مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور دنیا کی مجرمانہ خاموشی

پاکستان نے 1990ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کرنے کے لیے باضابطہ طور پر 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا آغاز کیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان اس معاملے پر اپنے بیان کردہ موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی5 فروری کانفرنسوں‘ اجلاسوں‘ احتجاجی مظاہروں کے ساتھ نہایت مصروف دن کے طور پر گزرا۔ اس دن جدوجہدِکشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے میڈیا پر خصوصی نشریات کا اہتمام کیا گیا۔ بیرونِ ملک بھی غیر قانونی بھارتی قبضے اور کشمیریوں کو درپیش ظلم و ستم کے بارے میں بین الاقوامی برادری کو آگاہ کرنے کے لیے احتجاج اور مظاہروں کا انعقاد ہوا۔ بلاشبہ 5 فروری آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کے گہرے تعلقات کی علامت ہے؛ تاہم میرا سوال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام سے یکجہتی کے اظہار کیلئے ایک روزہی کیوں ہے؟ کیا سال میں صرف ایک دن مظلوم کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کرکے‘ کشمیر کی آزادی کا نعرہ بلند کرکے ہم کشمیریوں کے خون کا قرض اتار سکتے ہیں؟ 'کشمیر بنے گا پاکستان‘ سے دنیا کو ہم کیا پیغام دیتے آ رہے ہیں۔ وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اب ہم دوٹوک الفاظ میں اقوام عالم کے سامنے سینہ ٹھوک کر کہیں کہ 'کشمیر پاکستان ہے ‘۔ کیونکہ ہم جو روٹی‘ جو گندم کھاتے ہیں‘ ہماری وہ فصلیں بھی کشمیر کی طرف سے آنے والے پانیوں سے سیراب ہوتی ہیں اور اس میں ان آزادی کے متوالوں اور شیدائیوں کا لہو شامل ہے۔
2022ء کا بھی ایک مہینہ بیت گیا مگر افسوس کشمیریوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ رک نہ سکا بلکہ یہ مزید دراز ہوتا جا رہا ہے۔ رواں سال یوم یکجہتی کشمیر ان حالات میں منا یا گیا جب بھارت مقبوضہ کشمیر ہی نہیں‘ پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر بھی نظرِبد جمائے بیٹھا ہے اور اس پر شب خون مارنے کیلئے ہمیں دہشت گردی کے ذریعے منتشر کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور اس کے مسلمہ تشخص کے باعث ہی قائداعظم محمد علی جناح نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا لیکن ہمارے ازلی دشمن نے اس کو بے دست و پا بنارکھاہے۔ مسئلہ کشمیرکے حل کے حوالے سے تاریخ کے بدترین ڈیڈ لاک نے نام نہاد جمہوریت کے علمبردار بھارت کا گھناؤنا چہرہ دنیا پر عیاں کر دیا ہے۔ مودی کی جارحیت و بربریت اور جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے آج مقبوضہ وادی کے عوام کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہوئے بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں، ادویات اور غذا کی فراہمی معطل ہونے سے وہاں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں مسلم تشخص کو ختم کرنے کی سازش بھی تیار کی گئی ہے اور آبادیاتی تناسب بگاڑا جا رہا ہے۔ غیر کشمیریوں کو وادی میں لا کر بسانے کے ساتھ ساتھ انہیں نوکریاں بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب مقامی عوام پر تشدد کو بھارتی فوج نے اپنا نیا ہتھیار بنا لیا ہے، ہر طرف سڑکوں پربھارتی سکیورٹی فورسز کے جوانوں سے لدی سرکاری گاڑیاں نظر آتی ہیں۔ مقبوضہ وادی آج ایک عقوبت خانے کا منظر پیش کر رہی ہے، خواتین کی عصمت دری و بے حرمتی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اب ہو رہی ہیں‘ شاید ہی تاریخ میں کبھی ہوئی ہوں۔ پیلٹ گنوں کے استعمال سے تحریکِ آزادی کے متوالوں کی بینائی زائل کی جا رہی ہے، گولہ بارود سے تعلیمی اداروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی برادری اور او آئی سی کا اس ظلم و ستم کے خلاف کوئی مؤثر کردارتاحال دیکھنے کو نہیں ملا۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ بیشتر مسلم ممالک بھارت پر دبائو ڈالنے کے بجائے اس سے سیاسی معاشی و سماجی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہیں۔ 5 اگست 2019ء سے محصور‘ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے کشمیریوں نے بھارتی جبر کے ہر نئے حربے کو برداشت کرکے دنیا پر یہ ثابت کر دیا ہے وہ مر مٹ سکتے ہیں لیکن اپنی مؤقف پر کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے۔ مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کی بے حسی نمایاں نظر آتی ہے۔ عالمی طاقتوں اور دنیا میں امن و سلامتی کے دعویدار اداروں کو غفلت کی روایتی چادر اتار پھینکنا ہوگی کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر محض اس لیے خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی کہ مظلوم کشمیری مسلمان ہیں اور وہ حقِ خودارادیت چاہتے ہیں۔ اب بھارت کے ظالمانہ اقدامات کی محض مذمت اور ثالثی کی پیشکش سے اس کو مزید سر چڑھا کر کشمیریوں پر مظالم کیلئے ''ہلہ شیری‘‘ نہ دی جائے بلکہ ظالم کا ہاتھ روک کر وادیٔ کشمیر جنت نظیر کو مزید جہنم زار بننے سے بچانا ہو گا۔
جنرل(ر) حمید گل مرحوم نے تحر یک آزادیٔ کشمیر کے حوالے سے جو کردار ادا کیا‘وہ تاریخ میں سنہرے حروف کے ساتھ درج ہے۔ آپ کہاکرتے تھے کہ ''کشمیر کو آزاد کرانے کی خاطر اگر پاکستان کو 50 جنگیں بھی لڑنا پڑیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں‘‘۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ آپ کی وفات کے بعد کشمیر کاز کو سخت نقصان پہنچا۔ جنرل (ر) حمید گل کی رگوں میں خون نہیں پاکستان کی محبت دوڑتی تھی۔ انہوں نے ہمیشہ عالمی سطح پر کشمیریوں کے حق میں بھرپور آواز اٹھائی اور تحریک جوانانِ پاکستان و کشمیر کے پلیٹ فارم سے تحریکِ آزادی میں نئی روح پھونکی۔ آج کشمیریوں کو ایسے ہی مردِ مجاہد کا انتظار ہے جو انہیں مکار و عیار بنیے کے پنجۂ استبداد سے نجات دلا سکے۔
مظلوم کشمیری 1930ء سے‘ پہلے ڈوگرہ راج اور بعدازاں بھارت کی غلامی سے نجات کے لیے جنگِ آزادی لڑ رہے ہیں۔ اس عالمی مسئلے کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق ‘اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا ہے۔ آزادی کے لیے ایک صدی میں کشمیری لاکھوں جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ نریندر مودی کے بھارتی دستور سے دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد اگلا منصوبہ یہ ہے کہ بڑی تعداد میں غیر کشمیری ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر میں لا کر بسا یا جائے تاکہ مستقبل قریب میں جموں و کشمیر میں مسلم اکثریتی تشخص ختم کرکے راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ کے منصوبے کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھی ایک ہندو راشٹریہ بنا دیا جائے۔ مودی حکومت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے کہ ان قوانین کے خاتمے کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعمیر و ترقی کے عمل کو تیز کرنا ہے۔ بھارت کی 9 لاکھ غاصب فوج اور 6 لاکھ پیرا ملٹری فورسز کے نرغے میں مظلوم کشمیریوں کو محصور ہوئے ڈھائی سال سے زائدعرصہ ہو چکا ہے مگر ظلم و ستم کے تمام حربے کشمیریوں کے دلوں سے آزادی حاصل کرنے کے جذبے کو سرد کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جذبۂ آزادی کو دبانے کی بھارتی سرکار کی تمام کوششیں بہادر و غیور کشمیر ی عوام نے ناکام بنا دی ہیں۔ بھارت مظالم کے پہاڑ توڑ کر بھی مقبوضہ وادی کے عوام کے جذبۂ آزادی کو سرد نہیں کر سکا۔ کشمیری عوام نے غاصب اور ظالم بھارتی فوجوں اورسکیورٹی فورسز کے جبر و تشدد کو برداشت کرتے ہوئے‘ ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے ہوئے اور متعصب بھارتی لیڈران کے مکر و فریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی شمع روشن رکھی ہوئی ہے‘ اس کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اب کشمیری عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، بچے، بوڑھے اور جوان بھارتی فوجیوں کے ساتھ اب سینہ تان کر باغیانہ لب و لہجے میں گفتگو کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک وشبہے کی گنجائش نہیں کہ معذرت خواہانہ پالیسیوں سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ دشمن ہر اصول‘ ہر اخلاقیات کو پامال کرتا رہا اور ہم شملہ معاہدے سے ہی باہر نہیں نکلے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ مسئلہ کشمیر '' نہ تقریر سے، نہ تحریر سے اور نہ حکمرانوںکی تدبیر سے آزاد ہو گا بلکہ اس کا حل صرف اور صرف شمشیر سے نکلے گا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں