"MAHG" (space) message & send to 7575

تشکر تشکر پاکستان

اسرائیلی جارحیت کے خلاف برادر ملک ایران کا ساتھ دینے پر ایرانی پارلیمنٹ پاکستان تشکر تشکر کے نعروں سے گونج اٹھی جو ہمارے لیے بھی تشکر کا مقام ہے۔ بلاشبہ پاکستان ہر مشکل گھڑی میں‘ ہر محاذ پر ایران کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے۔ پا کستان نے سلامتی کونسل میں بھی ایران کی حمایت میں دلیرانہ مؤقف اپنایا جس پر ایرانی صدر مسعود پزشکیاں نے اپنے خطاب میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی اور صہیونی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے کو سراہا۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں مودی کے ہندوتوا کو شکست دینے کے بعد پاکستان کا عالمی سطح پر وقار بلند ہوا ہے۔ دونوں برادر اسلامی ممالک یک جان دو قالب ہیں جبکہ فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے بھی پاکستان اور ایران کا یکساں مؤقف ہے۔ ایران نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔ بھائی چارے کے جذبے سے سرشار پاکستان ایران کے مابین دوستانہ سفارتی‘ تجارتی اور عوامی سطح کے روابط سات سے زائد دہائیوں پر محیط ہیں۔ پاک ایران تعلقات کی گہرائی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1947ء میں ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا جبکہ 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان پہلا ملک تھا جس نے بانی انقلاب آیت اللہ خمینی کی زیر سرپرستی بننے والی حکومت کو تسلیم کیا۔ یہ تاریخی اقدام مضبوط‘ پائیدار اور اٹوٹ رشتے کی بنیاد بنا کہ دشمن بھی اس آہنی دوستی میں دراڑ نہیں ڈال سکے۔
ایران پر دہشت گرد صہیونی ریاست کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے بعد جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے معاملات کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ امریکا اسرائیل کا حامی و مددگار ہے اور وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان اس موقع پر ایران کو تنہا نہیں چھوڑے گا؛ چنانچہ اس تناظر میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر سے ملاقات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ صہیونی دہشت گرد جو کچھ کر رہا ہے اس کو امریکہ‘ برطانیہ اور کئی یورپی ملکوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اس کے ساتھ امریکی منافقت بھی عیاں ہو گئی ہے کہ ٹرمپ کے مطابق جوہری مذاکرات کو 60روز سے زیادہ دیر گزر چکی ہے اور وہ کسی معاہدہ تک نہیں پہنچے۔ حالانکہ ابھی مذاکرات ہو رہے تھے کہ اسرائیل نے حملہ کر دیا۔ اسرائیل نے پہلے فضائی حملے میں ایرانی اعلیٰ عسکری قیادت‘ ایٹمی سائنسدانوں اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ دشمن کا اصل مقصد تو یہی ہے کہ حملوں کے ذریعے ایرانی فوج کے حوصلے پست کر دیے جائیں۔ مگر صہیونی ریاست کی جارحیت کے جواب میں ایران نے جس دلیری کے ساتھ میدان میں قدم رکھا اس نے اس کو نئی جغرافیائی اور نظریاتی طاقت کے طور پر ابھارا ہے۔ ایران نے اسرائیل پر تابڑ توڑ حملے کرکے پوری دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ امریکی بغل بچے کے ناقابلِ تسخیر ہونے کی بات ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔
اسرائیلی آپریشن رائزنگ لائن ایک سوچا سمجھا جنگی منصوبہ ہے جس کا مقصد خطے کو عدم استحکام کی نئی دلدل میں جھونکنا اور ایران میں بیرونی مداخلت کی راہ ہموار کرنا ہے جس کی پلاننگ گزشتہ دو برس سے ہو رہی تھی۔ یہ عسکری کارروائی نہیں بلکہ سیاسی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت ایرانی عوام کو بغاوت پر اُکسانا ہے۔ دوسری جانب صہیونی حملے کے خلاف ایران کے آپریشن ''وعدۂ صادق سوم‘‘ نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ اسرائیل‘ جسے طاقت کا گھمنڈ تھا‘ اب دباؤ کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ ایرانی حملوں نے اسرائیلی آئرن ڈوم کا پول کھول دیا ہے۔ ایران بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز سے تل ابیب اور دوسرے اسرائیلی علاقوں میں تباہی کے نظارے اسرائیل کی ایک نفسیاتی اور تکنیکی شکست ہے۔ اسرائیلی معیشت کو جھٹکا‘ غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی‘ جنگی اخراجات میں اضافہ یہ تمام عوامل سنجیدہ چیلنجز کی صورت میں صہیونی حکومت کے سامنے آئے ہیں۔ امریکہ کے اندر سے بھی اسرائیل کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
اسرائیلی حملے نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہیں بلکہ عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالی کا ایک تسلسل ہیں۔ ان حملوں کی پشت پناہی امریکہ کر رہا ہے جو مفاد پرستی‘ طاقت کے زعم اور مسلم دنیا کے خلاف بغض کی بڑی مثال ہے۔ درحقیقت ہر مسلم ملک جو خود مختا ر پالیسی بنانے کی جرأت کرتا ہے‘ دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرکے اپنے وسائل اور سرزمین کے تحفظ کی بات کرتا ہے‘ جو عالمی مالیاتی نظام سے نکل کر اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کی جدوجہد کرتا ہے‘ اُسے معاشی پابندی‘ سفارتی تنہائیوں یا براہِ راست عسکری جارحیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیبیا‘ عراق‘ ایران اس کی مثالیں ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی عالمی سامراج کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ فرعون صفت نیتن یاہو کے بیان سے یہ واضح ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بننے نہیں دیا جانا چاہیے تھا‘ اس سے ان صہیونی دہشت گردوں کے مذموم عزائم کا پتہ چلتا ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام ہمیشہ سے عالمی ایٹمی اداروں کے معائنے اور نگرانی میں رہا ہے۔ ایران نے بار بار یہ واضح کیا کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے‘ اس کے برعکس اسرائیل خود ایک ایٹمی طاقت ہے جس نے کبھی اپنا پروگرام معائنے کے لیے پیش نہیں کیا۔ 12جون کو آئی اے ای اے کی رپورٹ سامنے آئی کہ ایران جوہری بریک آؤٹ پوائنٹ کے قریب ہے۔ اس کے اگلے روز ہی 13جون کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا جس میں ایران کے چھ جوہری سائنسدان‘ ایرانی آرمی چیف‘ پاسداران انقلاب کے سربراہ اور ایئرو سپیس کے سربراہ شہید ہو گئے۔ اس کے بعد بھی کچھ سائنسدان شہید ہو ئے ہیں جبکہ غاصب ریاست کی عملی حمایت سے امریکی منافقت بھی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ ٹرمپ کی ایران سے غیرمشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کی دھمکی‘ کیا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آجائے گا؟ دریں اثنا امریکی صدر کے مطابق آئندہ 15دن بعد ایران جنگ میں شمولیت کا حتمی فیصلہ ہو گا۔ مسلم اقوام جان لیں ایران پر صہیونی حملے پورے عالم اسلام کے لیے پیغام ہے کہ اگر تم نے خود مختاری کی بات کی‘ دفاعی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی تو تمہارا حال بھی ایران جیسا ہوگا۔ اس لیے اسرائیلی بربریت اور خونریزی پر مسلمان ملکوں کی خاموشی ایک المیہ ہے‘ جو رسمی بیانات دینے پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ افسوس! امت مسلمہ ایک بار پھر داخلی تقسیم‘ سیاسی مفادات اور مغربی طاقتوں کی خوشنودی کے حصول کی پالیسیوں میں الجھی ہوئی ہے۔ اگر آج ایران کا ساتھ نہ دیا‘ چپ سادھ لی تو کل کو یہ آگ کسی اور مسلم ملک کے دروازے پر دستک دے گی‘ تب شکوہ بیکار ہو گا۔ 57مسلم ممالک ان کے پاس وسائل‘ آبادی‘ افرادی قوت ہے مگر مغرب کی تابعداری پر ہم کیوں مجبور ہیں؟ جب تک تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر امت واحدہ کی لڑی میں نہیں پروئے جاتے دشمن ہمیں اسی طرح کمزور کرتا رہے گا‘ لہٰذا اس وقت ایک طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر اپنے بیانیے کو مضبوط بنانا ہوگا۔ آج ہم نے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا نہ کیا تو کل ہم صرف تاریخ کے صفحات پر اپنے زوال کا نوحہ پڑھنے کے قابل ہی رہ جائیں گے۔ اندلس کا زوال ہو یا خلافتِ عثمانیہ کا سقوط‘ فلسطین کی تقسیم ہو یا عراق و شام میں بغاوتیں ہر جگہ دشمن باہر سے نہیں‘ پہلے اندر سے آیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا غلامی کی زنجیر کو توڑ ڈالے۔ ایران اسرائیل جنگ مسلمانوں کے لیے ایک موقع ہے اتحاد و بیداری کا۔ اگر یہ موقع گنوا دیا تو ہم تماشائی ہی رہ جائیں گے‘ اپنی ہی بربادی دیکھنے والے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں