پاکستان کے مخلص دوست شیخ خلیفہ بن زایدالنہیان کی رحلت

متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زایدالنہیان کے انتقال سے نہ صرف یو اے ای ایک قابل رہنما بلکہ پاکستان بھی ایک عظیم، مخلص اور بااعتماد دوست سے محروم ہوگیا ہے۔ شیخ خلیفہ بن زایدالنہیان ابوظہبی کے 16ویں حکمران تھے۔ وہ ایک بلند پایہ عالمی لیڈر تھے جن کی قیادت میں متحدہ عرب امارات نے بلندیوں کا سفر طے کیا اور ریاست کو استحکام ملا۔ انہوں نے امارات کی ترقی میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ عزت مآب شیخ النہیان پاکستان کے بے لوث دوستوں میں سے ایک تھے۔ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے۔ ہم پر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا خطۂ عرب کے اس فرمانروا نے ہماری بھرپور مدد کی۔ آزمائش و ابتلا کی ہر گھڑی میں وہ ہمارے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ زلزلے ہوں یا سیلاب، سرحدی کشیدگی ہو یا معاشی و سیاسی مشکلات‘ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی۔
شیخ خلیفہ بن زاید1948ء میں پیدا ہوئے اور 1969 ء میں ابوظبی کے ولی عہد مقرر ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے 1971 ء میں ابوظہبی کے امارات کے وزرا کی پہلی مقامی کونسل کی سربراہی کی۔ 1974 ء میں وہ وفاقی وزرا کونسل کے نائب وزیراعظم بن گئے۔ دو سال بعد یعنی 1976ء میں وہ متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر بن گئے۔ شیخ خلیفہ بن زایدالنہیان اپنے والد مرحوم شیخ زایدبن سلطان النہیان کے جانشین مقرر ہوئے تھے اور 3 نومبر 2004ء کو متحدہ عرب امارات کے صدر اور ابوظہبی کے حکمران کے منصب پر فائز ہوئے اور 18 برس تک اپنے ملک و قوم کیلئے خدمات انجام دیں۔ متحدہ عرب امارات نے اس مثالی حکمران کی ولولہ انگیز قیادت میں بے حد پناہ ترقی کی جس کی پوری دنیا معترف ہے کہ لق ودق صحرا کو انہوںنے خوبصورت نخلستان میں بدل ڈالا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد متوازن اور پائیدار ترقی کے حصول اور شہریوں کی خوشحالی کو یقینی بنانے کیلئے پہلے سٹریٹیجک منصوبے کی بنیاد رکھنا ان کا اعزاز رہا۔ الشیخ خلیفہ ریاست کے بانی‘ اپنے والد الشیخ سلطان کی پالیسیوں سے متاثر تھے۔ متحدہ عرب امارات کا صدر بننے کے بعد انہوں نے وفاقی حکومت اور ابوظہبی‘ دونوں کی بڑی تنظیم نو کی۔ ان کے دورِ حکومت میں متحدہ عرب امارات نے تیزی سے ترقی کی۔ انہوں نے یو اے ای کے لوگوں کے لیے باوقار زندگی کو یقینی بنایا۔
متحدہ عرب امارات درحقیقت سات مملکتوں کے اتحاد کا نام ہے۔ یہ علاقہ انیسویں صدی میں برطانوی استعمارکے کنٹرول میں رہا۔پھر انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں اسے خود مختاری مل گئی۔ اس کے بعد امارات نے خلیجی عوام کے لیے گرمیوں کے روزگار کے مواقع پیدا کیے جبکہ کھجوروں کی کاشت سردیوں میں آمدنی کا ذریعہ ہوتی تھی۔ بیسویں صدی کے درمیانی عشرے تک یہ سلسلہ جاری رہا، اس دوران تیل کمپنیوں نے تیل کی تلاش شروع کی۔ خام تیل کا پہلا ذخیرہ 1962 ء میں ابوظہبی میں دریافت ہوا۔ اسے انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے استعمال کیا گیا۔ برطانوی استعمار کی خلیج سے دستبرداری کے اعلان کے ساتھ ہی ابو ظہبی، دبئی، شارجہ، عجمان، ام القواین اور فجیرہ کے حکمرانوں کے مابین ایک معاہدہ طے پا گیا۔ 2 دسمبر 1971ء کو شیخ زیدبن سلطان آل النہیان (مرحوم)کی عظیم قیادت میں 7 ریاستوں؛ ابوظہبی، دبئی، عجمان، ام القوین، فجیرہ، راس الخیمہ اور شارجہ کے اتحاد کا اعلان ہوا۔ امارات میں حکومت سلیکشن کے پراسیس سے گزر کر ہوتی ہے؛ چنانچہ ریاست کے صدر کا انتخاب ان سات اماراتی حکمرانوں کے ذریعے کیا جاتا ہے جو فیڈرل سپریم کونسل تشکیل د یتے ہیں اور ملک کا سیاسی نظام اس آئین پر مبنی ہے جس کا تعین پانچ فیڈرل اتھارٹیز کرتی ہیں۔ ابوظہبی میں عمری دیوان کے زیراہتمام ریاستی پرچم ڈیزائن کرنے کا مقابلہ ہوا تھا اور یہ پرچم عبداللہ محمد المانح نے ڈیزائن کیا تھا۔ یہ مشہور عرب شاعر صفی الدین الحلی کی ایک نظم سے متاثر ہوکر تیار کیا گیا۔ مستطیل شکل میں جھنڈا‘ جس کی لمبائی چوڑائی سے دو گنا ہے‘چار رنگوں؛ سرخ، سبز، سفید اور سیاہ پر مشتمل ہے۔ یہ پرچم انگریزی کے حرف 'ای‘ کی طرح دِکھتا ہے۔ اس پرچم کو پہلی بار 2 دسمبر 1971 ء کو متحدہ عرب امارات کے فیڈریشن کے اعلان کے موقع پر‘ شیخ زایدبن سلطان النہیان نے لہرایا تھا۔ دبئی رقبے کے لحاظ سے دوسرابڑا اور ایک بین الاقوامی شہر ہے۔ اسے ماضی میں جوہرالعالم ( دنیا کا زیور) کہا جاتا تھا جبکہ اسے لؤلؤ الخلیج یعنی خلیج کا موتی بھی کہا جاتا تھا۔
متحدہ عرب امارات کے قیام کے بعد پاکستان پہلا ملک تھا جس نے باضابطہ طورپریواے ای کوتسلیم کیا اوراس وقت سے لے کر آج تک پاکستان نے دوستی کے اس رشتے کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے وسیع سے وسیع تر کرنے کی کوشش میںہے۔ دونوں ممالک میں تاریخی، ثقافتی اور معاشی رشتے قائم ہیں۔ دوسری جانب انسان دوستی کے اعتراف کے طور پرمتحدہ عرب امارات کی عظیم قیادت نے پاکستان میں صحت، تعلیم اور عام آدمی کے معیارِزندگی کوبہتربنانے کے لیے کثیر لاگت کے بیشماررفاہی اورفلاحی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور یہ فلاحی اوررفاہی خدمات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زاید النہیان کی ہدایات پر پا کستان میںہزاروں سیلاب زدگان کے علاج اور بچوں‘ خواتین اور بزرگوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے ضروری ویکسی نیشنز مہم چلانے کے لیے متحدہ عرب امارات کے ملٹری فیلڈ ہسپتال پاکستان کے دور دراز علاقوں میں لگائے گئے۔
بلاشبہ پاکستان نے بھی اپنے اس برادر اور دوست ملک کی ترقی میں بھرپور اور قابلِ تحسین کردار ادا کیا۔ متحدہ عرب امارات کی تعمیر و ترقی میں پاکستانی مزدوروں، محنت کشوں، انجینئرز اور ماہرین کا خون پسینہ شامل ہے۔ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے عوام محبت، بھائی چارے اور اخوت کے تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وطن عزیز کے ساتھ مضبوط و مستحکم تعلقات استوار کرنے میں امارات کے بانی شیخ زایدبن سلطان النہیان نے خصوصی دلچسپی لی۔ لاہور اور رحیم یار خان میں شیخ زایدہسپتال، شیخ زایدمیڈیکل کالج اور شیخ زایدانٹرنیشنل ایئرپورٹ (رحیم یار خان)کا قیام ان کی عظیم دوستی کی چند مثالیں ہیں۔ یو اے ای کی متعدد کمپنیوں نے پاکستان میں بھی بھاری سرمایہ کاری کی جن میں اماراتی نیشنل آئل کمپنی، اماراتی پٹرولیم انویسٹمنٹ کمپنی، اماراتی ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن، ڈی پی ورلڈ اور ابراج کیپیٹل وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں پاکستانی ڈاکٹرز، انجینئرز، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس، پائلٹس، سکیورٹی اہلکار، جہازران، صنعتی و زرعی مزدور اور تعمیراتی ماہرین وغیرہ امارات کو عظیم سے عظیم تر ملک بنانے کیلئے خدمات انجام دے رہے ہیں بلکہ ہر سال 3 سے 4 بلین ڈالر کی خطیر رقم پاکستان بھیج کر اپنے ملک کی معاشی ترقی میں بھی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاکستانی ماہرین نے امارات میں متعدد اداروں بشمول ایوی ایشن، مسلح افواج، پولیس اور محکمہ ہائے صحت و تعلیم کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پی آئی اے کے ماہرین نے ایمریٹس ایئرلائن کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نومولود ہوائی کمپنی کو تکنیکی اور انتظامی معاونت فراہم کی گئی۔ ایمریٹس ایئرلائن کی پہلی پرواز 1985ء میں دبئی سے کراچی پہنچی تھی۔ متحدہ عرب امارات میں کرکٹ کے آغاز اور فروغ کا سہرا بھی بڑی حد تک پاکستان ہی کے سر ہے۔ 1970 کی دہائی سے آج تک دونوں ملکوں کے مابین جامع دفاعی تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔ امارات نے پاکستان سے بڑے پیمانے پر چھوٹے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی خریداری شروع کی، علاوہ ازیں مشترکہ فوجی مشقوں، تربیت، انٹیلی جنس شیئرنگ اور مشترکہ دفاعی پیداوار کے نئے دور کا آغاز ہوا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں