اکھنڈ بھارت اور ہندو توا کا حامی ہندو بنیا تقسیمِ برصغیر کے وقت سے ہی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ چاہے قیامِ پاکستان کے موقع پر تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے وقت لاکھوں مسلمانوں کا قتلِ عام ہو یا بھارت کے مختلف شہروں میں فسادات کے نام پر مسلمانوں کے کاروباری مراکز اور گھروں کو نذرآتش کرکے ان کے خون کی ہولی کھیلنا ہو‘ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان خواتین کی بے حرمتی ہو یا ایک لاکھ سے زیادہ مظلوم کشمیریوں کی شہادتیں‘ بھارت میں جلتی ہوئی مساجد‘ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلا دینا‘ ہاشم پورہ میں بے گناہ نوجوانوں کو گولی مار کر نہر میں پھینک دینا اور بھارتی ریاست آسام میں بے بس و لاچار مسلمانوں کو ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دینا‘ صرف یہی نہیں سکھوں کے گولڈن ٹمپل پر فوجی چڑھائی‘ ہزاروں سکھوں کو موت کے گھاٹ اتارنا‘ گرجا گھروں کو نذرِ آتش کرنا اور نچلی ذات کے ہندوؤں پر عرصۂ حیات تنگ کر دینا درندہ صفت انتہا پسند ہندوؤں کا مشغلہ ہے۔ مذکورہ قتل و غارت اور دہشت گردی کے واقعات سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے والے سیکولر بھارت کے چہرے کو بے نقاب کرنے کیلئے کافی ہیں۔ افسوس کہ اقوامِ متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں نے بھارتی جارحیت و بربریت پر چپ سادھ رکھی ہے۔ بھارتی حکومت نے ہندو توا نظریہ کے حامی ہندو دہشت گردوں کو ہٹ دھرمی اور من مانی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ واضح رہے کہ 'اکھنڈ بھارت‘ تیسری بار اقتدار سنبھالنے والے آر ایس ایس پر چارک نریندر مودی کی پالیسی میں سرفہرست ہے۔ اسی مذموم پالیسی کے تحت ہندو بنیے نے قیامِ پاکستان کے وقت دھوکہ دہی‘ فریب اور فوجی چڑھائی سے کشمیر سمیت بڑی مسلم ریاستوں پر ناجائز قبضہ جما لیا تھا۔ ان ریاستوں میں حیدرآباد‘ مناور‘ بھوپال‘ دادرا‘ نگر حویلی اور جونا گڑھ نمایاں ہیں۔ تقسیم سے قبل برصغیر میں 565آزاد ریاستیں تھیں جن میں سے کئی اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنا چاہتی تھیں اور وہ پاکستان سے الحاق کا اعلان کر چکی تھیں لیکن ہندو قیادت نے انگریزوں کے ساتھ مل کر عیاری اور مکاری سے ان پر اپنا ہاتھ صاف کرتے ہوئے دھونس جما لی۔ اس لیے بھارت کو سب سے بڑا قبضہ گروپ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔
بھارت نے 13ستمبر 1947ء تک یعنی تقسیمِ برصغیر کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر حیدرآباد پر بزور شمشیر قبضہ کر لیا۔ 10اپریل 1975ء کو سکم کو ہڑپ کرنے کے بعد بھی ہندو بنیے کی یہ گھناؤنی سازش اب بھی جاری ہے۔ سرحدوں کی حد بندی کے دوران ایک طرف برطانوی ماہرِ قانون ریڈکلف نے انتہائی جانبداری سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بددیانتی کا مظاہرہ کیا تو دوسری جانب مسلم ریاستوں سمیت دیگر آزاد و خود مختار ریاستیں بھی بھارت کی جھولی میں ڈال دیں اور بھارت نے ان کا الگ وجود ہی مٹا ڈالا۔ 26اکتوبر 1947ء کو ریاست جموں و کشمیر پر جبری قبضہ کیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے نام نہاد الحاق کو اس کی بنیاد بنایا گیا۔ یہ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت نہرو ہی تھے جنہوں نے لال چوک سری نگر میں کھڑے ہو کر کشمیر کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اس الحاق کی کوئی بنیاد نہیں بلکہ کشمیری عوام سے آزادانہ رائے شماری کے ذریعہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھی کہا تھا کہ یہ الحاق عارضی ہے۔ لیکن پانچ اگست 2019ء وہ سیاہ دن تھا جب فسطائی مودی حکومت نے شب خون مارتے ہوئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کو منسوخ کرکے کشمیر کو ہڑپ کر لیا۔ جونا گڑھ کا الحاق تو پاکستان سے ہو چکا تھا لیکن یہ ریاست عین موقع پر بھارتی مکرو فریب کا شکار ہو گئی۔ اس کا شمار بھی ہندوستان کی امیر کبیر ریاستوں میں ہوتا تھا اور اس کے نواب پاکستان میں شمولیت کے خواہشمند تھے لیکن بھارت نے شب خون مارتے ہوئے یہاں اپنی فوجیں اتار دیں اور 9نومبر 1947ء کو اس پر ناجائز قبضہ جما لیا۔ اس بھارتی تسلط کے خلاف سلامتی کونسل میں ایک قرار داد آج بھی اس کے ایجنڈے میں موجود ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کی طرح اس ریاست کا مسئلہ بھی عالمی سطح پر اٹھائے اور اقوام متحدہ اسے بھارتی تسلط سے آزاد کروائے۔ بھوپال بھی ایک خوشحال آزاد مسلم ریاست تھی۔ تقسیمِ برصغیر کے وقت بھوپال نے خود مختاری کا اعلان کیا تھا اور اسلام نگر ریاست کا پہلا دارالحکومت بنا تھا لیکن بھارت نے 1949ء میں جبراً اس پر قبضہ جما لیا اور یکم مئی 1949ء کو اسے ریاست مدھیہ پردیش کا حصہ بنا دیا۔ بھوپال حیدرآباد کے بعد برصغیر کی دوسری امیر ریاست تھی۔
بھارت کی متعصب ہندو لیڈر شپ نے اپنے 'اکھنڈ بھارت‘ایجنڈے کی بنیاد پر پاکستان کی تشکیل کو کبھی قبول ہی نہیں کیا اور وہ 1947ء سے پاکستان کی سلامتی کے خلاف مسلسل سر گرم عمل ہے۔ دسمبر 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں پاکستان کا دولخت ہونا اسی بھارتی سازش کا شاخسانہ ہے جس کے بعد اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے یہ بَڑ ماری تھی کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ درحقیقت پاکستان ہی اکھنڈ بھارت کے مذموم ایجنڈے کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی اپنی سازشیں آشکار کرتے رہے جبکہ انہوں نے پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کے لیے بھارت میں جعلی فلیگ شپ آپریشنز کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ بھارت دہشت گردوں کا سرخیل اور ان کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے جس کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی را نے پاکستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ کینیڈا اور امریکہ تک دہشت گرد ی کا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ نے بھارتی ایجنسی را کے ایک دہشت گرد کو حراست میں لیا جو ایک سکھ لیڈر گرپت ونت سنگھ پنوں‘ جو کہ امریکی شہری ہے‘پر قاتلانہ حملے کی سازش میں ملوث ہے۔
اس تناظر میں ملک کی دفاعی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ کیلئے کوششیں بروئے کار لانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جنگی جنون میں مبتلا بھارت اس وقت پاکستان سے زیادہ ایٹمی ہتھیاروں کا مالک بن چکا ہے۔ سویڈن کے ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد پانچ فیصد اضافے کے ساتھ 172تک پہنچ گئی ہے۔ 2023ء میں ان وار ہیڈز کی تعداد 164تھی‘ جبکہ اس دوران پاکستان نے اپنے وار ہیڈز کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کیا‘ پاکستانی وار ہیڈز کی تعداد 170ہے۔ سیپری کا جوہری ہتھیاروں کی تعداد سے متعلق ڈیٹا عوامی طور پر دستیاب معلومات پر مبنی ہوتا ہے۔ اس میں سرکاری ذرائع (سرکاری وائٹ پیپرز‘ پارلیمانی اور کانگریسی مطبوعات اور سرکاری بیانات) کے ساتھ ساتھ ثانوی ذرائع (نیوز میڈیا رپورٹس اور جرائد‘ تجارتی جرائد) میں بیان کردہ معلومات شامل ہوتی ہیں۔
مودی حکومت غیرملکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو بھارت میں سرمایہ کاری کرنے کی پیش کش کر چکی ہے اور اس کے لیے بھارت غیرملکی کمپنیوں کو مکمل اونرشپ دینے پر بھی تیار ہے۔ موجودہ صورتحال میں غیرملکی کمپنیوں کو بھارت کے دفاعی پروجیکٹس میں صرف 26فیصد سرمایہ کاری کی اجازت ہے اور وہ ٹیکنالوجی کی منتقلی کی پابند بھی نہیں جبکہ ایک بھارتی عہدیدار کے مطابق 74فیصد شیئرز پر غیرملکی کمپنیاں ٹیکنالوجی دینے کو بھی تیار ہیں۔ مودی سرکار بھارت کو جدید اور روایتی ہر قسم کے اسلحہ اور جنگی ساز و سامان سے لیس کرکے پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی پر اوچھے وار کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے جس سے اس کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ مگر بھارت جان لے کہ پاکستان کی محافظ بہادر و غیور پاک افواج ہیں۔