میں اپنے گزشتہ کالموں میں انتباہ کرتا رہا ہوں کہ امریکہ جاتے جاتے داعش کا فتنہ اس علاقے میں چھوڑ کر جائے گا اور اب بھارت اور داعش کے آپس میں روابط کا پرد ہ چاک ہو گیا ہے۔ اس کی تصدیق ایک امریکی جریدے ''فارن پالیسی‘‘ نے بھی کی ہے۔ شام کی جنگ میں بھارتی دہشتگرد ملوث پائے گئے۔ بھارتی دہشتگردوں کے افغانستان میں داعش کیساتھ مل کر لڑنے کے واضح ثبوت ملے۔ مچھ میں ہزارہ برادری کے 11 افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی بھارت ملوث پایا گیا۔ داعش بھارتی گٹھ جوڑ نے 2019ء میں سری لنکا میں ایسٹر پر بم دھماکے کیے۔ 2017ء میں ترکی میں کلب اور نیویارک اور سٹاک ہوم میں بھی حملے کیے۔ بھارت پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر انتشار پھیلانے کیلئے خطے میں داعش کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ داعش کی موجودگی خطرے کی گھنٹی ہے۔ بھارت کی سرپرستی میں داعش کے پانچ ٹریننگ کیمپ ایک مقبوضہ کشمیر‘ تین راجستھان اور ایک اُترا کھنڈ میں فعال ہے۔ ان ٹریننگ کیمپوں کا مقصد کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت کی جدوجہد کو عالمی دہشت گردی سے منسلک کرکے اسے بدنام کرنا ہے۔
پاکستان پہلے ہی بھارت کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور پاکستان میں دہشت گردی سمیت داعش کے جنگجو تیار کرنے کے ثبوت بھی پیش کر چکا ہے۔ بھارتی ریاست کیرالہ داعش کے دہشت گردوں کو بھرتی کرنے کیلئے ایک ہاٹ سپاٹ کے طور پر اُبھری ہے۔ قندھار جیل میں بند بھارتی دہشت گرد ثنا الاسلام کا تعلق بھارتی ریاست کیرالہ کے شہر ملاپورم سے ہے۔ افغان تفتیش کاروں کے مطابق ثنا الاسلام تاجکستان کے راستے افغانستان پہنچا اور اس کا ارادہ دہشت گرد گروپ اسلامک سٹیٹ آف خراسان صوبہ (ISKP) میں شامل ہونا تھا‘ جو افغانستان میں سرگرم ہے۔ ثنا الاسلام نے انکشاف کیا کہ اس نے بعض افراد سے ملنے کیلئے ہندوستان میں ایک اہلکار کی ہدایت پر قندھار کا سفر کیا۔ 2014ء سے اب تک کم از کم 11ہندوستانی‘ جو ISKPسے منسلک ہیں‘ یا تو افغانستان میں مارے جا چکے ہیں یا پکڑے گئے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق کیرالہ سے ہے۔ کرناٹکا کی ریاست میں دو بھارتی شہری ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے پر گرفتار ہوئے۔ ایک اور بھارتی شہری زوہیب خان نے افغانستان میں موجود اپنے ISKP ہینڈلر ابو احمد کی بھی شناخت کی۔ ایک اور بدنامِ زمانہ ISKPکمانڈر اور بھارتی شہری ابو عثمان الکشمیری بھی افغانستان میں مارا گیا۔
افغانستان میں دہشت گرد بھیجنے کیلئے بھارت اب تاجکستان کی سرزمین کا استعمال کر رہا ہے۔ ان گھناؤنے اقدامات کے ذریعے بھارت دہشت گردی کو ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ISKPنے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ کی مدد سے کئی دہشت گرد حملے کیے۔ اس گروپ کے اراکین کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے جن میں سے زیادہ تر نے 2019ء میں براستہ ایران افغانستان پہنچ کر ISKPمیں شمولیت اختیار کی۔ کئی بھارتی افراد نے 2015ء میں اس وقت ISKPمیں شمولیت اختیار کی جب افغان صوبے ننگر ہار میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ امریکہ نے جب اپریل 2017ء میں ننگر ہار صوبہ کے ضلع آچن میں مدر آف آل بمبز کے ذریعے حملہ کیا تو ISKPمیں شامل 13بھارتی دہشت گرد اور دو بھارتی کمانڈرز ہلاک ہوئے۔ نومبر 2020ء میں پاکستان نے ملک میں دہشت گردی میں بھارتی خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کے بارے میں دنیا کو ثبوت پیش کیے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارت کے دو انٹیلی جنس افسران نے بھارت سے 30دہشت گردوں کو پاک افغان سرحد پر بھیجا جہاں انہیں داعش کے کمانڈر شیخ عبدالرحیم المعروف عبدالرحمان مسلم دوست کے حوالے کیاگیا۔ آر ایس ایس اور داعش کے گٹھ جوڑ کا انکشاف دہلی میں مشرقِ وسطیٰ کے ایک سفیر نے بھی کیا جنہوں نے کردستان میں داعش کی جانب سے بہت سے بھارتیوں کو تربیت دینے کی تصدیق کی۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ جب جون 2014ء میں عراقی شہر موصل میں داعش نے مختلف ممالک سے آئی ہوئی جن نرسوں کو یرغمال بنایا ان میں 40نرسیں بھارتی تھیں‘ لیکن داعش صرف ان بھارتی نرسوں کو چھوڑنے پر ہی راضی کیوں ہوئی؟
ISKPکے افغانستان میں نورستان‘ بدکس‘ سری پل‘ بغلان‘ بدخشاں‘ قندوز اور کابل میں سلیپر سیلز ہیں۔ 25مارچ 2020ء کو کابل میں ایک گوردوارہ پر حملہ ایک بھارتی محمد مہاسن نے کیا تھا جس کا تعلق کیرالہ سے تھا۔ طالبان حکومت نے بگرام جیل سے جو قیدی رہا کیے ان میں سے 14کا تعلق بھارتی ریاست کیرالہ سے تھا جنہیں ISKPکے ساتھ کام کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ افراد کابل ایئر پورٹ پر ایک خطرناک حملہ کی سازش میں ملوث تھے۔ مالا پورم‘ کاسا راگود اور کنہڑ کے اضلاع میں رہنے والے کیرالہ کے افراد مشرقِ وسطیٰ میں داعش میں شمولیت کیلئے بھارت سے منتقل ہوئے۔ ان دہشت گردوں میں سے بعض کے خاندان ISKPکے تحت رہائش پذیر ہونے کیلئے افغان صوبہ ننگر ہار بھی آئے۔ اگست 2020ء میں کیرالہ کے ایک اور جہادی ابو روہا المہاجر نے صوبہ ننگر ہار میں جلال آباد جیل پر ایک خودکش گاڑی کے ذریعے حملہ کیا جس کے بعد ISKP کے دہشتگردوں نے حملہ کیا۔ ISKP کے ترجمان سلطان عزیز اعظم کے مطابق حملے میں تین بھارتیوں نے حصہ لیا۔ کابل کے ہوائی اڈے پر خود کش حملہ کرنے والا حملہ آور عبد الرحمان لوگری پانچ سال قبل بھارت میں گرفتار ہوا تھا اور قید کے بعد اس کو افغانستان ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔ داعش کا وائس آف ہند میگزین بھارت سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ داعش بھارت سمیت برصغیر میں کارروائیوں کو غزوۂ ہند سے تشبیہ دیتی ہے۔ بھارت کے اخبار ''دی ہندو‘‘ کے مطابق ستمبر 2020ء میں بھارتی پولیس نے وائس آف ہند کے بانی رکن عبداللہ باسط (خطاب بھائی) کو بھارتی شہر حیدر آباد سے گرفتار کیا تھا جس کے موبائل سے داعش کی آن لائن میگزین 'وائس آف ہند‘ کی کاپیاں بھی برآمد ہوئی تھیں۔نئی دہلی ہوائی اڈے سے گرفتار ہونیوالی ایک 29سالہ عورت نے دورانِ تفتیش اس بات کا انکشاف کیا کہ داعش میں شمولیت اختیار کرنیوالوں میں خواتین بھی شامل ہیں جن کو 'داعش کی دلہن‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ٹی ٹی پی کو داعش کی قیادت کے ساتھ باہم ملانے کا مرکزی کردار نریندر مودی حکومت کا شاطر و عیار نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول ہے۔ شنید ہے کہ سانحہ APS کا ماسٹر مائنڈ بھی یہی اجیت ڈوول ہے۔ اس حملے کا مقصد پاکستان کے اندر دہشت اور خوف کی فضا پیدا کرنا تھا۔ اجیت نے شامی سفیر سے ملاقات کے دوران داعش کے قائدین کی تفصیلات مانگیں۔ ساری معلومات اکٹھی کر نے کے بعد ڈوول نے شام و عراق کے خفیہ دورے کیے۔ وہاں وہ قائدینِ داعش سے ملنے میں کامیاب رہا۔ پاکستان‘ ایران اور افغانستان جیسے اہم خطے میں قدم جمانے کی خاطر داعش نے 'را‘ کی عسکری و مالی مدد قبول کر لی۔ اجیت ڈوول کا پلان یہ تھا کہ ٹی ٹی پی سمیت دیگر چھوٹی بڑی تنظیموں اور داعش کو ملا کر افغانستان میں ایک طاقتور پاکستان دشمن اتحاد وجود میں لایا جائے‘ مگر ہماری سکیورٹی فورسز اجیت ڈوول کے اس شیطانی پلان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑی ہیں۔
مودی حکومت کے انتہا پسندانہ اقدامات کی وجہ سے خطے میں امن و امان کی صورتحال شدید متاثر ہو رہی ہے چنانچہ ان حالات میں اب حکومتِ پاکستان پر یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی اداروں کے سامنے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھارت کے خفیہ ہاتھ کو بے نقاب کرے کیونکہ حساس علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیاں کسی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں ہیں۔