25 مئی 2022ء کے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے دوسرے لانگ مارچ کا اعلان کرنے کا وقفہ لیا؛ تاہم پچھلے ایک‘ دو ماہ سے ان کے دماغ میں دو باتیں چل رہی تھیں یا تو وہ بیک ڈور چینل کے ذریعے مذاکرات میں کامیابی کے بعد مزید احتجاج و لانگ مارچ کی کال کو ملتوی کر دیں‘ بصورتِ دیگر حکومت پر اس قدر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ جلد از جلد اگلے عام انتخابات کا اعلان کر د ے۔ دوسری جانب ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو منظر عام پر آکر ایک پریس کانفرنس کرنا پڑی جو یقینا حالات کی سنگینی کی غماز ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے موجودہ سیاسی و سماجی صورتِ حال پر کھل کر بات کی۔ بلاشبہ انہوں نے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھیلے جانے والے گھنائونے کھیل اور ملکی امن و سلامتی کو درپیش چیلنجز کا کھل کر اظہار کیا جس سے سازشی بیانیہ زمین بوس ہو گیا۔ عساکرِ پاکستان کے ترجمان نے واضح کیا کہ وہ اپنے غیر جانبداری کے فیصلے پر قائم ہیں اور سیاسی معاملات میں بے جا مداخلت کی پالیسی کی سختی سے مخالفت کر رہے ہیں۔ جبکہ یہ بھی خوش آئند ہے کہ مقتدرہ نے سیاسی اختلافات دور کرنے، مخالفین کو مذاکرات پرراضی کرنے میں بھی بھرپور کوششیں جاری رکھیں۔ اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی سے مصالحت کیلئے متعدد بار رضا مندی کا اظہار کیا لیکن مقبولیت کی اونچی اُڑان میں کھوئے ہوئے خان صاحب نے مصالحت پسندی کی دعوت کو نخوت سے ٹھکراتے ہوئے کہا: ''میں امریکی غلاموں، چوروں اور لٹیروں سے بات نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ انہوں نے مذاکرات کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے مشروط کر دیا۔ دوسری جانب پی ڈی ایم حکومت نے ان کی 'میں نہ مانوں‘ کی ضد کو دیکھتے ہوئے یہ واضح کر دیا ہے کہ حکومت کو بھی بات چیت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں اور اگست 2023ء تک حکومت اپنی میعاد پوری کرے گی۔
عمران خان کے جارحانہ رویے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ بہر صورت قبل از انتخابات چاہتے ہیں تاکہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس آ کر تمام مخالفین کو جیل میں ڈالنے کی اپنی خواہش پوری کر سکیں۔ افسوس کہ پونے چار سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود اپنے خوش کن و دلفریب عوامی وعدوں کی تکمیل میں وہ ناکام رہے اور ریاست مدینہ کے خواب دکھا کر مسلسل عوام کے جذبات سے کھیلا جاتا رہا۔ 9 اپریل 2022ء کو ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا، شاید اپنی مقبولیت کے اونچے گراف کی وجہ سے وہ میعادِ حکومت مکمل کر پاتے مگر 2021ء کے آخری حصے میں ان کی حکومت زوال کی جانب گامزن ہو چکی تھی۔ وزارتِ عظمیٰ سے دستبرداری کے بعد عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے امریکی سازش اور سائفر کے بیانیے کا سہارا لیا اور27 مارچ کو بھرے پنڈال میں جیب سے ایک کاغذ نکال کر لہراتے ہوئے اُسے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا۔ اپریل سے اکتوبر تک انہوں نے 55 عوامی جلسے کیے اور ہر جلسے میں اپنے خطابات میں امریکہ، پی ڈی ایم رہنماؤں اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ خود کو منظم سازش کا زخم خوردہ ثابت کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی جبکہ اپنے معاندانہ رویے اور مخالفین پر لفظی بوچھاڑ سے خود کو ایک 'پاپولر سیاسی رہنما‘ بنا لیا جس کی وجہ سے انہیں حالیہ ضمنی الیکشن میں سات میں سے چھ نشستیں حاصل ہوئیں۔ قبل ازیں پی ٹی آئی نے 2014ء میں 126 روزہ دھرنا دیا اور 'میڈیا وار‘ جاری رکھی۔ حکومت سے پہلے انتخابی مہم اور بعد ازاں عوامی اجتماعات کی سیریز چلائی۔ اب حکومت جانے کے بعد بھی سابق وزیراعظم نے اپنی تقاریر و خطابات میں خود کو امریکہ مخالف ظاہر کرتے ہوئے اپنے سپورٹروں کو یہ یقین دلایا کہ ہم حقیقی آزادی کے لیے جہاد کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے سپورٹروں کے ذہنوں میں جھوٹی سچی کہانیوں کے ذریعے مبینہ طور پر پی ڈی ایم لیڈروں اور دیگر شخصیات کے خلاف ایک نفرت بھر دی ہے۔ میر جعفر اور میر صادق جیسے استعاروں سے انہوں نے اداروں کو متنازع بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں باقی رکھی۔ مزید برآں معاشرے میں خلیج و تقسیم گہری ہونے پر بھی انہوں نے اپنا جارحانہ انداز جاری رکھا اور ایسے ایسے بیانات دیے جن سے معاشرتی تفریق میں اضافہ ہوا مثلاً اپنے منحرف اراکین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے بچوں کے رشتوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح انہوں نے اپنی ''تحریک‘‘ کو حق کی تحریک اور مخالفین کو باطل بنا کر اس طرح پیش کیا‘ گویا ان کا ساتھ دینا ہی حق پرستی اور ان سے اختلافِ نظر و اختلافِ رائے رکھنا بہت بڑا گناہ ہو۔ اگرچہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں ریٹائرڈ و حاضر سروس افسران، تعلیم یافتہ مڈل کلاس، ورکنگ طبقے، سروسز آفیسرز سمیت دور دراز علاقوں کے نوجوانوں، بچوں اور خواتین کی سپورٹ حاصل ہے۔ بیرونِ ملک بسنے والے پاکستانیوں کی کثیر تعداد بھی عمران خان پر جان قربان کرنے والے فینز پر مشتمل ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانی کمیونٹی کے ہونے والے آئے روز کے جھگڑوں سے نہ صرف ان لیڈران بلکہ وطن عزیز کا امیج بھی خراب ہو رہا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا بریگیڈ ویب سائٹس، ٹویٹر، یو ٹیوب، انسٹا گرام وغیرہ پر اداروں اور معاشرتی سالمیت کے خلاف مسلسل سرگرم ہے جو من گھڑت کہانیوں اور جھوٹی خبروں کے ذریعے اپنابیانیہ پیش کر رہی ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ عوام کی ایک کثیر تعداد بلا سوچے سمجھے ان مفروضوں پر یقین کر رہی ہے۔ فیک نیوز اور منظم پروپیگنڈا مہم نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
اگر عمران خان کے پونے چار سالہ دورِ اقتدار کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ اپنی غیر تربیت یافتہ ٹیم کی بدولت گڈ گورننس اور اپنے جلسو ں میں کیے گئے بڑے بڑے وعدے اور دعوے پورے کرنے میں ناکام رہے۔ حتیٰ کہ اپنی انا کی وجہ سے پارٹی رہنماؤں پر وہ اپنی برتری بھی نہ رکھ سکے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں کرپشن اور اخلاقی برائیوں میں اضافہ تو ہوا ہی‘ بیرونی قرضوں اور مالی خسارے کا بوجھ بھی بڑھتا چلا گیا۔ سیاسی مخالفین سے تصادم سے گریز کے لیے کوئی مثبت پالیسی اختیار نہ کی جا سکی۔ انتقام کی خاطر سیاسی رقیبوں پر احتساب کا شکنجہ کسنے کے لیے ان کی ''وِچ ہنٹنگ‘‘ کی گئی۔ اس دوران سفارتی محاذ پر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ہم نے کئی دوست ممالک کھو دیے۔ سی پیک کی تعمیر و ترقی میں تیزی لانے کے بجائے مذکورہ منصوبے کو سست روی کا شکار کر دیا گیا۔ مائیکرو فنانس و جی ڈی پی ریٹ میں بہتری کے بلند بانگ دعوے کیے گئے مگر عملاً ملک معاشی دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ گیا۔ موجودہ دگرگوں ملکی حالات میں قبل از انتخابات کیلئے پی ڈی ایم حکومت پر دباؤ، بلیک میلنگ سمیت ہر قسم کے ہتھکنڈوں کا واضح ہاتھ ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سینئر صحافی ارشد شریف کے افسوسناک قتل پر بھی سیاست کی دکان چمکائی جا رہی ہے اور ان کے قتل کو داخلی سیاست کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ عمران خان نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ''مجھے پتا ہے کہ اس سازش میں کون کون ملوث ہے‘‘۔ اسی کو بنیاد بنا کر اپنی پارٹی میں انہوں نے دوبارہ جان ڈالی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں سے مارچ میں شرکت کی اپیل کی۔
بالآخر عمران خان نے 28 اکتوبر بروز جمعہ لانگ مارچ کا آغاز کر دیا۔ محسوس ہوتا ہے کہ طاقت اور اقتدار کے حصول اور سیاست میں زندہ رہنے کے لیے وہ ہر حد تک جا سکتے ہیں۔ عوام کی مشکلات، اداروں کے خلاف مہم اور ابتر معاشی حالات کی انہیں کوئی فکر نہیں۔ شاید وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ 2009ء میں جس طرح نواز شریف کے لانگ مارچ کے گوجرانوالہ پہنچنے سے قبل ہی ججز کی بحالی کے مطالبات مان لیے گئے تھے‘ اسی طرح ان کے مطالبے کو بھی من و عن تسلیم کر لیا جائے گا۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے عمران خان نے ایچ الیون پارک پر دھرنا دینے پر رضا مندی ظاہرکر رکھی ہے مگر یہ بھی اطلاعات ہے کہ پارٹی کے چند عناصر نے ریڈ زون میں جانے کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے۔ خدا نہ کرے کہ یہ نوبت آئے لیکن اگر حالات یہ رخ اختیار کرتے ہیں تو اس میں نقصان کسی سیاسی جماعت یا حکومت کا نہیں ملک و قوم کا ہو گا۔