نریندر مودی کا ٹوٹتا بکھرتا بھارت

ہر قلبِ مومن میں حبِ رسولﷺ یوں جا گزیں ہے کہ اس کیلئے یہ تصور ہی محال ہے کہ کوئی دریدہ دہن اپنی شیطانی فطرت کا اظہار کرتے ہوئے فخر دو عالمﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی جسارت کرے اور ایک مومن اسے برداشت کر جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی جسارت کا ہر مرتکب پست و پسپا، نامراد اور ذلیل وخوار ہوا جس کی تازہ ترین مثال بھارت ہے۔ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی ملعون ترجمان نوپور شرما اور نوین جندال کی گستاخانہ حرکت پر بھارت سمیت پوری دنیا میں مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ بھارت میں مسلمان سر پر کفن باندھ کر فاشسٹ مودی کی پولیس کے ظلم و ستم اور گولیوں کا نشانہ بنتے رہے مگر بی جے پی قیادت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی‘ الٹا بی جے پی حکومت نے ا حتجاج کرنے والے مسلمانوں ہی کو پابندِ سلاسل کر دیا۔ سوشل میڈیا کے توسط سے جب ان کے احتجاج کی گونج عرب ممالک تک پہنچی تو وہاں کے حکمرانوں نے مسلمانوں کی صدا پرلبیک کہتے ہوئے مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ قطر کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس دن بھارتی سفیر کو قطر کی وزارتِ خارجہ نے طلب کرکے اپنی شکایت درج کرائی‘ اس دن بھارت کے نائب صدر وینکیا نائیڈو قطر کے دورے پر تھے اور اس واقعے کا اثر یہ ہوا کہ ان کے اعزاز میں جو لنچ رکھا گیا تھا‘ وہ منسوخ کر دیا گیا۔ پورے عرب میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہو گئی۔ قطر، متحدہ عرب امارات میں بھارتیوں کے کئی سپر سٹور اورریسٹورنٹس ہیں مگر تمام بڑے سٹورز میں بھارتی اشیا کو ڈھانپ کر الگ کر دیا گیا کہ انہیں خریدنا منع ہے، ایسے میں ''بائیکاٹ انڈیا‘‘ اور ''بائیکاٹ انڈین پروڈکٹس‘‘ مہم سے بدمست مودی سرکار کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ عرب ممالک نے اس کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کیے تو بلاشبہ بھارت کو سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان ہو گا۔ چونکہ عرب ممالک کے ساتھ بھارت کی تجارت کا حجم 100 بلین ڈالرز کے لگ بھگ ہے اور متحدہ عرب امارات سمیت قطر، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں لگ بھگ تین کروڑ بھارتی بستے ہیں اور ان کے ذریعے انڈیا کو سالانہ اربوں ڈالر ز کا زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے‘ بھارت اپنی ضرورت کا 60 فیصد تیل انہی ممالک سے حاصل کرتا ہے۔ اس لیے بھارت کسی بھی صورت عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں خلل برداشت نہیں کر سکتا۔ قبل ازیں نر یندر مودی عرب حکمرانوں کے ساتھ دوستی بڑھانے میں مصروف تھے‘ اس دوران وہ یہ تاثر دینے میں بھی کامیاب رہے کہ بھارت میں مسلمان امن و سلامتی سے رہ رہے ہیں۔حالیہ واقعے نے نہ صرف بھارتی ہندوتوا کو بے نقاب کر دیا ہے بلکہ اس جھوٹ کا پول بھی کھل گیا ہے کہ بھارتی مسلمانوں پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ اب سب کو معلوم ہو چکا ہے کہ بھارتی مسلمانوں پر عرصہ ٔحیات تنگ کیا جا چکا ہے اور مودی سرکار حرفِ غلط کی طرح انڈیاسے ان کا نام و نشان مٹانے کے مذموم منصوبے پر عمل پیر ا ہے۔
بی جے پی کے اقتدار کے 8 سالوں کے دوران یعنی ستمبر 2014 ء سے مئی 2022 ء تک‘ حکمران پارٹی کے لیڈران کے اسلام اور مسلم مخالف 5200 سے زائد بیانات سامنے آئے۔ 2015ء میں ممبر پارلیمنٹ تیجسوی یادیو نے سعودی خواتین کے حوالے سے ایک ٹویٹ کیا تھا اور بعد ازاں سعودی احتجاج پر اسے اس حرکت پر معافی مانگنا پڑی تھی۔ تبلیغی جماعت کے مرکز پر کورونا پھیلانے کے الزام پر سعودی رد عمل سے بھی نریندر مودی کو معذرت کرنا پڑی تھی۔ اگست 2020ء کو بنگلور کے کانگریسی ایم ایل اے ''اکھنڈا سری نواس مورتھی‘‘ کے ایک قریبی رشتے دار ''پی نوین‘‘ نے فیس بک پر ایک انتہائی غلیظ پوسٹ کی تھی۔ اس سے قبل بھی اس نے کئی مرتبہ غلط اور توہین آمیز پوسٹس کی تھیں مگر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
اس وقت بھارت میں مساجد پرقبضے کیے جا رہے ہیں، اذان پر پابندی عائد کی جا رہی ہے، مسلم خواتین کے حجاب اوڑھنے پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ گائے کے گوشت کا الزام لگا کر مسلمانوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، مسلم خواتین کے ریپ کی کھلم کھلا دھمکی دی جاتی ہے۔ یکساں سول کو ڈ کی آڑ میں اسلامی شعائر کو نشانے پر رکھا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آزاد ریاست کو بھارت سرکار نے ہڑپ کر لیا، اسے نریندر مودی نے دنیا کے سب سے بڑے عقوبت خانے میں تبدیل کر دیا۔ افسوس! امت مسلمہ سمیت مسلم تنظیمیں ایک روز کیلئے بھی وہاں سے کر فیو کو نہ ہٹا سکیں۔ بابری مسجد کو مندر بنانے والے ہٹلر مودی کو دبئی میں سب سے بڑے مندر کی چابی کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ اگرچہ عرب ممالک نے تاخیر سے قدم اٹھایا لیکن یہ قابلِ ستائش ہے۔
عرب ممالک کے سخت ردعمل کے بعد اب بھارت نے ٹی وی چینل پر گستاخانہ بکواس کرنے والی نوپور شرما اور اس کی حمایت میں گستاخانہ ٹویٹ کرنے والے نوین جندال کو پارٹی عہدوں سے برخاست کر دیا ہے مگر یہ محض لیپا پوتی ہے اور سب جانتے ہیں کہ صرف عرب ممالک کے سخت ردعمل سے بچنے اور ان کا دل بہلانے کیلئے یہ کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ بی جے پی اگر واقعی تمام مذاہب کا احترام کرتی‘ جیسا کہ اس نے پہلے اپنے ایک بدزبان ترجمان کی برطرفی کے موقع پر کہا تھا تو نوپور شرما کو اتنی جرأت نہ ہوتی کہ وہ ایسی گھناؤنی حرکت کی مرتکب ہوتی۔ بلاشبہ اس واقعے سے بی جے پی کا یہ نفاق بھی دنیا کے سامنے ظاہر ہوگیا کہ وہ اپنے ملک کے باشندوں کے مذہب و عقیدے کا لحاظ نہیں کرتی۔ اس کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ یہ پارٹی تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتی ہے۔ بیرونِ ملک سے ردعمل آنے کے بعد ایسے افراد کو پارٹی عہدوں سے ہٹا دینا کوئی سزا نہیں ہے۔ بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم پر بی جے پی کی طلبہ تنظیم کے رہنما ہرشیت سری واستو نے ایک ٹی وی چینل پر زہر اگلتے ہوئے کہا کہ بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے والے عرب ممالک میں مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ پر میزائل حملے کر دینے چاہئیں کیونکہ بھارت نے یہ میزائل اور بم محض پریڈ اور نمائش کے لیے نہیں بنائے۔ واضح رہے کہ نوپور شرما کا بیان‘ فردِ واحد کی رائے نہیںبلکہ اس سے پوری بی جے پی کی ترجمانی ہوتی ہے۔ یہ بیان آرایس ایس کے ہندوتوا نظریے کی بھی عکاسی کر تا ہے۔ بی جے پی قیادت ہمیشہ شر پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتی آئی ہے‘ اس کے لیے انہیں باقاعدہ اکسایا جاتا ہے تاکہ سیاسی حمایت اور ووٹ بینک میں اضافہ ہو سکے۔ اب پورے عالم اسلام کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان ملعونوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ بیشک عرب ممالک کے سربراہوںکے جرأت مندانہ اقدامات نے امت مسلمہ کے دل جیت لیے ہیں۔ اس وقت ترکی، ایران، پاکستان سمیت پورا عالم عرب ایک پیج پر نظر آتا ہے۔ دوسری جانب بھارت کے اندربھی گروہی تقسیم بڑھتی جاتی ہے۔ ایک وہ سیکولر طبقہ ہے‘ جو مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے ساتھ رواداری سے رہنا چاہتا ہے اور دوسرا وہ انتہا پسند طبقہ ہے جو تمام اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دینا چاہتا ہے۔ بھارت کے اند ر بھی جنگ لگی ہوئی ہے اور مودی سرکار کی انتہاپسندانہ پالیسیوں نے سیکولر بھارت کا تانا بانا بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ بلا شبہ مودی کے مسلم دشمن اقدامات نے بھارتی سیکولر ازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ بھارت کے سکھ گلو کارسدھوموسے والا کی ٹارگٹ کلنگ اور مسلمان اداکاروں کو قتل کی دھمکیاں ملنا اسی مذمو م سلسلے کی کڑی ہے۔ سدھو موسے والا کا خالصتان تحریک میں بھی اہم کردار تھا اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسے 'را‘ کے ذریعے راستے سے ہٹایا گیا ہے۔ بلاشبہ خالصتان ریفرنڈم سے مودی سرکار حواس باختہ ہے، دوسری جانب شمال مشرقی بھارت میں بھی علیحدگی کی تحریکوں نے دوبارہ سر اٹھاناشروع کر دیا ہے۔ بھارت کی 29 شمال مشرقی ریاستوں میں سے 17 ریاستیں برہمن سے نجات چاہتی ہے جو 5 فیصد ہونے کے باوجود پورے بھارت پر قابض ہیں۔ جنرل (ر) حمید گل مرحوم کی یہ پیش گوئی وقت کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہو رہی ہے کہ مودی خود بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے، ان شاء اللہ !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں