روس یوکرین جنگ‘ یورپ کیلئے خطرے کی گھنٹی!

روس یوکرین جنگ کو 100 روز سے زیادہ ہو چکے ہیں اوریوکرین کا 20 فیصد علاقہ ماسکو کے کنٹرول میں آچکا ہے جبکہ صدر پوتن کی یوکرین پر حملے کے بعداب نئی پابندیوں کی صورت میں امریکا اور مغرب کو سخت جواب اور ایٹمی حملوں کی تنبیہ پرسبھی تشویش کا شکار ہیں۔ یورپ ماسکو کے ساتھ تجارت کرنے والا مجموعی طور پر سب سے بڑا بلاک ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ2021 ء میںیورپ سے روس کی تجارت کا حجم چین کی نسبت دو گنا زیادہ تھالیکن اس میں بھی کوئی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ یوکرین تنازع کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوئی ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی 2021 ء کے اعداد و شمار کے مطابق روس کی تیل برآمدات کا صرف 20 فیصد حصہ چین کو جاتا ہے جس میںاب 9فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ یورپ کی 40 فیصد گیس اور 26 فیصد تیل کی ضروریات اب بھی ماسکو ہی پوری کررہا ہے لیکن اب اس بحران نے یورپ کی اس سوچ کو مزید تقویت دی ہے کہ اسے اپنی ضروریات کیلئے دیگر ذرائع پر بھی غور کرنا ہو گا۔ یورپی یونین نے ماسکو پر دباؤ بڑھانے کیلئے بعض سخت ترین اقدامات کی تجویز دی ہے جن میں روسی خام تیل اور ریفائنڈ مصنوعات کی درآمد کو 6 ماہ کے عرصے میں مرحلہ وار ختم کرنے کے علاوہ جنگی جرائم میں ملوث فوجی افسران پر پابندیاںلگانے اور 2022 ء کے آخر تک گیس کی درآمد کو2تہائی تک کم کرنے کا اعلان بھی شامل ہے۔ یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں مکمل طور پر روسی تیل پر انحصار کرنے والے سلواکیہ اور ہنگری کو ایک اضافی سال دیا جائے گا تاکہ وہ متبادل ذرائع ڈھونڈ سکیں۔ کیا ایسے اقدامات سے معاملات میں سلجھائو آئے گا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گالیکن یہاں یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عالمی اقتصادی بحرا ن کے بڑھتے خدشات سے امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا کے تقریباً سبھی ممالک پر خوف کے سائے منڈلارہے ہیں۔
روس، فرانس، چین اور برازیل کے درمیان جہاں ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے حوالے سے نئے معاہدے ہو رہے ہیں‘ بیشتر خلیجی ممالک بھی حالیہ نقصان کے پیش نظرعالمی تجارت میں امریکی ڈالر کی اجارہ داری کے خاتمے کے خواہشمند ہیںلیکن یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ توانائی کی زیادہ تر تجارت اب بھی ڈالر ہی میں ہو رہی ہے۔ 17 فیصد باہمی تجارت کیلئے چینی یوآن استعمال ہوتا ہے جس میں 2014 ء کے مقابلے میں 3.1 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ روس اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کیلئے ڈالر میں تیل بیچنا اس وقت گھاٹے کا سودا ثابت ہو تا ہے جب اصل منڈیوں یعنی ایشیا اور یورپ کی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہو۔ ماسکو ایک ایسا نظام بنا چکا ہے جسے ''سسٹم فور ٹرانسفر آف فنانشل میسجز‘‘ (SPFS) کہا جاتا ہے جبکہ چین میں بھی ''کراس بارڈر انٹر بینک پیمنٹ سسٹم‘‘ (CIPS) موجود ہے لیکن یہ اب تک صرف اندرون ملک‘ اپنی اپنی کرنسی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں؛ تاہم تیل کی درآمد کو مرحلہ وار ختم اور جنگی جرائم میں ملوث فوجی افسران پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ یورپی یونین اور دیگر ممالک کیلئے دو دھاری تلوار ثابت ہوگا کیونکہ ماسکو بھی اس حوالے سے اب کئی متبادل راستوں پر غور کر رہا ہے۔ فروری میں یوکرین میں روسی افواج کی دخل اندازی کے بعد سے مغربی ممالک کی جانب سے روسی بینکوں کو نشانہ بناتے ہوئے سخت تجارتی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس روس نے یورپی یونین کو کل تیل کا ایک تہائی حصہ فراہم کیا جبکہ اس میں جرمنی سب سے بڑا خریدار تھا؛ تاہم اب یہ 12 سے 35 فیصدتک درآمد کم کر چکا ہے۔ برطانیہ جو اب یورپی یونین کا رکن نہیں‘ وہ بھی مرحلہ وار روسی تیل پر انحصار کم کر رہا ہے۔ دوسری جانب ماسکو کی ہمیشہ سے ہی یہ خواہش رہی ہے کہ یوکرین اور جارجیا کو کسی بھی حالت میں نیٹو کا حصہ نہ بننے دیا جائے۔اب فن لینڈ اور سویڈن نے بھی نیٹو میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔ جس سے معاملات مزید کشیدہ ہوں گے۔
عالمی افق پر بیجنگ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پرواشنگٹن کے تحفظات اور یوکرین تنازع پر روس ومغرب کے مابین کشیدگی نے خطے میں اتحاد سازی کے عمل کو تیز اور مستحکم کردیا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہو کر جنوبی ایشیا میں ایسا جال بچھا یا جارہا ہے کہ جس نے ترقی پذیر ممالک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ دنیا ایک نئے بلاک کی سیاست اور کولڈ وار کی وجہ سے غلط سمت میں چل پڑی ہے۔ عراق، شام کے بعد افغانستان ان دنوں سنگین انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے جس سے عالمی دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب چین اپنے مفادات کے تحت ''ون بیلٹ‘ ون روڈ‘منصوبے پر عمل کرتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بھی ایشیائی پالیسی کے حوالے سے بیجنگ کے خلاف ایک وسیع اضافی محاذ بنایا تھا‘ اب جو بائیڈن انتظامیہ کا رویہ بھی تبدیل ہوتا نظر نہیں آ رہا اور بیجنگ کو ایک کونے میں دھکیلنے کی گریٹ گیم جاری ہے۔ سابق پیسفک کمانڈز ایڈمرل فل ڈیوڈسن‘ جو اب انڈو پیسفک کمانڈر ہیں‘ یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ پنٹاگون شمال مشرقی ایشیا سے توجہ ہٹاکر انڈو پیسفک خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے چارفریقی ممالک کے غیر رسمی اتحاد کے تحت Quadrilateral Security Dialogue ''کواڈ‘‘ قائم کیا گیاہے لیکن عالمی مبصرین کا خیال ہے کہ اس شراکت داری کے باوجود جاپان اور امریکا میں ممکنہ اندرونی سیاسی مداخلتوں کے باعث مستقبل میں اس اتحاد کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔دوسری جانب برطانیہ بھی بحر ہند اور بحر الکاہل کے خطے میں سٹریٹیجک اتحاد کو فروغ دے رہا ہے۔
امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان نیاسکیورٹی معاہدہ''آواکس ‘‘ انہی اقدامات کا حصہ ہے جن کے تحت واشنگٹن انڈو چائنا ریجن کو اپنا محور بنا چکا ہے۔ امریکی صدر اب شدت سے یہ بات محسوس کر رہے ہیں کہ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں امریکا کو بین الاقوامی سطح پر ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑالہٰذ انیٹواتحاد کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرکے خطے میں نئے سرے سے اتحادیوں کی صف بندی کی جائے جس کیلئے ترقی پذیر ممالک میں ''مداخلت‘‘ کر کے ایسی حکومتیں تشکیل دی جارہی ہیں کہ جنہیں وقت آنے پر اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جا سکے۔ امریکا نہیں چاہتا کہ عالمی افق پر قبضے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جو جنگ اس نے شروع کی ہے‘ وہ جلد اختتام پذیر ہو۔ جوبائیڈن نے اپنے تزویراتی مقاصد کی خاطریوکرین کی 4 کروڑ سے زائد آبادی کوتباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ ماسکو کے حملے کے بعد اب لاکھوں مہاجرین محفوظ پناہ کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ واشنگٹن چین اور روس کے خلاف نیا محاذکھول کراپنے اتحادیوں کو جدید اور تباہ کن ہتھیاروں سے لیس کرنے کے نت نئے معاہدے کر رہا ہے۔ روس کی یوکرین پرچڑھائی کے بعد اس کے عالمی ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کے خطرے کو بھانپ کر اقوام عالم کی جانب سے اپنے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کشیدگی کو ختم کرنے کی حکمت عملی بارے سنجیدگی سے سوچ بچار جاری ہے۔ شام میں روس کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے‘ اس خطے میں سمندری راستے سے جتنی بھی امداد جاتی ہے وہ یہیں سے دیگر ممالک تک پہنچائی جاتی ہے اور اگر یہ امداد روک دی گئی تو مہاجرین کا ایک طوفان یورپ کی طرف نکل کھڑا ہو گا۔ ماسکو حکومت بھی اپنے اہم اتحادی ملک کے ساتھ علاقائی سطح پر اپنا اثرورسوخ بڑھارہی ہے۔ا سرائیل بھی اس جاری تناؤ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ صہیونی فورسز شام میں ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنا رہی ہیں جبکہ صدر پوتن نے تاحال اس حوالے سے اپنی آنکھیں بھینچ رکھی ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو دیکھتے ہوئے جہاں بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی‘ بالخصوص کابل سے متعلق حکمت عملی پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں وہیں ہر ملک اپنے تئیں بنائی گئی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کی تگ دو میں مصروف ہے جس سے علاقے میں نت نئے بحرانوں نے سر اٹھایاہے اور اب معاملات کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں