"MAHG" (space) message & send to 7575

بھارتی آبی دہشت گردی اور سندھ طاس معاہدہ

1960ء میں عالمی بینک کی ثالثی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کیلئے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ بعد ازاں یہ معاہدہ ہندو بنیے کی روایتی ہٹ دھرمی و عیاری کی بھینٹ چڑھ گیا۔ مذکورہ معاہدے کے تحت تین دریا بھارت کو مل گئے مگر اب وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے تین دریاؤں کے پانی کو بھی اپنے تصرف میں لانے کیلئے آبی دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ 22اپریل کو ہونے والا پہلگام ڈرامہ بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پہلگام فالس فلیگ آپریشن اور مئی کی مختصر جنگ کے بعد سندھ طاس معاہدہ معطل کرتے ہوئے مودی حکومت پاکستان کے خلاف پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے‘ جبکہ بھارت کئی بار سندھ طاس معاہدے کی روح سے انحراف کر چکا ہے۔بگلیہار ڈیم کا معاملہ ہو یا کشن گنگا ڈیم کا‘ بھارت نے ہمیشہ اس معاہدے کی روح کو مجروح کیا۔ بھارت اس معاہدے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے آبی دہشت گردی میں مصروف ہے اور ہم ہیں کہ ابھی تک اس حوالے سے بیان بازی کے علاوہ کوئی اقدام نہیں کر رہے۔ ہندو بنیا پاکستان کو قحط زدہ کرنے کیلئے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈا استعمال کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاؤں کے منبع پر نئے ڈیمز کی تعمیر کے بھارتی منصوبے‘ دریائے جہلم سمیت پاکستان کو مغربی جانب سے بھی پانی سے محروم کرنے کیلئے دریائے کابل پر 22ڈیموں کی تعمیر اور اب دریائے چناب سے نکلنے والی رنبیر کینال کو توسیع دینے اور پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کی منصوبہ بندی آبی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ جموں و کشمیر اور لداخ کے متنازع علاقوں میں ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تیزی‘ نیمو بازگو اور چوتک جیسے منصوبے پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کا اس معاملے پر مؤقف بالکل واضح ہے کہ پانی کی فراہمی میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ یا مداخلت کو اعلانِ جنگ سمجھا جائے گا۔ اس تناظر میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کردار نہایت اہم اور مدبرانہ ہے۔ ان کی قیادت میں پانی کے مسئلے کو ملکی دفاع‘ خارجہ پالیسی اور سفارتی دباؤ کے ساتھ مربوط کیا گیا۔ انہوں نے بھارت کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ پانی روکنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ پانی پاکستان کی ریڈ لائن ہے جبکہ عالمی بینک کی جانب سے بھی کہا گیا کہ بھارت آبی معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل یا تبدیل نہیں کر سکتا۔ دریں اثنا پاکستان نے بھارت کو سندھ طاس معاہدہ بحال کرنے کیلئے چار خط لکھے تاہم بھارت کا یہ کہنا کہ جب تک پاکستان دہشت گردی کے خلاف واضح اور ٹھوس کارروائی نہیں کرتا اس وقت تک یہ معاہدہ معطل رہے گا‘ غنڈہ گردی نہیں تو کیا ہے کیونکہ پاکستان دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔
زرعی ملک ہونے کے ناتے پاکستان میں فصلوں کی کاشت کا زیادہ تر دارومدار دریائی پانی پر ہے اس لیے سندھ طاس معاہدہ پاکستان کیلئے کافی اہم ہے۔ اس معاہدے کے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طور پر 168ملین ایکڑ فٹ پانی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا جس میں تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ‘ جہلم اور چناب سے آنے والے 80فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے جو 133ملین ایکڑ فٹ بنتا ہے جبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں ‘ راوی‘ بیاس اور ستلج کا کنٹرول دے دیا گیا۔ چونکہ مغربی دریاؤں میں سے کئی کا منبع مقبوضہ کشمیر میں ہے اس لیے بھارت کو 36لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی لیکن بھارت نے معاہدے کی اس شق کو پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ گزشتہ تین سال سے بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان اور بھارت کے انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس بھی نہیں ہو سکا۔ دونوں ملکوں کے درمیان انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس 30اور 31مئی 2022ء کو نئی دہلی میں ہوا تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت سال میں دونوں ملکوں کے کمشنرز کا کم از کم ایک اجلاس ہونا ضروری ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں کے بہاؤ میں بھارتی دراندازی کھلی آبی جارحیت اور امن و استحکام کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد نریندر مودی نے دریائے چناب‘ جہلم اور سندھ پر نئے منصوبوں پر کام تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے مطابق ان تینوں دریاؤں پر پاکستان کا حق ہیں۔ ان منصوبوں میں سے ایک رنبیر کینال کی توسیع بھی شامل ہے جسے 60کلومیٹر سے بڑھاکر 120 کلومیٹر کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ اس کینال کی توسیع سے بھارت دریائے چناب سے موجودہ 40کیوبک میٹر کے بجائے 150کیوبک میٹر پانی نکال سکے گا۔ مودی حکومت نے دریائے سندھ کو دریائے راوی اور بیاس سے جوڑ کر اس کے پانی کو دریائے ستلج کے ذریعے پنجاب کے ہریک بیراج کی طرف موڑ دیا ہے۔ یہ میگا کینال تقریباً 200کلومیٹر طویل ہو گی اور اس میں 12بڑی سرنگیں تعمیر کی جائیں گی۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ہمارے ملک کا ایک مخصوص طبقہ کالا باغ سے لے کر دیامر بھاشا ڈیم تک تمام قومی آبی منصوبوں کو متنازع بنانے میں ملوث رہا ہے۔ ہمارے ازلی دشمن کے بس میں ہو تو پاکستان کی جانب ایک بوند پانی بھی نہ آنے دے۔ خطے میں بھارت کی آبی جارحیت کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ توانائی کے منصوبوں کی آڑ میں بھوٹان کے آبی ذخائر پر بھارتی قبضہ ہو یا بنگلہ دیش میں سیلاب‘ ہمیشہ سے ہی ہمسایہ ممالک کے آبی وسائل کو اپنے مذموم عزائم میں کامیابی کیلئے استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ جنگی جنون میں مبتلا بھارت نے سیاچن میں بھی پن بجلی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ یوں عالمی قوانین کی باغی مودی سرکار کے جارحانہ اقدامات کی وجہ سے جنوبی ایشیا کا امن خطرے کی زد میں ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل نو کو تنازعات کے حل کیلئے استعمال کرتے ہوئے عالمی عدالت انصاف میں جانا چاہیے تاکہ بھارت کی آبی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔ عالمی سطح پر بہترین سفارت کاری کے ساتھ ساتھ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم جیسے منصوبوں کو جلد سے جلد مکمل کرنا بھی ضروری ہے ۔ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آبپاشی کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور پانی کے ضیاع کو کم کرنے کیلئے سمارٹ کینال مانیٹرنگ سسٹم‘ واٹر کورس لائننگ اور ایگرو ٹیک پالیسیوں کو کاغذی کارروائیوں سے عملدرآمد کی طرف لایا جائے۔ عوامی بیداری بھی بہت اہم ہے‘ اس لیے شہریوں کو اس مسئلے کی تزویراتی اہمیت سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔
اقوامِ عالم جان لیں کہ یہ مودی کی جانب سے بدترین درجے کی آبی دہشت گردی ہے جس سے نہ صرف پاکستان کی زراعت بلکہ ماحولیاتی نظام کو بھی خطرہ ہے۔ جس طرح ہم جوہری بلیک میلنگ کو برداشت نہیں کرتے اسی طرح ہم آبی بلیک میلنگ کو بھی قبول نہیں کر سکتے۔ بھارت کے آبی تسلط کا مقابلہ کرنے اور اسے دنیا کے سامنے ایکسپوز کرنے کیلئے پانی کی قلت کے شکار ممالک کا ایک عالمی اتحاد بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کیے بغیر اور مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی اُمنگوں کے مطابق حل کیے بغیر جنوبی ایشیا میں مستقل امن کا قیام ممکن نہیں۔ اگر عالمی برادری نے ان مسائل پر خاموش رہی تو مستقبل میں اس خطے میں آنے والی تباہی کی ذمہ داری اسی پر ہی عائد ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں