مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جو کارروائیاں کی گئی ہیں‘ ان کے اب تک جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے یہ باتیں واضح ہو چکی ہیں کہ عالمی اداروں نے دانستہ کشمیر کے معاملے میں زیادہ دلچسپی دکھانے کی کوشش نہیں کی‘ اسرائیل پاکستان کے خلاف بھارت کی مدد کرنے کی غرض سے مقبوضہ کشمیر میں اپنے عسکری ماہرین اور کمانڈوز اتار چکا ہے‘ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے جنگی جرائم میں امریکا بھی برابر کا شریک ہے‘ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو امریکی شہ اس وقت ملی جب افغانستان میں طالبان اور امریکہ کے مابین جنگ بندی کے معاہدے کی کوشش کی جارہی تھی۔
ان چیدہ نکات کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں بھارت کو امریکہ‘ یورپ اور اسرائیل کی مکمل تائید حاصل ہے۔ بھارت میں دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کا سیاسی ونگ سمجھی جانے والی بے جے پی اقتدار میں آکر پورے بھارت سمیت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے قتل عام کو ہوا دے رہی ہے لیکن دنیا کو اس پر بھی اعتراض نہیں کیونکہ یہ سب کچھ اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ کیا یورپ اور امریکا کے حکمران اس بات سے واقف نہیں کہ مودی کا بھارت نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں کا بھی اتنا ہی دشمن ہے‘ کیا بھارتی گرجا گھروں کو نذرِ آتش اور عیسائیوں کو زندہ جلانے کے واقعات عالمی میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوئے لیکن یورپ کی کسی ریاست یا امریکا نے مذہب کے نام پر ہی سہی‘ بھارتی عیسائیوں کی حمایت میں کوئی بیان نہیں دیا۔ ایک عرصے سے اسرائیلی فوجی فلسطینی مسلمانوں بالخصوص بچوں پر ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں‘ انہیں اغوا کرکے جیلوں میں بند کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ میڈیا کے سامنے ہو رہا ہے لیکن عالمی حکومتوں نے چپ سادھ رکھی ہے۔ یہی کام اب بھارتی فوج اور آر ایس ایس کے غنڈے مقبوضہ وادی میں کررہے ہیں مگر اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے خاموش ہیں۔
میری نظر میں مقبوضہ کشمیر میں اٹھائے جانے والے مودی کے یکطرفہ اقدام اب خود اس کے گلے پڑ چکے ہیں۔ دراصل ہندوبنیے کو جو سبز باغ عالمی صہیونیت نے دکھایا تھا‘ اس کے سبب بھارتی حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ آرٹیکل 370 ختم کرکے‘ مقبوضہ وادی میں مزید فوج بھیج کر اور کشمیری مسلمانوں کوان کے گھروں میں قید کرکے یہ مسئلہ چند دنوں میں حل کرلیا جائے گا۔ یہی وہ سبز باغ ہے جو امریکا اور یورپ کو افغانستان پر حملے سے پہلے دکھایا گیا تھا کہ نیٹو کی بھرپور عسکری قوت اور شمالی اتحاد کی بھرپور معاونت کے بل بوتے پر چند دنوں میں طالبان کو افغانستان سے نابود کر دیا جائے گا۔ اسی تصور کے ساتھ امریکا کو اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان روانہ کیا گیا لیکن ہوا کیا؟ پہلی فرصت میں امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے بھاگ گئے۔ اسی طرح‘ کیا سوویت یونین جیسی عالمی قوت اس لیے افغانستان آئی تھی کہ اس کا وجود ہی تاریخ کا حصہ بن جائے ؟ افغانستان آنے کا فیصلہ ماسکو کا اپنا تھا لیکن اس کے نتائج کا اسے گمان تک نہ تھا۔ یہی حال امریکا کا ہوا اور یہی حال اب کشمیر میں بھارت کا ہونے جارہا ہے۔ آنے والے وقت میں جو ہڑبونگ بھارت میں مچنے جارہی ہے‘ اس کا اندازہ شاید نریندر مودی کو نہیں۔ اگر بھارت وہاں گڑ بڑ کرا کے ''امن فوج‘‘ کے نام پر عالمی عسکری مداخلت کا خیال رکھتا ہے تو یہ اتنا آسان نہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ افغانستان میں جو مار امریکا اور اتحادیوں کو پڑ ی‘ اس کا دائرہ مقبوضہ وادی تک پھیل جائے۔
اب برطانیہ کی سٹوک وائٹ نامی لاء فرم نے لندن پولیس ڈیپارٹمنٹ کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جنگی جرائم کے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کرتے ہوئے بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مکند نروا اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ برطانوی لاء فرم کی بھارتی فوج کے مظالم پر رپورٹ 2020 ء اور 2021 ء کے دوران حاصل کی گئیں 2 ہزار سے زائد شہادتوں پر مبنی ہے۔ جنیوا کنونشنز ایکٹ 1957ء کے تحت جنگی جرائم عالمگیر دائرۂ اختیار کے تابع ہیں اورلندن پولیس کو یہ درخواست 'عالمی دائرۂ اختیار‘کے اصول کے تحت دی گئی ہے کیونکہ برطانوی قانون جنیوا کنونشنز ایکٹ کے تحت دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کی اجازت دیتا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ کسی بھارتی فوج کے سربراہ یا وزیر کے خلاف بھارت سے باہر کہیں کیس درج کرایا گیاہو۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل 2018ء میں اقوام متحدہ کے سربراہ نے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کی تحقیقات کرانے کی اپیل کی تھی جہاں کالے قانون ' افسپا ‘کے تحت بھارتی افواج کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں‘ جن کی آڑ میں خطے میں تشدد اور لوگوں کو ہراساں کرنا معمول بن چکا ہے۔ برطانوی قانونی ادارے نے تشویش ظاہر کی ہے کہ کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران تشدد کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہواہے۔ حال ہی میں انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن خرم پرویز اور صحافی سجاد گل کی گرفتاری کو بھی ادارے نے اپنی دستاویز میں شامل کیا جبکہ عالمی سطح پر ان کی رہائی کی اپیلیں بھی زور پکڑ رہی ہیں۔ الغرض دنیا پر عیاں ہو چکا ہے کہ بھارتی فوج دنیا کی سب سے سفاک فورس ہے جسے مسلم نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کی تربیت دی جاتی ہے اور وہ مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، ایسے میں گھنائونے جرائم میں ملوث فوج کے 26 جنوری کو یومِ جمہوریہ منانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بھارتی فوج مقبوضہ وادی کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی بے گناہ شہریوں کو گولیاں مار رہی ہے۔ ناگالینڈ میں 14 بے گناہ شہریوں کا حالیہ قتل بھارتی فوج کی وحشیانہ کارروائی کا ایک بین ثبوت ہے۔ گزشتہ 2 دہائیوں میں بھارتی فوج نے بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں 4 ہزار 265 شہریوں کو ہلاک کیا۔ لوگوں کوجعلی مقابلوں میں قتل کرنا بھارتی فوج کا مشغلہ معلوم ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مظلوم شہریوں کی جعلی مقابلوں اور ماورائے قانون شہادتوں نے بھارتی فوج کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ رواں مہینے میں بھارتی فوج اب تک 14 کشمیریوں کو ماورائے عدالت شہید کر چکی ہے جبکہ گزشتہ 3 دہائیوں میں 95 ہزار 948 کشمیری بھارتی فوج کی بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔
گزشتہ سال پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کو پیش کیے گئے ڈوزیئر ر کے مطابق 1989 ء سے 2021ء تک‘ 96 ہزار ماورائے عدالت قتل، 1 لاکھ 62 ہزار غیر قانونی گرفتاریوں اور تشدد کے واقعات ہوئے جبکہ 25 ہزار افراد ممنوعہ پیلٹ گنوں سے زخمی ہوئے۔ اس عرصے کے دوران 11 ہزار 250 خواتین کی بے حرمتی کی گئی، 23 خواتین بیوہ اور 1 لاکھ 8 ہزار سے زیادہ بچے یتیم ہوئے۔ بھارتی فوج جنسی تشدد کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر وسیع پیمانے پر استعمال کرتی ہے جبکہ تلاشی اور محاصرے کی آڑ میں خواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ سب سے ہولناک کنن پوش پورہ کا 1991 ء کا اجتماعی زیادتی کاواقعہ ہے جہاں کرنل کے ایس دلال کی سربراہی میں ''راجپوتانہ رائفلز‘‘ کے 300 سے زائد فوجیوں نے صرف ایک رات میں 150 خواتین کو اپنی بربریت و سفاکیت کا نشانہ بنایا تھا۔ ان سب جرائم کے علاوہ وادی میں موجود 8 ہزار 652 گمنام قبریں بھی انسانی حقوق کے علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ گھنائونے جرائم میں ملوث 1128 فوجی اہلکاروں کی طویل فہرست دنیا کی آنکھیں کھولنے کیلئے کم نہیں۔ ''نسل کشی کے مترادف جرائم‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈوزئیر میں بتایا گیا تھاکہ 1947ء سے اب تک 4 لاکھ سے زائد کشمیریوں کو ان کی نسلی ومذہبی شناخت کی وجہ سے قتل کیا جا چکا ہے؛ چنانچہ اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جنگی جرائم، نسل کشی اور تشدد کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرتے ہوئے بھارتی فوج کو اس کی وحشیانہ کارروائیوں کے لیے قانون کے کٹہرے میں لائے۔ بھارتی آرمی چیف اور وزیر داخلہ کے خلاف درخواست دینے والی لاء فرم کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل پر بھی زور دینا چاہیے کہ وہ اپنی اپنی منظور کردہ قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں