سامراج اسلامی تشخص کے خاتمے کیلئے شروع دن سے ہی برسرِ پیکار ہے لہٰذا مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ ساتھ شعائرِ اسلام اور مقدس ہستیوں کی شانِ میں گستاخی اور مقدس مقامات کی بے حرمتی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا۔اس طرح کے واقعات کا تسلسل اور نہتے مسلمانوں کا قتل عام تیزی سے پھیلتے ہوئے ''اسلامو فوبیا‘‘ کا عکاس ہے۔ امریکا اوریورپ میں نہتے مسلمانوں پر حملے اور مقدس مقامات میں عبادت پر پابندی،مسلم خواتین کو اپنی پسند کا لباس پہننے کا حق دینے سے انکار اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت،میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو نذرِ آتش کرنے،یہودی اور ہندو بستیوں کی تعمیر کیلئے فلسطینیوں اور کشمیر یوں کی نسل کشی کے پے درپے واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس تشویشناک رجحان نے معاشرے کو کتنی تیزی کے ساتھ منقسم کر کے رکھ دیا ہے۔مغرب کی ہمہ گیر حمایت اور اقوام متحدہ کی روایتی خاموشی نے یہودو ہنود کو توسیع پسندانہ عزائم اور گستاخانہ پالیسیاں جاری رکھنے کے سلسلے میں مزید شہ دی ہے۔ اسرائیل اور بھارت میں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑکرانتہا پسندوں کی جانب سے مظلوم مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا نا ایک معمول بن چکا ہے۔ دشمنانِ اسلام مقدس ہستیوں اور مقامات کی توہین کر کے اپنے خبثِ باطن کو بھی ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ یقینا یہ اشتعال انگیز عمل مسلمانوں کے لیے انتہا ئی تکلیف دہ ہے جو واضح طور پر انتہائی سطح کی نفرت کی نشاندہی کرتا ہے۔
بھارت میں پیش آئے ایک حالیہ واقعے کے بعد بی جے پی رہنمائوں کے گستاخانہ بیانات نے مودی سرکار کی منفی سوچ اورمتعصبانہ رویے کو پوری طرح بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ سرکاری سرپرستی میں انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے پھیلائے گئے نفرت انگیز نظریات اور امتیازی قوانین نے خوف و تشدد کی لہر پیدا کر رکھی ہے۔کملیش تیواری، جیتندر نارائن سنگھ تیاگی (وسیم رضوی) اور نرسنگھا نند جیسے بد ترین قسم کی ذہنیت رکھنے والے افراد اس معاملے میں ایک طویل ریکارڈ رکھتے ہیں مگر کبھی ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ اسی طرح سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے گستاخوں کو پناہ دے کر بھی مسلم امہ کے جذبات سے کھلواڑ کیا گیا۔
مسلمان ظلم وجبر توبرداشت کر سکتا ہے لیکن اسے مقدس ترین ہستیوں کی شانِ اقدس میں گستاخی کسی طور پر بھی قبول نہیں جبکہ نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ سے محبت ہمارے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔اسلام دشمن عناصر کی روزِ اول ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کے بدن سے روحِ محمد کو نکال دیں؛ چنانچہ وہ دانستہ امتِ مسلمہ کے جذبات کو مجروح کرکے آزادیٔ اظہارِ رائے کی آڑ میں اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے سرگرم رہتے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جامع رپورٹ ''Choice and Prejudice: Discrimination against Muslims in Europe‘‘ میں واضح طو رپر کہا گیا ہے کہ ''مسلمانوں کے خلاف تعصبات کو ختم کرنے کے بجائے اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور حکام اسلام اور مسلم مخالف عناصر کی ناز برداری کرتے ہیں تاکہ ان کے ووٹ حاصل کر سکیں،منفی امیج سازی اور تعصبات کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے‘‘۔
میرے نزدیک مقدس ہستیوں کی توہین یا گستاخی بھی دہشت گردی کی ایک قسم ہے۔ہٹلر کے فاشسٹ نظریات پرکاربند مودی سرکارکورونا کو بھی مسلم دشمنی کا ہتھیار بناتے ہوئے اسے مسلمانو ں کو بدنام کرنے کے ایک حربے کے طور پر استعمال کر چکی ہے جس کی ایک جھلک بھارتی پروفیسر اپور آنند کے اس مضمون میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے کہ بھارت میں شدت پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف جسمانی، زبانی اور نفسیاتی جنگ چھیڑ رکھی ہے، سوشل میڈیا پرمسلم مخالف سازشی تھیوریوں کا بازار گرم ہے۔ دہشت گرد تنظیم ''آر ایس ایس ‘‘کوسی آئی اے ''سیفرون ٹیرر ازم‘‘ کا نام دے کر اس امر کا اعتراف بھی کر چکی ہے کہ بی جے پی اس کا پولیٹکل چہرہ ہے۔سَنگھ پریوارکے بینر تلے52 شدت پسندتنظیمیں‘جن میں آر ایس ایس، بھارتیہ جنتا پارٹی، ویشوا ہندو پریشد، شیو سینا اور بجرنگ دَل نمایاں ہیں‘ اپنے ہولناک نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلسل سرگرمِ عمل ہیں۔ بھارت کے 24 کروڑ مسلمانوںکو چن چن کر نسل کشی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ بھی اس امر کا اعتراف کر چکے ہیں کہ بھارت میں مذہب اور نسلی یکجہتی کا غلط استعمال سیاستدانوں کیلئے کوئی مشکل کام نہیں۔ مسلم مخالف انتہا پسندی اور پاکستان دشمنی کے بارے میں چند اہم حقائق سے پردہ اٹھا تے ہوئے سابق امریکی صدر بارک اوباما اپنی کتاب میںرقمطراز ہیں کہ '' مجموعی طور پر بھارتی معاشرہ نسل پرستی اور قوم پرستی پر مرکوز ہے، انتہا پسندی، جنونیت، بھوک، بدعنوانی اور عدم رواداری سرکاری اور نجی سطح پر بہت گہرائی تک سرائیت کر چکی ہیں‘‘۔ عالمی تنظیم جینو سائڈ واچ کے بانی و محقق ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کے مطابق‘ ہندو انتہا پسند تنظیمیں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم مخالف ماحول بنانے کا کام کر رہی ہیں۔5 فیصد برہمن نے اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، انسانی و آئینی حقوق سے انکار اور سماجی و اقتصادی حالت خراب ہونے سے مسلمان مستقل خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ بابری مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ مندر کی تعمیر اورمقدس مقامات میںعبادات پر پابندی لگا کر مسلم خواتین کو حجاب کا حق دینے سے انکاراسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
انتہا پسندہندواپنے مذموم نظریے کے تحت برصغیر پاک وہند کے علاوہ افغانستان سے انڈونیشیا تک تمام ممالک کو اپنا مادرِ وطن تصور کرتے ہوئے ان علاقوںمیں ''ہندو راشٹر‘‘ کے قیام کو یقینی بنانے کے علاوہ اب بھارت میں سنسکرت زبان کو لازمی مضمون کی حیثیت دلوانے اور گائے کے ذبح پر مکمل پابندی لگانے جیسے شدت پسند اقدامات پر عملدرآمدکرانے کیلئے سرگرم ہیں۔واضح رہے کہ مسلمانوں کے ناموں سے منسوب شہروں‘ سڑکوں اور دیگر جگہوں کے ناموں کو بدلنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔یاد رہے کہ امریکا کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی ایک رپورٹ میں بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بلیک لسٹ کرنے کی سفارش بھی کی گئی تھی۔اسلام کے خلاف نفرت بھارت کے مہذب اور جمہوری ہونے کے دعووں کی نفی ہے کیونکہ کسی قوم کی نسل کشی اور آزادی سلب کر کے امن کا خواب نہیں دیکھا جا سکتالہٰذا مسلمانوں پر شدت پسندی کا ملبہ ڈالنے والوں کو حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنی سوچ بدلنا ہو گی۔ پوری مسلم امت پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسلام کے بارے میں پیدا کردہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے مؤثر اور فعال پلیٹ فارم پرجدوجہدکا آغاز کریں۔
ہندوتوا اور آر ایس ایس سوچ کی حامل بی جے پی سرکار مسلم دشمنی میں ساری حدیں عبور کر کشمیر کی خصوصی حیثیت مٹانے کے بعد اب مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب بدلنے کیلئے اجتماعی سزائیں دے کر گائوں اور مضافاتی علاقے تباہ کیے جارہے ہیں۔''بنیے‘‘ کا اصل ایجنڈااکھنڈ بھارت ہے جس کے تحت وہ برصغیر میں مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ بھارت بھر میں انتہا پسند وں نے جنونیت کی جو آگ بھڑکا رکھی ہے‘ وہ پوری دنیا کو تباہی کی جانب دھکیل رہی ہے۔ 'اسلامو فوبیا‘ایسا خوفناک رجحان ہے جس کا یکجہتی ہی سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو چاہئے کہ بھارت میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے واقعات اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ فوری بند کرائے۔مظالم کا سلسلہ روکنے کیلئے محض مذمتی بیانات دینے کے بجائے عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کو ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا ہو گا تاکہ خطے میں قیام امن کیلئے دی جانے والی قربانیوں کو زائل ہونے سے بچایا جا سکے۔