دہشت گردی کی نئی لہر

خطے کے موجودہ حالات اور مغرب کی سازشوں کے باعث نئی افغان حکومت کے بدلتے تیور اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ اب ان کا رویہ مثبت نہیں رہاحالانکہ اقتدار سنبھالنے کے بعدافغان طالبان نے اس خواہش کا برملا اظہار کیا تھا کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے رجوع کرکے عالمی برادری کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں مگر جس طرح مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی نئی وارداتوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے‘ اس کے پیش نظر یہ امید رکھنا کہ وہ اپنی سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ تاحال عبوری افغان حکومت کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ پاکستان میں اگرچہ کالعدم ٹی ٹی پی کو اپنی کارروائیاں بند کرنے کی ہدایت تو کی گئی تھی لیکن سوات میں حالیہ دہشت گردی کی لہر سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ انتہا پسندانہ کارروائیوں میں بھارت ہی نہیں بلکہ افغان حکومت کی اشیرباد بھی شامل ہے۔ نریندر مودی نے افغان قیادت، فوج اور انٹیلی جنس کے ذہنوں کواتنا زہر آلود کیے رکھا کہ ماضی میں سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے خطے میں قیام امن کیلئے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کارآمد ثابت نہ سکیں جس کا واضح ثبوت گزشتہ دنوں بھی دیکھنے کو بھی ملا کہ ضلع کرم کے علاقے خرلاچی میں جوانوں نے بھرپور جوابی وار کرتے ہوئے انتہا پسندوں کی کارروائیوں کوناکام بنا دیا لیکن اس دوران فائرنگ سے نائیک محمد رحمن‘ نائیک معویز خان اور سپاہی عرفان اللہ شہید ہو گئے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل سوات بم حملے میں امن کمیٹی کے رکن ادریس خان سمیت 5 افراد شہید ہو گئے تھے۔ ان افسوسناک واقعات میں دہشت گردوں کی جانب سے افغان سرزمین استعمال کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر سے توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ افغان حکومت مستقبل میں ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے گی۔ افغانستان اور کابل انتظامیہ کی جانب سے اب تک جو ہو چکا‘ سو ہو گیا لیکن اب مزید برداشت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لہٰذا حالیہ واقعات پر محض رسمی احتجاج کے بجائے اس معاملے کو عالمی سطح پر بھی اٹھایا جائے کیونکہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف ملک دشمن عناصر کے عزائم کواگر ناکام نہ بنایا گیا توآنے والے دنوں میں ہماری سلامتی و خودمختاری کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان اس سے قبل پاکستان کے امریکی جنگ میں شمولیت کو جواز بنا کر لوگوں کو گمراہ کرتی رہی ہے‘ اب اس کی حقیقت بھی سب کے سامنے آ رہی ہے کہ امریکہ سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا‘ اس کا مقصد محض پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ اگرچہ حکومت پاکستان نے کالعدم ٹی ٹی پی کو کئی بار امن کے مواقع دیے اور ان سے مذاکرات بھی ہوئے مگر ہر بار ٹی ٹی پی ہی نے امن معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مذاکرات میں تمام تر سیاسی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ جو قبائلی عمائدین کا جرگہ بھیجا گیا وہ پورے قبائل کی نمائندگی کرنے سے قاصر تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد سے پاکستان میں حملوں میں تیزی آگئی ہے۔واضح رہے کہ داعش زیادہ تر سویلینز اور سول تنصیبات کو نشانہ بناتی ہیں جبکہ ملٹری وسکیورٹی فورسزکالعدم ٹی ٹی پی کے ٹارگٹ پر ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں 21 فورسز اہلکار‘ جن میں پولیس کے 15 اور آرمی کے6 جوان شامل تھے‘ شہید ہو چکے ہیں جبکہ 14 عام شہری بھی لقمۂ اجل بنے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مغرب کے مذموم مقاصد اور مفادات کے حصول کیلئے توسیع پسندانہ اور جنگجویانہ پالیسیاں خطے میں قیا م امن کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوئی ہیں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پرپہنچا دیا۔ کابل سے عجلت میں انخلا اور اتحادیوں کے ساتھ کو آرڈی نیشن کے فقدان کی وجہ سے لندن سے برلن تک افغانستان کے معاملے نے جو بائیڈن دور کی خوش کن شروعات کو تلخ بنا دیا کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد افغانستان میں جرمن افواج کی تعیناتی جرمنی کا پہلا بڑا جنگی مشن تھا لیکن جس طرح اس کا اختتام ہوا‘ اس کے بارے میں گہری مایوسی پائی جاتی ہے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا‘ اس سے کوئی انکاری نہیں۔ انتہاپسندوں اور دہشت گردوں نے اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کرکے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی وارداتوں کا جوسلسلہ شروع کیا اس میں سکیورٹی فورسز کے10 ہزار سے زائد جوانوں اور افسران سمیت ملک کے 80 ہزار سے زائد شہریوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ سینکڑوں ارب ڈالر زکے مالی نقصانات بھی برداشت کرنا پڑے لیکن مقام افسوس کہ اس کے باوجود واشنگٹن کی طرف سے ''ڈومور‘‘کے تقاضوں میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔
بلاشبہ بھارت نے سوچی سمجھی حکمت عملی کے ساتھ افغانستان میں اپنا ایک ایسا جال پھیلا رکھا ہے کہ طالبان تاحال اُسی پاکستان مخالف بیوروکریسی اور انہی انٹیلی جنس آپریٹرز کو استعمال کر رہے ہیں۔ '' امن عمل‘‘ میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر پاکستان ہی لے کر آیاتھالیکن بیرونی قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اسے مسلسل التوا کا شکار کرتی رہیں۔ بھارت نے گزشتہ دو دہائیوں میں افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی خاطرامریکی اشیر باد پر خطے میں تخریب کاری کو ہی پروان نہیں چڑھایا بلکہ طالبان اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپوں میں اس نے ہمیشہ ڈبل گیم کھیلنے کا ڈرامہ رچایا۔ ایک طرف طالبان سے مذاکرات جبکہ دوسری جانب ان کے خلاف سابق اشرف غنی انتظامیہ کو اسلحے کی فراہمی کے اس کے مذموم مقاصد کا پردہ چاک کرتی ہے۔ اشرف غنی دور میں ڈیورنڈ لائن پر افغان فوجیوں نے بھی پاکستان کی چیک پوسٹوں پر باقاعدہ حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ طورخم سرحد پر حفاظتی گیٹ اور باڑ لگانے کی سخت مزاحمت کرتے ہوئے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ اس وقت بھی بین الاقوامی سرحد پر افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں کی مسلسل ہونے والی فائرنگ سے بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اگرچہ عساکرِ پاکستان ملک کی سرحدوں کے دفاع کیلئے پُرعزم ہیں مگر قوم کو بھی اس حوالے سے یکسو ہونا پڑے گا۔
اس خطے کے 'امن عمل‘ میں رکاوٹیں ڈالنے کی سازشوں میں اگر کوئی ملک ملوث ہو سکتا ہے تو وہ صرف بھارت ہی ہے جو اپنے توسیع پسندانہ مقاصد کو ناکام ہوتا دیکھ کر سخت اضطراب کا شکار ہے۔ بھارت کو پاکستان کے ساتھ دیگر ممالک کی دوستی اوراس کی ترقی و خوشحالی ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی یہی وجہ ہے کہ چین کے ساتھ اربوں ڈالرز کے منصوبوں کے معاہدوں پر جہاں بعض ممالک اطمینان اور خوشی کا اظہارکر رہے ہیں‘ وہیں امریکہ، بھارت اور ان کے اتحادیوں میں اقتصادی راہداری کی تعمیر اور گوادر بندرگاہ معاہدوں پر تشویش پائی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ سی پیک کے منصوبے پرجونہی عملدرآمد شروع ہوا تھاتو مودی حکومت نے ایرانی صوبے سیستان میں واقع چابہار بندرگاہ پر نظریں جمالی تھیں۔ ایرانی بندرگاہ چابہارمیں اربوں ڈالرز مالیت کے دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کی ترقی وخوشحالی اورخطے میں چین کی بالادستی کو نقصان سے دوچار کرناتھا۔ اب بھی مغربی بارڈر کے راستے مشکلات پیدا کرکے افغانستان اور ایران کے راستے پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ وطن عزیز کا امن عساکرِ پاکستان کے مضبوط ہاتھوں میں مکمل محفوظ ہے جسے کمزور کرنے کی کوئی سازش نہ پہلے کامیاب ہو سکی تھی نہ آئندہ ہو پائے گی‘ ان شاء اللہ؛ تاہم طالبان کے موجودہ دورِ حکومت میں افغانستان میں بڑھتا انسانی بحران قومی سلامتی اور خودمختاری کیلئے نئے چیلنجزکا باعث بن رہا ہے جس سے مزید محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اب طالبان پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نریندرمودی کے ہاتھو ں میں نہ کھیلیں بلکہ اپنی تمام تر توجہ افغانستان کے استحکام پر مرکوز رکھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں