سی پیک پر دہشت گردی اور پاک ایران گیس منصوبہ

یہود و ہنود اور امریکی گٹھ جوڑ کی ہماری قومی سلامتی کے خلاف کارروائیاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ملک دشمن عناصر وطنِ عزیر کے امن و خوشحالی کے درپے ہونے کے ساتھ ساتھ پاک ایران گیس منصوبے سے لے کر سی پیک جیسے عظیم الشان منصوبے کو سبو تاژ کرنے کیلئے مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام میں داسو کے مقام پر حالیہ خود کش حملہ بھی سی پیک اور پاک چین لازوال رشتے کو سبوتاژ کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔ بھارت کو کسی صورت سی پیک ہضم ہی نہیں ہو رہا مگر ہندو بنیا یاد رکھے کہ پاک چین دوستی بھارتی ہتھکنڈوں سے کسی صورت متاثر نہیں ہو سکتی۔ داسو کے مقام پر ایک پاک چین معاہدے کے تحت ڈیم کی تعمیر جاری ہے۔ یہ اِس مقام پر دہشت گردی کا دوسرا واقعہ ہے۔2021ء میں بھی یہاں چینی انجینئرز کی بس پر حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں نو چینی انجینئرز سمیت13 افراد جان سے گئے تھے۔ اس حملے میں ملوث کالعدم ٹی ٹی پی کے دو دہشت گردوں کو سزائے موت بھی سنائی گئی تھی۔ 2021ء میں داسو میں ہونے والے دہشت گرد حملے کا ماسٹر مائنڈ طارق افغانستان کے علاقے کنڑ میں مارا جا چکا ہے جبکہ حالیہ حملے سے کالعدم تنظیم نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ اعلیٰ سول و عسکری قیادت نے اس واقعہ کے بعد چین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرکے چینی باشندوں کی فول پروف حفاظت یقینی بنانے کا وعدہ کرتے ہوئے پاک چین دوستی کو زک پہنچانے کے بھارتی عزائم خاک میں ملا دیے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا تمام ریاستی وسائل بروئے کار لا کر دہشت گردی کا بھرپور انداز میں مقابلہ کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ چین کے وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خاتمہ اور چینی باشندوں کی حفاظت کیلئے پاکستان کی کوششوں اور اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
کچھ منصوبے ایسے ہوتے ہیں جن سے قوموں کی تقدیر بدلتے دیر نہیں لگتی‘ سی پیک منصوبہ بھی پاکستان کیلئے اسی اہمیت کا حامل ایک منصوبہ ہے بلکہ یہ پورے خطے کیلئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے بھارت خطے میں معاشی اور سیاسی بالادستی قائم رکھنے کی پالیسی اپنا کر اس منصوبے کی راہ میں کئی مسائل پیدا کر رہا ہے تاکہ یہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ مودی کا ایران کی بندر گاہ چاہ بہار میں سرمایہ کاری کا مقصد بھی پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور چین کے اثر و رسوخ کو نقصان پہنچانا ہے۔ درحقیقت سی پیک کے خلاف ایک گریٹ گیم جاری ہے۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت چین کی جانب سے بنیادی سہولیات کے نظام‘ توانائی اور قومی پیداوار جیسے شعبوں میں 100ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ ماضی میں چینی شہریوں پر ہونے والے زیادہ تر حملوں میں بلوچ عسکریت پسند ملوث رہے ہیں جبکہ داعش بھی ایسے حملے کر چکی ہے۔ اپریل 2022ء میں ایک خاتون دہشت گرد نے کراچی یونیورسٹی میں خود کو بم سے اڑا لیا تھا جس کے نتیجے میں تین چینی اساتذہ جان کی بازی ہار گئے۔ اس حملے کے بعد پاکستان میں سی پیک سے منسلک افرادی قوت کم کر دی گئی تھی۔ ملک عزیز میں چینی باشندوں پر پہلا حملہ مئی 2004ء میں گوادر میں ہوا تھا جہاں چینی ماہرین کو لے جانے والی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول کار بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں تین چینی انجینئرز ہلاک ہوئے۔ 2006ء میں بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے حب میں چینی انجینئرز کے قافلے پر حملہ کیا گیا تاہم اس حملے میں چینی باشندے محفوظ رہے۔ اگست 2018ء میں چاغی کے علاقے دالبندین میں سیندک پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کی بس پر خودکش حملہ ہوا‘ اس حملے میں دو چینی انجینئرز سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔ نومبر 2018ء میں کراچی میں چین کے قونصل خانے پر خودکش حملہ کیا گیا تھا۔ اسی برس چینی اور پاکستانی تعمیراتی کارکنوں کو لے جانے والی بس کو بارودی مواد کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ اگست 2021ء میں گوادر میں ساحلِ سمندر پر سڑک کی تعمیر پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کی گاڑی پر خودکش حملے میں چار بچے جاں بحق اور ایک چینی انجینئر زخمی ہوا تھا۔ بلاشبہ وطنِ عزیز کا امن افواجِ پاکستان کے محفوظ ہاتھوں میں ہے جسے کمزور کرنے کی سازش نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی اور نہ آئندہ ہو پائے گی‘ تاہم حالیہ دہشت گردانہ کارروائیاں نئے چیلنجز کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں اس لیے اس حوالے سے مزید محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر بھارت کو پاکستان میں دہشت گردی سے نہ روکا گیا تو علاقائی امن کیساتھ ساتھ اس کے سنگین اثرات عالمی امن پر بھی مرتب ہوں گے۔ کیا اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری عالمی امن کی تباہی کی متحمل ہو سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر بھارت کو ہر صورت نکیل ڈالنا ہو گی۔
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی بھارتی و عالمی استعماری قوتوں کے مذموم عزائم کی وجہ سے التواء کا شکار ہے۔ 1995ء میں اس کا آغاز ہوا جس کے تحت ایرانی بارڈر سے گوادر تک 81کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی گئی۔ اس زمانے میں اسے Peace Pipeline یعنی امن کی پائپ لائن کا نام دیا گیا۔ گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کی صورت میں پاکستان کو نہ صرف سالانہ پانچ ارب ڈالر سے زائد بچت ہو گی بلکہ ایل این جی کے مقابلے میں ایران سے 750ملین کیوبک فٹ انتہائی سستی گیس ملے گی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کو قدرتی گیس کے ذخائر کے حوالے سے ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے جس کے کل گیس ذخائر کا 69فیصد سے زیادہ حصہ ختم ہو چکا ہے‘ ابھی ملک کے 78فیصد گھرانوں کو قدرتی گیس تک رسائی حاصل نہیں ہے‘ جبکہ قدرتی گیس تک رسائی والے گھرانوں کو محدود دستیابی کی وجہ سے 16گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو قدرتی گیس کی طلب کو پورا کرنے میں مسلسل چیلنجز کا سامنا ہے۔ گیس کی کمی کے باعث طلب و رسد میں عدم توازن بڑھتا جا رہا ہے۔ ایران ایک اندازے کے مطابق 12سو ٹریلین کیوبک فٹ قدرتی گیس کے ثابت شدہ ذخائر رکھتا ہے اور روس کے بعد گیس ذخائر کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اس کے باوجود ایران کی توانائی کی برآمدات سخت امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ یہ پابندیاں عالمی منڈیوں اور مالیاتی نیٹ ورکس تک رسائی کو محدود کرتی ہیں جو ایران کی تجارت کو متاثر کر رہی ہیں۔ ایران پاکستان پائپ لائن منصوبے کو بھی متعدد رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے اور بلوچستان میں عسکریت پسندی نے اس عظیم منصوبے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جبکہ ایران پر امریکی پابندیوں کے بعد پاکستان پر اس منصوبے کے حوالے سے سفارتی دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ جیسا کہ حال ہی میں امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے پریس بریفنگ کے دوران امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ امور برائے جنوبی و وسطی ایشیا ڈونلڈ لُو کے بیان کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کے منصوبے کی حمایت نہیں کرتا۔ ترجمان میتھیو ملر نے واضح کہا کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والا امریکی پابندیوں کی زد میں آسکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو 18بلین ڈالر کے بھاری جرمانے سے بچنے کے لیے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے جو کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے موجودہ زرِمبادلہ کے ذخائر کا تین گنا ہے۔ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور اسے اپنے عوام کے بہترین مفاد میں فیصلے کرنے کا مکمل اختیار و آزادی حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہمیں اپنی خود مختاری کو گروی رکھنا پڑے گا۔ ہم آزادانہ فیصلے کب کر پائیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں