بھارتی کارروائیاں اسی وقت سے شروع ہو چکی تھیں۔ بنگالیوں کو یہ باور کر ایا گیا کہ مغربی پاکستان کے لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں‘ انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دانستہ طورپرانہیں پسماندہ اور غیرترقی یافتہ رکھنا چاہتے ہیں۔ نفرت اور عداوت کی چنگاریاں جب بھڑ کنے لگیں تورا نے بنگالیوں پر مشتمل ایک گوریلا تنظیم ''مکتی باہنی‘‘ بنائی۔ بھارتی ایجنسی ''را'' کے قیام کا اصل مقصد ہی بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھا۔ را کا پہلا ٹاسک ہی پاکستان کا مشرقی بازو الگ کرنا تھا اور اس مذموم کارروائی کو ''آپریشن بنگلہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے مشرقی پاکستان میں نام نہاد صحافیوں، اساتذہ اور دانشوروں سمیت ہر طبقے کو ''فکری دہشت گردی‘‘ پر لگادیا گیا۔ بھاری رقوم اس مقصد کے لیے مختص کی گئیں جبکہ بھارتی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے پاک فوج کے خلاف ہر ممکن زہر اگلا جاتا رہا۔ بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان میں قائم تربیت گاہوں میں مکتی باہنی کے دہشت گردوں کو تخریب کاری اور گوریلا جنگ کی تربیت دی جنہوں نے پاک فوج کی وردیوں میں ملبوس ذلت آمیز کارروائیاں کرکے مشرقی پاکستان کے عوام کو پاک فوج سے متنفر کیا۔ 16 دسمبر کو صرف مغربی پاکستان ہی میں نہیں‘ مشرقی پاکستان میں بھی بہت سے محب وطن خاندان دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔ مشرقی پاکستان میں قتل و غارت اور نسل کشی کا سارا الزام مغربی پاکستان پر ڈال دیا گیا اور بھارت نے 1971ء سے متعلق تمام ریکارڈ سرے سے ہی غائب کر دیا۔بدقسمت مسلمانوں کے ہزاروں خاندانوں‘ جن میں سے بیشتر وہ مہاجرین تھے جنہوں نے 1947 ء کے بعد مشرقی پاکستان میں بسر ہونے کا فیصلہ کیا تھا، کا بے رحمی کے ساتھ صفایا کردیا گیا۔ خواتین کی عصمت دری کی گئی‘ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسران اور ان کے کنبوں کو چن چن کر ہلاک کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق‘ جب جہاز چٹاگانگ کے قریب پہنچا تو وہاں لاشیں تیر رہی تھیں۔ نٹور کے قریب ایک چھوٹا سا بہاری قصبہ تھا جس کا نام سانتاہر تھا‘ وہاں بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا۔ ٹائمز(لندن)کے مطابق ''مکتی باہنی کا تمام نہیں تو بڑا حصہ بھارتی فوجیوں پر مشتمل تھا۔ اب بھارت کا اگلا اقدام یہ تھا کہ پاک فوج کے کام میں رکاوٹ کے لیے ذرائع مواصلات کو سبوتاژ کرے اور باغیوں کی حوصلہ افزائی کی غرض سے مشرقی پاکستان میں تخریب کار بھیجے۔ ابتدا میں بھارت نے مکتی باہنی کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کیا لیکن جب یہ بات واضح ہوگئی کہ متعینہ مقاصدکاحصول مکتی باہنی کے بس کی بات نہیں تو بھارتی فوج خود میدان میں کود پڑی‘‘۔ 1971ء میں بھارتی آرمی چیف مانک شاہ کے سٹاف افسر بریگیڈیئر دپندر سنگھ نے اپنی کتاب ''Soldiering with Dignity‘‘ میں لکھا ہے '' ہم نے مکتی باہنی کو تیار کیا‘ جن میں سے کچھ کو ہم پاک فوج کی وردیاں پہنا کر مشرقی پاکستان میں لوٹ مار اور آبروریزی کا ٹاسک دے کر بھیجتے جس سے وہاں کے لوگوں میں پاکستان آرمی کے خلاف نفرت عروج پر تھی‘‘۔
پاکستان کو توڑنے پربنگلہ دیش کی حکومت نے2012ء میں اندراگاندھی کو ''فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار ‘‘ایوارڈ دیا تھا۔ یہی ایوارڈ 2016ء میں واجپائی کوبھی دیاگیا جسے بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے وصول کیااور ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے فخریہ اعتراف کیا کہ پاکستان کوتوڑنے میں بھارت ملوث تھا اور یہ کہ انہوں نے خود بطور آر ایس ایس پر چارک‘ مکتی باہنی میں شامل ہو کر متحدہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا۔ کیا اس کے بعد بھی سقوطِ ڈھاکہ میں بھارت کی شمولیت کے حوالے سے کوئی شک وشبہ باقی رہ جاتا ہے۔ بھارتی فوجوں نے جب بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کیا تو اندرا گاندھی نے قوم سے خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ آج ہم نے پاکستان کے دوقو می نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبودیا ہے۔
لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ سقو طِ ڈھاکہ جیسے عظیم سانحے کے بعد بھی ہم متحد نہ ہو سکے‘ دشمن ہمیں نفاق کی دو دھاری تلوار سے مسلسل کاٹ رہا ہے اس سے بچنے کا واحد حل اتحاد اور باہمی یگانگت میں پنہاں ہے۔ جنگ احد میں رسول خد اﷺ کے فرمان سے غفلت کے سبب مسلمانوں کو نقصان اور وقتی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، مگرہمارے اسلاف نے اس سے ایسا درس لیا کہ اس کے بعد قوی ترین دشمنوں کو بھی ہمیشہ کیلئے نابود کر دیا۔ اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں مستقل طور پر مضبوط اور مستحکم بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں غیرمنصفانہ سسٹم کو ترجیحی بنیادوں پر تبدیل کرنا ہو گا۔پاکستان کو اسلام کے سنہری اصولوں امانت‘ دیانت‘ صداقت‘ مساوات‘ انصاف اور عوامی فلاح کے مطابق تشکیل دینا ہو گا۔ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بناکر ہی مضبوط اور مستحکم کیا جاسکتا ہے اور بیرونی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں