بھارت میں مسلم شناخت کے خاتمے کاایجنڈا

دنیا میں مسلمانوں کو ظلمت کی سیاہ شب نے ڈھانپ رکھا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ انہیں مٹانے کیلئے نت نئے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ اس وقت غزہ سے لے کر مقبوضہ کشمیر و بھارت تک ہنود و یہود کی بربریت اور درندگی کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ایک طرف آر ایس ایس پرچارک گجرات کے قصائی نریندر مودی کی سر پرستی میں مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے تو دوسری جانب مغربی اشیرباد سے غزہ میں رقصِ ابلیس جاری ہے۔ صہیونی وحشیانہ مظالم کے نتیجے میں 15000 سے زائد فلسطینی مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں 6000 سے زائد بچے شامل ہیں۔ افسوس! ملتِ اسلامیہ کی بے حسی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ ہم اُس دین کے نام لیوا ہیں جس کا ماننے والا محمد بن قاسم چند مسلمان عورتوں کی پکار سن کر حجاز سے دیبل پہنچ گیا تھا۔ ہمارے اسلاف میں مسلم سپہ سا لار طارق بن زیاد نے ایک عیسائی خاتون کو انصاف دلانے کے لیے اندلس (سپین) کے ساحل پر تاریخی جنگ لڑی تھی مگر آج حالات یہ ہیں کہ بقول علامہ اقبال:
ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تُو کہ ترا دل نہیں دانائے راز
بھارت میں مسلمانوں کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 13.4 فیصد سے زائد ہے جو دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیتی آبادی اور تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے مگر بھارت بطور ریاست اس وقت نریندر مودی کے فاشسٹ نظریات پر عملدرآمد میں مصروف ہے اور مسلمان اس کے خصوصی نشانے پر ہیں۔ بی جے پی مسلم شناخت و تشخص کے خاتمے کے لیے سَنگھ پریوار کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ گاؤ رکھشا، لَو جہاد، متنازع شہریت قانون، قرآن پاک کی تعلیم کی بندش اور مسلم کش فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو خون میں نہلایا جا رہا ہے۔ دنیا کی آنکھوں میں امن پسندی، سیکولر ازم اور جمہوریت کی دھول جھونک کر مسلم قتلِ عام کو ماب لنچنگ میں چھپایا جا رہا ہے۔ یہ مسلم ہولو کاسٹ اور جینوسائیڈ نہیں تو اور کیا ہے؟
2025ء میں آر ایس ایس کے سو سال مکمل ہونے جا رہے ہیں۔ اس سے قبل اسے بھارت کو ''ہندو راشٹر‘‘ بنانے کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے اور یہ اپنے ناپاک اور خطرناک عزائم کی تکمیل کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے بانی گوالکر کا کہنا تھا ''ہم یہ پکا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہم اس دھبے (مسلمان) کو مکمل مٹا نہ ڈالیں‘‘۔ اسی طرح تاریخ کے صفحات پلٹیں تو ہمیں ''شیوا جی‘‘ نامی ایک کردار نظر آتا ہے۔ یہ مرہٹہ راج کا ایک حکمران تھا‘ آج کل جس کا یومِ پیدائش نام نہاد سیکولر بھارت میں دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ اس کا کہنا تھا: ''میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے۔ میری بادلوں جیسی گرجنے والی فوجیں مسلمانوں پر تلواروں کا مینہ برسائیں گی کہ دکن کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سارے مسلمان اس سیلابِ خون میں بہہ جائیں گے اور ایک مسلمان کا نشان بھی باقی نہیں رہے گا‘‘۔ 1947ء سے لے کر آج تک‘ بھارت میں ہونے والے مسلم کش فسادات اس انتہا پسند سوچ کا واضح ثبوت ہیں۔ نریندر مودی کے بھگتوں نے ''جے شری رام‘‘ کے نعرے لگا کر اب مسلمانوں کو قتل کرنے کا نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
معروف عالمی تنظیم جینوسائیڈ واچ کے سربراہ ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن نے متعدد بار انتباہ کیا ہے کہ بھارت میں حقیقتاً مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے، بھارت نسل کشی کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کا مکمل صفایا صرف ایک قدم کی دوری پرہے۔ ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کے مطابق: کشمیر اور آسام میں مسلمانوں پر ظلم و ستم اور ان کا منظم قتلِ عام اس کا پہلا مرحلہ تھا۔ بابری مسجد کی شہادت اور اس کی جگہ رام مندر کی تعمیر بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ نسل کشی کے ماہر گریگوری سٹینٹن نے روانڈا میں کئی سال پہلے ہی نسل کشی کی پیش گوئی کر دی تھی جبکہ یہ 1994ء میں وقوع پذیر ہوئی۔ پروفیسر گریگوری کی اس تحقیق کی روشنی میں ہمیں ان دس مراحل کا جائزہ لینا چاہئے جو نسل کشی سے متعلق ہیں۔ سب سے پہلا مرحلہ شہریوں کی درجہ بندی (Classification) ہے۔ دوسرا مرحلہ علامت گری (Symbolization) ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر وہ قوم جس کی نسل کشی متوقع ہے‘ پہلے اس کی علامتیں مٹائی جاتی ہیں۔ نسل کشی کی راہ میں تیسرا مرحلہ عصبیت یا امتیازی سلوک (Discrimination) ہے۔ یہ امتیازی سلوک ہر میدان میں نمایاں ہوتا ہے۔ چوتھا پڑاؤ غیر انسانی سلوک (Dehumanization) ہے۔ اس میں متعلقہ قوم کے افراد کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ نسل کشی کی پانچویں منزل ایک مخالف تنظیم (Organization) کا قیام ہے۔ تنظیم کے بغیر کسی مخالف کو نہیں کچلا جا سکتا۔ چھٹا مرحلہ پولرائزیشن (Polarization) ہے۔ جب تنظیم اپنے گروپ کو دشمن قوم کے لیے یکجا کرتی ہے تو واضح طور پر دو دھڑے بن جاتے ہیں۔ ساتواں قدم نسل کشی کی تیاری (Preparation) ہے، اس میں اپنے افراد کو ہتھیار بنانے سے لے کر انہیں چلانے تک کی تربیت دی جاتی ہے۔ آٹھواں مرحلہ مخالف قوم کو ہراساں کرنا اور ایذا پہنچانا (Persecution) ہے۔ نواں مرحلہ تباہی (Extermination) ہے، اس مرحلے پر مخالف قوم کو تباہ و برباد کرنے کے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ قوانین بنا کر اس کی ترقی کے راستے روکے جاتے ہیں، عوام میں اس قوم سے متعلق نفرت پیدا کرکے اپنی قوم کو اکسایا جاتا ہے، مخالف قوم کو ہر ممکن جانی اور مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ آخری اور دسواں مرحلہ انکار (Denial) ہے، اس میں نسل کشی کرنے والا گروہ اپنے جرم کو جرم تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے یعنی وہ اپنے اقدام کے لیے جواز تراشتا ہے اور اس کو جرم نہیں مانتا۔ وہ قتل عام کو ضروری قرار دیتا ہے۔ اگر بھارت میں مسلمانوں کی حالتِ زار کا جائزہ لے کر ان مراحل کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ بھارت میں مسلم نسل کشی اب آخری پڑاؤ پر ہے۔
آر ایس ایس کی سربراہی اور نریندر مودی کی سرپرستی میں بھارت میں انتہاپسندوں نے مسلم نسل کشی کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔ آر ایس ایس کے تحت جہاں ایک طرف ذہنی طور پر عوام‘ بالخصوص ہندو نوجوانوں کو مسلمانوں کا دشمن بنایا جا رہا ہے‘ وہیں انہیں ہتھیار بنانے اور چلانے کی ٹریننگ دے کر عملی طور پر تیار بھی کیا جا رہا ہے۔ رام اور ہنومان کے نام پر نکالے جانے والے جلوسوں میں ہتھیاروں کی نمائش اور نفرت انگیز نعرے بازی نے مسلمانوں کو ہراساں اور خوف زدہ کرنے کا مرحلہ پار کر لیا ہے۔ وندے ماترم، سوریا نمشکار، یوگا، گائے کے تقدس اور تین طلاق کے ایشوز کے ذریعے مسلمانوں کی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔ مسلم پرسنل لاء میں بھارتی ریاست کی مداخلت جیسے بے شمار ایشوز مسلم دشمنی کا ثبوت ہیں۔ انتہا پسند تنظیموں بجرنگ دَل، ویشوا ہندو پریشد، شیوسینا، ہندو مہا سبھا اور رام ترن منڈل وغیرہ کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر رکھی گئی ہے۔ مساجد پر حملے، مسلم پرسنل لاء میں ترامیم اور مسلمانوں کی تذلیل انتہاپسند فرقہ پرستوں کی تعلیمات کا اہم حصہ ہیں۔ بھارت کے ایک مسلم دانشور کا کہنا ہے کہ ''ایک طرح سے خاموشی کے ساتھ مسلمانوں کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ یہاں سے کوچ کر جائیں‘‘۔ اس کے باوجود کہ مسلمان بھارت کی آبادی کا لگ بھگ پندرہ فیصد ہیں‘ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی کابینہ میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے۔ گزشتہ نو برس سے پورے بھارت میں ہندوتوا کا ڈنکا بج رہا ہے اور عالمی ماہرین مسلمانوں کی نسل کشی کے خطرے سے خبردار کر رہے ہیں۔ عالم اسلام اپنی ذمہ داریوں سے غافل کیوں ہے ؟ کیا مسلم امہ کا فرض نہیں کہ وہ اسرائیل اور بھارت کے مسلمانوں پہ جاری مظالم کو روکنے کیلئے ان پر معاشی، سیاسی اور سفارتی دباؤ ڈالے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں