25 مئی کو عمران خان کا آزادی مارچ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے ہیرو یاسین ملک کی آزادی کے لیے ہوتا اور بھارت میں انصاف کے قتل پر صدائے احتجاج بلند کی جاتی تو شاید کشمیریوں سے کی گئی نا انصافی کی تلافی ہو جاتی۔ جب 2019 ء میں مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے وفاق میں ضم کیا تھا تو پاکستان سوائے زبانی احتجاج کے اور کچھ نہ کر سکا تھا۔ جنت نظیر وادی‘ دنیا کا سب سے مظلوم خطہ‘ جس کو قائد اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا‘ اس شہ رگ پر دشمن کے غاصبانہ قبضے پر ہم نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ 25مئی کا دن حریت لیڈر یاسین ملک کی عمر قید کی سزا کے خلاف بطورِ احتجاج منایا جانا چاہیے تھا مگر خود کو کشمیر کا وکیل کہنے والے عمران خان ایک ٹویٹ سے آگے نہیں بڑھ سکے اور اپنے دوست کشمیری رہنما کے بارے میں لب کشائی تک نہ کی۔ حالانکہ حریت لیڈر یاسین ملک کی اہلیہ اپنی دس سالہ بچی کے ساتھ پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی چیئرمین سے آزادی مارچ کو روکنے یا اس کی تاریخ کی تبدیلی کیلئے التجا کرتی رہیں مگر اس اپیل کو بھی سیاسی مخاصمت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ کاش! پورا ملک 25 مئی کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہوئے کشمیری رہنماکی عمر قید کی سزا کے خلاف سراپا حتجاج ہوتا تاکہ دنیا کو یہ مثبت پیغام ملتاکہ پاکستانی کشمیریوں کی جدو جہد آزادی میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ کشمیریوں کا ہم پریہ حق بنتا ہے کہ ان کی جدو جہد آزادی میں پاکستانی قیادت سمیت پوری پاکستانی قوم ان کا ساتھ دے کیونکہ وہ اپنی نہیں‘ پاکستان کی سالمیت و بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مظلوم کشمیریوں کے حق میں پاکستان نے ہمیشہ جرأت مندانہ کردار ادا کیا مگر مقبوضہ ریاست کا خصوصی سٹیٹس ختم کیے جانے کے بعد سے ہم مسلسل خاموش ہیں جواُن شہدا کے خون سے غداری ہے جو گزشتہ 75 سال سے بھارتی قابض افواج کے سامنے سینہ سپر ہیں۔
خصوصی عدالت نے کشمیری رہنما یاسین ملک کو دہشتگردی کی مالی معاونت سمیت دیگر من گھڑت مقدمات میں دو بار عمر قید، پانچ بار دس سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی ہیں۔ اس فیصلے کی جتنی بھی مذمت کی جائے‘ کم ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے سرکرہ رہنما یاسین ملک کو بھارتی حکومت کی جانب سے بے بنیاد دہشت گردی کے الزامات میں فروری 2019ء میں گرفتار کیا گیا تھا، اب سوا تین سال قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد ان پر نام نہاد عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ یاسین ملک جدوجہد ِ آزادی کے جرم میں گزشتہ کئی سال سے نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ ان پر جیل میں بے پناہ تشدد بھی کیا جاتا رہا۔ اس عقوبت خانے میں کئی دیگر آزادی کے متوالے اور دوسرے حریت رہنما بھی جبری قید و بند کی صعوبتیں جھیل چکے ہیں، جن کے ساتھ نازی قیدیوں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا رہا۔ بھارت کو جب یاسین ملک اور ان کے چھ دیگر ساتھیوں کے خلاف تمام تر فسطائی حربوں، تشدد اور بہیمانہ سلوک کے بعد بھی کچھ نہ ملا تو انہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور سزا دینے کیلئے ایک 30سالہ پرانا کیس بناتے ہوئے الزام لگایا گیاکہ1990ء میں بھارتی فضائیہ کے چار اہلکاروں کو ہلاک کرنے میں یاسین ملک اور ان کے ساتھی ملوث تھے۔ بھارت نے یاسین ملک پر دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کا الزام بھی عائد کیا۔ اب حریت رہنما کو دہشت گردی اور بھارت مخالف سرگرمیوں کے مقدمات میں خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنادی ہے جو بھارت کی فسطائیت کا عملی ثبوت ہے۔ سلام ہے یاسین ملک کی عظمت و جرأت کو! اس جری و نڈر کشمیر کے سپوت نے عدالت میں رحم کی بھیک مانگنے سے صاف انکار کر دیا۔ یاسین ملک نے جج سے استفسار کیا کہ اگر میں دہشتگرد تھا تو بھارت کے سات وزرائے اعظم مجھ سے ملنے مقبوضہ کشمیر کیوں آتے رہے ؟ اگر میں دہشت گرد تھا تو مجھے پاسپورٹ کیوں جاری کیا گیا ؟اگر میں دہشت گرد تھا تو مجھے بھارت سمیت دنیا بھر میں لیکچرز کے لیے کیوں مدعو کیا جاتا رہا؟ اگر میں دہشت گرد تھا تو میرے خلاف کوئی چارج شیٹ کیوں نہیں فائل کی گئی؟ یاسین ملک کے ان سوالوں کا عدالت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ عدالت بھی ان سوالوں کو سن کر پریشان ہو گئی اور بوکھلاہٹ کے انداز میں جواب دیا کہ اب ان باتوں کا وقت گزر چکا ہے۔ اس سے قبل یاسین ملک نے کسی شخص کو وکیل کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ استغاثہ پر خود ہی جرح کریں گے۔ یاسین ملک نے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے اسے بھارتی حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دیا۔ اس مقدمے کے دوران بھارتی میڈیا کی جانبدارانہ پالیسی کا بھی پول کھل گیا۔ کئی بھارتی چینل یہ جھوٹی خبر چلاتے رہے کہ یاسین ملک نے عدالت میں اعترافِ جرم کر لیا ہے حالانکہ یاسین ملک نے نام نہاد عدالت کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حریت پسند ہونا دہشت گردی ہے تو بلاشبہ میں دہشت گرد ہوں‘ میں اسی طرح کا دہشت گرد ہوں جیسے بھگت سنگھ اور گاندھی تھے۔
جھوٹے مقدمے میں حریت رہنمائوں اور مسلمانوں کو سزا دینا بھارت کا وتیرہ بن چکا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یاسین ملک کو کشمیریوں کی آزادی کی جنگ لڑنے کی سزا دی جارہی ہے۔ تہاڑ جیل‘ جہاں یاسین ملک پابند سلاسل ہیں‘ وہاں معروف کشمیری مجاہد‘ مقبول بٹ کا جسدِ خاکی بھی آسودۂ خاک ہے۔ انہیں اسی جیل میں رات کی تاریکی میں پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا تھا۔ افضل گورو کو بھی جھوٹے کیس میں اسی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں مقبول بٹ کی طرح پھانسی پر لٹکایا گیا اوانہیں بھی خاموشی سے یہیں کسی گمنام قبر میں دفنا دیا گیا۔ حریت رہنمائوں کے جسدِ خاکی بھی بھارت کے لیے خوف کی علامت بن چکے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ بھارت شہید رہنمائوں کو جیل کے احاطے میں ہی دفن کر دیتا ہے۔ معروف کشمیری رہنما سیدعلی گیلانی کو بھارتی فوج نے اُن کی وصیت کے مطابق شہداکے قبرستان میں تدفین کی اجازت نہ دی بلکہ آخری رسومات کی ادائیگی پرقدغن لگاتے ہوئے اہل خانہ سے جسدِ خاکی چھین کر زبردستی فوجی پہرے میں ان کے گھر کے قریب ہی انہیں سپردِ خاک کر دیا۔
اب حریت رہنما کی عمر قید کی سزا کے حوالے سے حریت کانفرنس رہنمائوں کا کہنا ہے کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف میں یاسین ملک کی سزا کو چیلنج کرے۔ اقوام متحدہ کے سامنے بھی اس معاملے کو اٹھایا جائے۔ یورپی یونین، انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی آرگنائزیشنز کے سامنے تمام حقائق پیش کیے جائیں اور دنیا کے سامنے بھارت کا سیاہ وسفاک چہرہ بے نقاب کیا جائے کہ کس طرح بھارتی فرقہ پرست عدالتیںکشمیری قیادت کو اپنے جبر و انتقام کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ اگر یاسین ملک کی سزا کے خلاف ٹھوس ردِ عمل کا اظہار نہ کیا اور عالمی ضمیر کو بیدار نہ کیا گیا تو بھارتی مسلم دشمن متعصب نظام عدل یکے بعد دیگرے تمام کشمیری رہنمائوں کو راستے سے ہٹانے کیلئے سزائیں سنانا شروع کر دے گا اور مودی راج میں ہم اس کا مظاہرہ کر چکے ہیں کہ کس طرح ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور نام نہاد نظامِ انصاف اس میں ایک سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ مودی حکومت کا مذموم منصوبہ یہی ہے کہ تحریک آزادیٔ کشمیر کے سرخیلوں کی آوازوںکو خاموش کرادیا جائے، تاکہ کشمیرمیں آزادی کا نام لینے والوں کا نام و نشان ہی مٹا دیا جائے۔ بھارت ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنے کے باوجود کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے میں کامیاب نہیںہو سکا بلکہ کشمیریوں کی اولوالعزمی میں شدت آگئی ہے۔ کشمیر کی آزادی کا سفر مقبول بٹ، سید علی گیلانی، اشرف صحرائی، شبیر شاہ، آسیہ اندرابی، افضل گورو سے لے کر یاسین ملک تک خون رنگ قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے اور آزادی کا یہ سفر رکا نہیں بلکہ سنگینوں اور بندوقوں کے سائے میں پوری آب و تاب سے جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مجاہد اپنے لیڈروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ اگر تمام مسلم ممالک متحد ہو کر اقدامات کریں تو مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ رک سکتا ہے وگرنہ خون مسلم یونہی بہتا رہے گا۔