جس خاک کے خمیر میں ہے آتشِ چنار

سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل(ر) حمید گل مرحوم کہاکرتے تھے کہ ''کشمیر کو آزاد کرانے کی خاطر اگر پاکستان کو 50 جنگیں بھی لڑنا پڑیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں‘‘۔اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ حمید گل مرحوم حقیقی معنوں میں تحریک آزادیٔ کشمیر کے بے باک ترجمان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت آج بھی اپنے اندر علیحدگی کی تحریکوں پر موردِالزام جنرل صاحب کو ٹھہراتا ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کشمیر کے بنا ہماری آزادی ادھوری ہے۔ ہم آج اپنا 75واں یومِ آزادی منا رہے ہیں اور پوری قوم جوش و خروش سے اس کی تیاری میں لگی ہے لیکن بحیثیت پاکستانی ہمیں اپنے کشمیری بہن بھائیوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو بندوقوں کے سائے تلے جی رہے ہیں۔پاکستان کی ریاست کا قیام کلمہ طیبہ کے نام پر عمل میں آیا اور اس اسلامی مملکت کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو پاک فوج جیسی عظیم فوج عطا فرمائی۔حالتِ جنگ ہو یا امن‘ پاک فوج جس مستعدی اور جاں فشانی سے وطن عزیز کے دفاع کے لیے سر بکف ہے وہ پوری قوم کے لیے باعثِ اطمینان اور سرمایۂ افتخار ہے۔ستمبر 65، اور 71ء کی جنگوں میں پاک فوج نے بہادری، شجاعت اور عسکری مہارت کے ایسے ایسے مظاہرے کیے کہ دنیا بھر کے عسکری ماہرین دنگ رہ گئے۔
نائن الیون کے بعددہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کو جو نقصان پہنچا وہ ناقابلِ تلافی ہے،خود کش اور دہشت گرد حملوں میں ہماری سکیورٹی فورسز کے 10 ہزار جوانوں اور افسران سمیت 80 ہزار شہریوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور سینکڑوں ارب ڈالرز کا مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ آفاتِ ارضی و سماوی میں مصیبت زدگان کی امداد اور بحالی میں بھی پاک فوج کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حالیہ دنوں میں بلوچستان میں سیلاب کے دوران آرمی ہیلی کاپٹر کے ایک دردناک سانحے میں 12 کور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کی اپنی ٹیم کے ہمراہ شہادت انسانیت کی خدمت اور فرائض کی بجا آوری کی روشن مثال ہے۔ شہیدوں کا خون ہم سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ہم انہیں اور ان کی ان قربانیوں کو کبھی فراموش نہ کریں جو انہوں نے مادرِ وطن کے لیے پیش کی ہیں۔ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ پاک آرمی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور اس مقصد کے لیے ''آخری سپاہی اور آخری گولی‘‘ تک لڑنے کا عزم ہر روز دہرایا جاتا ہے۔
خطۂ کشمیر جسے جنت نظیر کہتے ہیں‘ ایک طویل عرصے سے بھارتی فوج کے پنجۂ استبداد میں ہے۔کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور اس کے مسلم تشخص کے باعث بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا لیکن ہمارے ازلی دشمن بھارت نے 5 اگست 2019 ء سے اس شہ رگ کو بے دست و پا بنا رکھاہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر یوں تو گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے بھارے کے غاصبانہ قبضے میں ہے؛ تاہم گزشتہ تین برس سے بد ترین فوجی محاصرے اور لاک ڈائون کا سامنا بھی کر رہا ہے۔ نریندر مودی کی پالیسیاں کشمیریوں پر قہر بن کر ٹوٹ رہی ہیں۔ مودی سرکار آئے دن کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکا ڈال رہی ہے۔بھارت کوئی بھی موقع اپنے سے ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا کہ جس سے تحریک آزادی کو نقصان نہ پہنچتا ہو۔ ہندو برہمن بھارت اور کشمیر سے مسلمانوں کا نام ونشاں مٹانے کے درپے ہے۔ماورائے عدالت کشمیریوں کا قتل عام جاری ہے۔ بھارت نے مقبوضہ وادی کو نازی عقوبت خانے میں تبدیل کر رکھا ہے۔ لاکھوں افراد تعلیم،صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم گھروں میں مقید ہے۔غیر اعلانیہ کرفیو اورہر روز نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم نے اس خطے میں ایک نئے انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرکر دن دہاڑے 'سرچ آپریشن‘ کے نام پر جہاں مال واسباب کی لوٹ مار جاری ہے وہیں حقِ خودارادیت کا نعرہ بلند کرنے والے ہزاروں کشمیری نوجوان،بوڑھے اور بچے ٹارچر سیلوں میں جرمِ ضعیفی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادیٔ اظہارِ رائے پر شب خون مار کر سوشل میڈیا پر پابندی عائد کی جا چکی ہے،سڑکوں پر ہر طرف بھارتی سکیورٹی فورسز کے جوانوں سے لدی گاڑیاں نظر آتی ہیں۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی جتنی خلاف ورزیاں اب ہو رہی ہیں‘ شاید ہی تاریخ میں کبھی ہوئی ہوں۔ پیلٹ گنوں کے استعمال سے تحریک آزادی کے متوالوں کی بینائی زائل کی جا رہی ہے،گولہ بارود سے تعلیمی اداروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ اقوام متحدہ،عالمی برادری اور او آئی سی کا اس ظلم و ستم کے خلاف کوئی مؤثر کردارتاحال دیکھنے کو نہیں ملاحالا نکہ اقوام متحدہ کا قیام بلاتفریق رنگ و نسل اور مذہب ہر قوم و ملک کے تحفظ اور ان کے حقوق کی پاسداری کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ المیہ تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ادارہ کئی قراردادوں کی منظوری کے باوجو د کشمیر کے مظلوم عوام کو بھارت کے ناجائز تسلط سے آزاد کرانے میں ناکام رہاہے۔کشمیریوں کی شہادتیں اقوام عالم سے سوال کرتی ہیں کہ کیا کشمیری انسان نہیں؟ کیا ان کے بنیادی حقوق نہیں؟ کیا حقِ خودارادیت کشمیریوں کا مسلمہ حق نہیں ہے جو انہیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت حاصل ہے؟ اگر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے نفاذ میں امتیازی سلوک کا سلسلہ بند نہ ہوا تو اس بین الاقوامی ادارے کی ساکھ پر منفی اثر پڑے گا۔ عالمی برادری کی قانونی او راخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیریوں سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کرے۔ نہتے کشمیریوں کو سفاک بھارت کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ دیا گیا ہے؟ اگر مشرقی تیمور کو راتوں رات آزادی دلائی جا سکتی ہے،سوڈان میں ایک عیسائی ریاست کا وجود عمل میں لایاجا سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے کی بات آئے تو ایکشن کے بجائے صرف قراردادوں پر ہی اکتفا کیا جا تا ہے۔ دوسری طرف بھارت بھی جان لے کہ ظلم کے ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کو دبایا نہیں جا سکتا۔
جس خاک کے خمیر میں ہے آتشِ چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند
3 جون 1947ء کو جب تقسیمِ ہند کا فارمولا منظور ہوا تھا تو برصغیر کی 562 ریاستوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اپنے جغرافیائی اور معاشی حقائق کے پیش نظر اپنی اپنی آبادی کے خواہشات کے مطابق بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کریں۔ ریاست جموں و کشمیر کی 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اور اس کی 600میل طویل سرحد پاکستان کے ساتھ مشترک تھی۔ ریاست کی واحد ریلوے لائن سیالکوٹ سے گزرتی تھی اور بیرونی دنیا کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام بھی پاکستان سے جڑا تھا۔ ریاست کی دونوں پختہ سڑکیں راولپنڈی اور سیالکوٹ سے گزرتی تھیں۔ ان سب حقائق کے پیشِ نظر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ایک قدرتی اور منطقی فیصلہ تھا لیکن مہا راجہ ہری سنگھ اور کانگریسی لیڈروں کے عزائم اس فیصلے کے بالکل برعکس تھے۔ اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر سازش کا ایک جال بُنا جس کے پھندے میں مقبوضہ ریاست کے بے بس اور مظلوم باشندے آج تک بری طرح گرفتار ہیں۔
بھارتی جبر و ظلم سہتے اور جاں گسل آزمائشوں کے دور سے گزر رہے کشمیریوں نے جرأت و حریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا پر ثابت کر دیا ہے کہ چاہے ان پر سخت پہرے لگا دئیے جائیں، ان کے سانس لینے پر بھی بندش ہو وہ جدوجہد آزادی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ ہی 'ہندو بنیے‘ کی سفاکیت و بربریت کے آگے جھکیں گے اور یہ کہ پاکستان سے الحاق ہی کشمیریوں کی حتمی منزل ہے۔ میں تمام کشمیریوں‘ بالخصوص مقبوضہ جموں و کشمیر کے باسیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ یقینا مسلسل تکالیف اٹھا رہے ہیں لیکن آپ تنہا نہیں ہیں۔ پاکستان کا بچہ بچہ، پاکستان کی عسکری قیادت سمیت پوری قوم حقِ خود ارادیت کی آپ کی جدوجہد میں آپ کے ساتھ ہے اوران شاء اللہ آزادی کی صبح تک ہم آپ کا ساتھ نبھائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں