لوگ اختیارات اور سرکاری عہدوں کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کس طرح دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹتے اور پکڑے جانے کے بعد سزا پانے کے بجائے کیسے پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال ایک ایسا شخص ہے جو پاناما کیس کی سماعت کے دوران پانچ رُکنی بنچ کو سب سے زیادہ برہم کرنے کا باعث بنا۔ کرپشن کی یہ کہانی شروع ہوتی ہے 35 سال پہلے، جب ضیاء الحق صدر مملکت تھے اور افواج پاکستان کا ایک نوجوان افسر ان کے اے ڈی سی کی حیثیت سے تعینات تھا۔ اس نے سوچا کیوں نہ اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تنخواہ کے علاوہ ''جائز‘‘ اور ''حلال‘‘ رزق کمانے کا بندوبست کیا جائے۔ چوہدری ظہور الٰہی جن کے پاس ضیاء الحق کی کابینہ میں محنت و افرادی قوت اور سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کا قلمدان تھا، ان سے شناسائی بڑھی تو اس نوجوان افسر نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ ملک بھر میں موجود ریکروٹنگ ایجنسیوں کو افرادی قوت بیرون ملک بھجوانے کا کوٹا الاٹ کرتے ہیں، اگر مجھے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع فراہم کر دیا جائے تو نوازش ہوگی۔ صدر مملکت کا اے ڈی سی خدمت کا موقع دے اور وفاقی وزیر انکار کر دے بھلا یہ کیسے ممکن تھا۔ اور پھر سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ خاتون اوّل بیگم شفیقہ ضیاء نے بھی اس نوجوان کی سفارش کر دی۔ چنانچہ چوہدری ظہور الٰہی نے ابتدائی طور پر ماہانہ 20 ویزوں کا کوٹہ الاٹ کر دیا۔ اس نوجوان افسر نے حصول روزگار کے لئے بیرون ملک جانے کے خواہشمند افراد کو یہ ویزے بیچنا شروع کر دیے۔ انہیں فی ویزہ مبلغ 14000روپے ملتے یعنی ہر ماہ 280000 روپے کی اضافی آمدن ہوتی جو ان کی ایک سال کی سرکاری تنخواہ سے بھی زیادہ تھی۔ سائیڈ بزنس پھلنے پھولنے لگا اور ایوان صدر میں ان سے ملنے والوں کا جمگھٹا بڑھتا چلا گیا۔ قریب تھا کہ وہ اپنا کوٹا بڑھانے کے لئے متعلقہ وفاقی وزیر سے دوبارہ رابطہ کرتے یا آمدن میں اضافے کے لئے نرخ میں اضافہ کرتے، آئی ایس آئی کو اس معاملے کی بھنک پڑ گئی۔
ٓٓآئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل ریاض خان نے اپنے ماتحت عملہ کی طرف سے تیار کی گئی ایک خفیہ رپورٹ صدر ضیاء الحق کو بھجوائی اور انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس طرح کا شخص سکیورٹی رسک ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر غیر ملکی ایجنسیوں کو اس بات کی بھنک پڑ گئی کہ اس قدر اہم اور حساس عہدے پر تعینات شخص کو ہوس زر کے باعث خریدا جا سکتا ہے تو کچھ بعید نہیں کہ ایوان صدر میں بیٹھ کر سائیڈ بزنس کرنے والا یہ شخص صدر مملکت کو ہی بیچ ڈالے۔ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے باوجود اس نوجوان افسر کے خلاف کوئی قانونی کارروائی تو نہ ہوئی البتہ کچھ توقف کے بعد اسے اے ڈی سی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ایوان صدر سے احکامات موصول ہوئے کہ اس نوجوان میجر کو فوج سے سبکدوش کرکے ڈی ایم جی گروپ میںبطور سول سرونٹ بھیج دیا جائے۔ یوں یہ صاحب ایک ضلع کے ڈی سی تعینات کر دیے گئے۔
یہ واقعہ بریگیڈیئر (ر) ارشاد ترمذی(مرحوم) نے اپنی کتاب ''پروفائیلز آف انٹیلی جنس‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے مگر راوی اس بارے میں خاموش ہے کہ مذکورہ افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کیوں نہ ہوئی اور سزا کے بجائے بطور جزا ایک اور پرکشش عہدہ کیوں دے دیا گیا؟ گجرات سے تعلق رکھنے والے ضیاء الحق کے سابق اے ڈی سی جو سول سرونٹ کی حیثیت سے چیئرمین سی ڈی اے، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری داخلہ سمیت کئی اہم عہدوں پر تعینات رہے، ان دنوں چیئرمین نیب ہیں اور ان کا نام چوہدری قمرالزمان ہے۔
اگر میرے بس میں ہو تو ان افراد کو 27 توپوں کی سلامی پیش کروں جنہیں ابھی تک یہ توقع ہے کہ پاناما لیکس پر محفوظ کیے گئے فیصلے کی پٹاری سے کوئی ایسا سانپ برآمد ہو گا جو ملکی خزانہ لوٹنے والو ں کو ڈس لے گا۔ جب کوئی دوست پوچھتا ہے کہ پاناما لیکس پر کس طرح کا فیصلہ آئے گا تو مجھے مولانا روم کی شہرہ آفاق مثنوی میں بیان کیا گیا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ محمود غزنوی کے دور میں لٹیروں کے ایک گروہ نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا۔ سرکاری اہلکار اس گروہ کا سراغ لگانے میں ناکام رہے تو سلطان نے بھیس بدل کر شہر میں گشت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک شب اس گینگ سے آمنا سامنا ہوا تو محمود غزنوی انہیں یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ بھی مصیبت کا مارا ہے اور لوٹ مار میں شریک ہو سکتا ہے۔ ٹھگوں نے بتایا کہ ان کا ہر ساتھی غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے۔ ایک ڈاکو کا کمال یہ ہے کہ وہ مٹی سونگھ کر بتا سکتا ہے کہ یہاں کونسا خزانہ دفن ہے۔ دوسرے کو یہ مہارت حاصل ہے کہ وہ کسی اوزار کے بغیر دیوار میں نقب لگا سکتا ہے۔ تیسرے کی خوبی یہ ہے کہ وہ جانوروں کی بولی سمجھ سکتا ہے۔ چوتھے کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رات کے گھپ اندھیرے میں دیکھے شخص کو بھی دن کی روشنی میں پہچان لیتا ہے۔ تمہارے پاس ایسا کون سا قابل ذکر فن ہے کہ تمہیں اپنے گروہ میں شامل کریں؟ محمود غزنوی نے کہا، میرے ایک اشارے پر سزایافتہ مجرم چھوٹ جاتے ہیں۔ لٹیروں نے سوچایہ تو کمال ہو گیا، اگر ہم کبھی لوٹ مار کرتے پکڑے بھی گئے تو یہ شخص ہمیں قانون کی گرفت سے بچا لے گا۔ پانچوں واردات کرنے نکلے۔ پہلے وارداتی نے سونگھ کر بتایا کہ اس گھر میں زمین کھود کر خزانہ چھپایا گیا ہے، دوسرے نے نقب لگانا شروع کی، اس دوران کتا بھونکنے لگا تو تیسرے نے متنبہ کیا،خبردار بادشاہ وقت ہمارے درمیان موجود ہے۔ سب نے اس کا مذاق اڑایا اور کہا کہ اسے کتے کی بات سمجھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔ واردات کرنے کے بعد سب اپنے گھروں کو چلے گئے۔ صبح ہوئی تو محمود غزنوی نے ان چاروں کو گرفتار کرکے دربار میں لانے کا حکم دیا۔ اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والا پکار اٹھا کہ تخت پر بیٹھا شخص تو ہمارا پانچواں ساتھی ہے۔ سب لٹیروں نے کہا، حضوروالا! باقی سب نے اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ دکھا دیا،اب آپ کا جادوئی اشارہ ہو تو ہم سب رہائی پائیں۔
مولانا روم کی مثنوی میں تو یہی لکھا ہے کہ محمود غزنوی نے ان لٹیروں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ شریک ِجرم نہ تھے مگرہمارے ہاں سب چور، لٹیرے اور ڈاکو اس لئے قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں کہ اقتدار اور اختیار کے سنگھاسن پر بیٹھے عصر حاضر کے ''غزنوی‘‘ ان کی تھالی کے ہی چٹے بٹے نکل آتے ہیں۔