کشمیر پربھارتی عدلیہ کا شب خون!

ہندوتوا بھارتی سپریم کورٹ نے حسبِ روایت انصاف کا خون کرتے ہوئے آر ایس ایس پرچارک نریندر مودی کی جانب سے 5اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370کو ختم کرنے کے چار برس بعد اس جارحانہ اقدام کو درست قرار دے کر اس پر قانونی مہر لگا دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جلسوں‘ تقریروں اور احتجاجوں کے علاوہ پاکستان کے پاس کشمیر کو بچانے اور اس کی آزادی و خود مختاری کیلئے مزید کیا آپشنز ہیں؟ یاد رہے کہ 5اگست 2019ء کو کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے سے قبل بھارتی وزیراعظم مودی نے تل ابیب کا دورہ کیا تھا جہاں سے وہ غزہ کی طرز کا بلدیاتی نقشہ ہمراہ لایا تھا۔ جس طرح فلسطین کی سرزمین سے مسلمانوں کے علیحدہ تشخص کے خاتمے کیلئے یہودی بستیاں آباد کی گئیں‘ بالکل اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے خصوصی درجے کے ضامن آرٹیکلز 35-A اور 370کو ختم کرکے کشمیری مسلم آبادی کا اکثریتی تناسب تبدیل کرنے کیلئے غیرکشمیری ہندوؤں کو بسانے کیلئے دھڑا دھڑ رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔ اس اقدام کا مقصد ریاست کا اسلامی تشخص ختم کرنا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کی زمین غیرمقامی ہندو سرمایہ کاروں کو ایک روپیہ فی کنال کے حساب سے بیچی جا رہی ہے۔ سرینگر کی 20ہزار کنال اراضی بھی غیرمقامی ہندو سرمایہ کاروں کو دینے کا منصوبہ تیار ہے۔ اجیت ڈوول نے تو اپنے نقشے میں آزاد کشمیر کو بھی شامل کر رکھا ہے۔ در حقیقت بھارت بی جے پی کی قیادت میں ''اَکھنڈ بھارت‘‘ کے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کیلئے سر گرم عمل ہے۔ آر ایس ایس کے نظریات نے بھارت میں پوری طرح اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں۔ بھارت کی پانچ ریاستوں میں حال ہی میں منعقد ہونے والے انتخابات کے نتائج سے مزید واضح ہو گیا ہے کہ ہندوستان میں بی جے پی کے علاوہ دوسری کوئی جماعت برتری حاصل نہیں کر سکتی۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگرس کے مضبوط ہونے کے باوجود وہاں بی جے پی کو اکثریتی ووٹ ملے۔ یعنی 2024ء کے عام انتخابات کے بعد نریندر مودی تیسری بار اقتدار سنبھالیں گے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیرکو خصوصی حیثیت اور اختیارات حاصل تھے۔ انڈین آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں‘ اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت ریاست کشمیر کے شہریوں کے علاوہ کوئی اور شخص یہاں جائیداد نہیں خرید سکتا۔ اس شق کے تحت مقبوضہ ریاست کو اپنے الگ آئین اور الگ پرچم کا حق بھی دیا گیا تھا جبکہ انڈیا کے صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت دفاع‘ مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر انڈین قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔ حالیہ فیصلے میں بھارتی چیف جسٹس نے کہا کہ جموں وکشمیر کے پاس ہندوستان سے الحاق کے بعد کوئی خود مختار ی موجود نہیں تھی‘ آرٹیکل 370کو غیرمناسب قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ہندوستانی آئین کا جموں و کشمیر پر مکمل اطلاق ہونا چاہیے۔ کشمیریوں کے اندر بھارتی عدلیہ کے حوالے سے جو یہ امید موجود تھی کہ وہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کر سکتی ہے‘ وہ بھی دم توڑ گئی ہے۔ پاکستان کے نگران وزیر خارجہ نے بھارتی فیصلہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھارتی فیصلہ مسترد کرنے سے کیا ہوگا؟ ہندوستان چار سال تک ایک بہتر موقع کی تلاش میں رہا اور باقاعدہ منصوبہ بندی کیساتھ اب یہ فیصلہ سنادیا گیا ہے۔ وائٹ ہائوس کو بھارتیوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ بھارتی نژاد خاتون کمیلا ہیرس امریکہ کی نائب صدر ہے۔ بھارتی نژاد رشی سوناک برطانیہ کا وزیراعظم ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صورتحال کس قدر گمبھیر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا جب آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر امریکی دورے پر تھے۔ یہ یہود و ہنود کی پلاننگ تھی کہ اصل ایجنڈے کو وہاں پس پشت ڈال دیا جائے۔ دنیا کیا کر رہی ہے؟ دونوں ایٹمی ملکوں کو فلیش پوائنٹ پر لے آئی ہے۔ اس سے پہلے روس یوکرین جنگ‘ غزہ پر اسرائیلی بربریت‘ آخر اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اقوامِ متحدہ کی قوت کا اندازہ تو غزہ پر اسرائیل کی درندگی سے ہو جاتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر اقوامِ متحدہ کی جنگ بندی کی اپیلوں کو جوتے کی نوک پر رکھا۔ افسوس! فلسطین و کشمیر میں اقوامِ متحدہ اپنی قرار دادوں پر عمل نہ کروا سکی۔ 1948ء میں کشمیر میں رائے شماری کی قرار داد منظور ہوئی تھی‘ لیکن کیا ہوا؟ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کئی قراردادوں کی منظوری کے باوجود کشمیر کے مظلوم عوام کو بھارت کے ناجائز تسلط سے آزاد کروانے میں ناکام رہی۔
بھارت نے تمام معاہدوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں حالانکہ نہرو خود دو مرتبہ یو این میں گئے اور کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی بات کی تھی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ‘ عالمی برادری اور او آئی سی کا بھارتی جارحیت کے خلاف کوئی مؤثر کردار تاحال دیکھنے کو نہیں ملا۔ المیہ تو یہ ہے کہ گزشتہ 75برسوں میں ملک میں کئی حکومتیں آئیں لیکن وہ سفارتی سطح پر اپنے دوست ممالک کو قائل کرنے میں ناکام رہیں کہ وہ بھارت سے تجارتی تعلقات منقطع کر دیں اور اس پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ اگست 2019ء میں جب بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35-Aپر شب خون مارا تو پاکستان ایک بار متحرک ضرور ہوا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کشمیر کی خودمختاری کیلئے ہر جمعہ کو آدھا گھنٹہ بھی مختص کیا تھا۔ یہ احتجاج بھی مگر تین ہفتوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ہمارے حکمرانوں کی معذرت خواہانہ پالیسیوں نے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا۔ جونا گڑھ پر قبضہ کرکے ہندوستان میں ضم کر دیا گیا‘ ہم نے کیا کیا؟ صرف برداشت و تحمل کی پالیسی پر قائم رہے۔ بنگلہ دیش ہم سے جدا کر دیا گیا پھر بھی ہم خاموش رہے۔ 5اگست 2019ء کے بھارتی اقدام پر پاکستان کے مسلم و غیرمسلم دوست ممالک بھی بھارت پر کوئی دباؤ نہ ڈال سکے۔ کسی نے بھی اس کیساتھ تجارتی و سفارتی بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ 2019ء کے بعد سے بھارت میں سرمایہ کاری میں مزید اضافہ ہوا۔ بھارت کی متحدہ عرب امارات‘ قطر‘ بحرین‘ عمان سمیت سعودی عرب اور کویت کیساتھ دو طرفہ تجارت جو 2020ء میں 87ارب ڈالرز تھی‘ 2021ء میں بڑھ کر 155ارب ڈالر ہو گئی جبکہ 2023ء میں بھارت کی عرب ملکوں کیساتھ تجارت مزید بڑھ کر 240ارب ڈالرز پر پہنچ گئی ہے۔ سعودیہ کی رواں سال اب تک بھارت کیساتھ تجارت 58ارب ڈالرز تک پہنچ گئی ہے۔ بھارتی میگزین Business Today کی ایک رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات بھارت میں 50ارب ڈالر کی سر مایہ کاری کرنے کا سوچ رہا ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق سرینگر میں دبئی کے ایک گروپ نے 60ملین ڈالر کی سر مایہ کاری کی ہے جس میں سرینگر میں شاپنگ پلازے‘ مالز اور کمرشل ٹاورکے پراجیکٹس شامل ہیں۔
ہندو برہمن ہندوستان و کشمیر سے مسلمانوں کا نام و نشاں مٹانے کے درپے ہیں۔ وہاں ماورائے عدالت قتلِ عام جاری ہے۔ بھارت نے وادی کو نازی عقوبت خانہ میں تبدیل کیا ہوا ہے۔ لاکھوں کشمیری تعلیم‘ صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم اور گھروں میں مقید ہیں۔ غیراعلانیہ کرفیو اور ہر روز نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم نے نئے انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔ عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرکر ''سرچ آپریشن ‘‘ کے نام پر جہاں مال و اسباب کی لوٹ مار جاری ہے وہیں چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال کیا جا رہا ہے۔ حقِ خود ارادیت کا نعرہ بلند کرنے والے ہزاروں کشمیری نوجوان‘ بوڑھے اور بچے ٹارچر سیلوں میں جرمِ ضعیفی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کشمیر میں آزادیٔ اظہارِ رائے پر بھی پابندی عائد ہے۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اب ہو رہی ہیں‘ شاید ہی تاریخ میں کبھی ہوئی ہوں۔ اگر مشرقی تیمور کو راتوں رات آزادی دلائی جا سکتی ہے‘ سوڈان میں ایک الگ عیسائی ریاست کا وجود عمل میں لایا جا سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ کشمیر کو آزاد کرانے کی بات آئے تو ایکشن کے بجائے صرف قراردادوں پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں