بھارت کی تہذیبی جارحیت

بھارت میں اقلیتوں کے خلاف منافرت اور تعصب کی انتہا ہو چکی ہے۔ فاشسٹ مودی ہٹلر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آرا یس ایس کی سر پرستی میں مسلمانوں کا صفایا کرنے کے مذموم منصوبے اور بھارت کو ہندو راشٹربنانے کی مہم پر عمل پیرا ہے۔ اکھنڈ بھارت کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ 20 کروڑ سے زائد بھارتی مسلمان ہیں‘ اسی لیے گائو ذبیحہ پر پابندی اور سیٹیزن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے بھارت کو مسلمانوں کے لیے ایک اور قرطبہ اور غرناطہ بنانے کی سازش تیار کی گئی ہے۔ امریکی تنظیم جسٹس فار آل کی جانب سے منعقدہ ورچوئل کانفرنس سے خطاب میں عالمی تنظیم 'جینو سائڈ واچ ‘کے بانی و محقق ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن نے اپنے مقالے ''نسل کشی کے دس مراحل‘‘ کے نظریے کے تحت بھارت میں مسلم نسل کشی کے آٹھ مراحل طے کرنے کی فکر انگیز تنبیہ کی ہے۔ ان کے مطابق‘ مسلم مخالف ماحول بنانے کا کام ہندو انتہا پسند تنظیمیں بڑی پلا ننگ کے ساتھ کر رہی ہیں۔
عصرِ حاضر میں اسلام اور مسلمانوں پر مختلف النوع تابر توڑ حملے ہو رہے ہیں۔ ان سے ان کی تہذیب و ثقافت اور دینی تشخص چھیننے کیلئے ہنود و یہود گٹھ جوڑ کی سازشیں عروج پر ہیں۔ امریکا و یورپ سے لے کر بھارت تک اسلامو فوبیا کی مذموم لہر جاری ہے اور دنیا بھر کے مسلمان شناختی بحران کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ اسلامی قوانین پر جو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں‘ ان میں حجاب کفار کے سخت نشانے پر ہے۔ دنیا کی نام نہاد بڑی جمہوریت بھارت کی ریاست کرناٹک میں گزشتہ ایک ماہ سے باحجاب طالبات کے کلاس رومز میں جانے پر پابندی عائد ہے۔ مسلمان بچیوں کو حجاب اتارنے پر مجبور کرنا اور انہیں کالج سے نکالنے کی دھمکی دینا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ یہ ہندو توا کی بدترین مثال بھی ہے۔ ایسے میں ریاست کر ناٹک کی بہادر و غیور بیٹی مسکا ن خان نے تنِ تنہا دہشت گردی کی علامت زعفرانی رومال پہنے ہندو جنونی جتھے کے سامنے اپنے حق کیلئے ببانگ دہل نعرۂ تکبیر بلند کیا جس کی گونج نے پوری امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ یہ یقینا حضرت سمیہؓ کی سنت ہے جنہیں اذیتیں دے دے کر شہید کر دیا گیا مگر وہ مشنِ حق سے پیچھے نہیں ہٹی تھیں۔ اسلام کی پہلی شہیدہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مسکان خان نے کلمہ حق بلند کر کے اپنی ہمت و جرأت سے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے جویقینا قابلِ تحسین ہے۔ بھارت کے سیکولر دستور کی دفعہ 14، 19 اور 29 کے تحت تمام مذہبی اقلیتوں کو اپنے دین‘ دھرم کے مطابق عبادت کرنے اور اپنی مرضی کا لباس پہنے کی پوری آزادی ہے۔ امریکی پارلیمنٹ اورکینیڈا کی عدالت میں باحجاب خاتون، اولمپک گیمز میں باحجاب اتھلیٹ آسکتی ہیں تو بھارت میں حجاب پر تنازع کیوں کھڑا کیا جا رہا ہے؟
اپنے حق پر ڈٹی ہوئی باحجاب مسلم طالبات تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں اور شاید یہی بات ہندو فرقہ پرست عناصر کو کھٹک رہی ہے۔ مسلم خواتین اور لڑکیوں کو ہراساں کر کے ان پر تعلیم و ترقی کے تمام دروازے بند کرنا ان کے مذموم مقاصد کا حصہ ہے۔ دراصل ہندو انتہا پسندحکومت مسلمانوں کی شناخت مٹانے کے درپے ہے اور اس حوالے سے مسلسل مذموم حرکات کی جا رہی ہیں۔ اس سے قبل Bulli Bai اور Sulli Deals جیسی شرمناک حرکات کے ذریعے مسلم خواتین کی حرمت و آبرو پر حملے کیے گئے اور اب حجاب اور پردے کے خلاف مہم چھیڑ دی گئی ہے۔ اگرچہ ہندو غنڈوں کے سامنے دھارتی شیرنی کی وڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی ہے مگر انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے عالمی اداروں کے کانوں پر جوں تک رینگتی دکھائی نہیں دی رہی۔ افغانستان کی خواتین کی تعلیم کا واویلا مچانے والے یورپ نے بھی بھارتی حکومت کے متعصبانہ اقدامات کے خلاف اب تک کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کی مہم میں تیزی آگئی ہے۔ مغربی تہذیب سے مرعوب طبقہ ہمیشہ سے یہ باور کرانے کی کوشش میں ہے کہ پردہ یا حجاب مسلم عورتوں کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ شریعت مطہرہ نے مسلمان عورتوں کو شرم و حیا اور ان کی ناموس کی حفاظت کیلئے مکمل ضابطہ و قانون دیا ہے۔
دنیا جان لے کہ حجاب محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ یہ مسلمان عورت کے وقار کی علامت اور اس کی شناخت ہے۔ جس طرح مغربی تہذیب میں عورت کو اپنے جسم کی نمائش کی آزادی ہے‘ مسلم خواتین کے جسم ڈھانپنے پر پابندیاں کیوں لاگو ہیں؟ انہیں پورے کپڑے پہننے کی آزادی پر قدغنیں کیوں لگائی جاتی ہیں؟ حقوق نسواں کی نام نہاد اور ناکام تحریک اور خود کشی کر رہی مغربی تہذیب کو صہیونی و طاغوتی طاقتیں مسلمانوں پر تھوپنا چاہتی ہیں۔ فرانس سے اس کی شروعات ہوئی تھی۔ فرانس جیسے نام نہاد روشن خیال ملک میں حجاب پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ مسجدوں پر تالے لگائے جا رہے ہیں۔ اس وقت ہالینڈ، سپین،ڈنمارک سمیت پورے یورپ میں مقامی مسلم اقلیت پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ سرعام مسلمان عورتوں کے حجاب چھیننے اور ان پر تشدد کے واقعات عام ہو چکے ہیں۔ بھارت میں بھی انتہا پسند بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے ہندو انتہا پسند تنظیمیں سب سے بڑی مسلم اقلیت کو دیوار سے لگانے کے مذموم منصوبے پر علی الاعلان کارفرما ہیں۔ دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کو سی آئی اے نے ''سیفرون ٹیرر ازم‘‘ کا نام دیا ہے اور بی جے پی اسی کا پولیٹیکل چہرہ ہے۔ وہاں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں اور نچلی ذاتوں پر 5 فیصد برہمن طبقے نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی ذات پات کے نظام نے بھارت کو پوری طرح اپنی جکڑ میں لے رکھا ہے۔ حیرت ہے کہ آج کے اس ڈیجیٹل دور میں بھی اونچی ذات کے برہمنوں نے شودروں اور دلتوں کا معاشی، سیاسی اور سماجی ناطقہ بند کر رکھا ہے اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ نریندر مودی نے حکومت سنبھالنے سے پہلے 'شائننگ انڈیا‘ کا نعرہ بہت روز و شور سے لگایا تھا۔ کیا یہ ہے نریندر مودی کا ' چمکتا بھارت‘ جس میں نہ صرف مسلمان کے جان و مال اور آبرو خطرے میں ہے بلکہ نچلی ذات کے ہندوئوں کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ بھارت میں خواتین کی بے حرمتی کے واقعات کی جڑیں ماضی میں پیوست ہیں۔قدیم ہندوستانی تاریخ بتاتی ہے کہ اس دور میں بھی نچلی ذات کی عورتوں سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ دلت اور شودر خواتین کو بے لباس گھمانا عام بات تھی۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ آج کے دور میں بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ چلتی بس کے اندر ایک لڑکی سے زیادتی ہو تی ہے‘ دور دراز دیہات میں خواتین کو زیادتی کے بعد قتل کرنا ایک معمول ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک جانب نعرہ لگاتے ہیں کہ ''بیٹی بچائو‘ بیٹی پڑھائو‘‘ اور دوسری جانب بھارت میں بیٹیاں محفوظ نہیں۔ افسوس مسلم خواتین کے تین طلاق کے ایشو پر بڑھ چڑھ کر بیان دینے والے نریندر مودی ایسے واقعات پر بالکل خاموش ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں گزشتہ دس برسوں میں خواتین سے زیادتی کے واقعات میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بے حرمتی کی واقعات زیادہ تر دلت خواتین کے ساتھ پیش آتے ہیں اور ہر روز اوسطاً87 واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے دنیا بھر میں بھارت چوتھے نمبرپرآتا ہے, جہاں ہر بائیس منٹ میں ریپ کا ایک کیس رجسٹرڈ کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق رپورٹ ہونے والے کیسز اصل واقعات کا دس فیصد بھی نہیں۔ پسماندگی اور دبائو کی وجہ سے نوے فیصد خواتین رپورٹ ہی درج نہیں کراتیں۔
بھارت میں بھی مغرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ''اسلامو فوبیا‘‘ کے خطرناک رجحان کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ بھارت میں بڑھتی مسلم دشمنی نے مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس سمیت کسی بھی حکومت نے کبھی مسلمانوں کو بھارتی شہری تسلیم نہیں کیا بلکہ ان کا بھارت سے نام و نشان مٹانے اور انہیں سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی طور پر پسماندہ رکھنے میں ہر کسی نے اپنی بساط سے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں