"BGC" (space) message & send to 7575

بُل فائٹر

میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سیاست جیسا سنجیدہ معاملہ محض سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ فرانسیسی جرنیل، چارلس ڈی گلو
آپ نے یہ محاورہ تو سنا ہو گا ''آ بیل مجھے مار‘‘۔ میں نے بھی کئی بار پڑھا اور سنا مگر جس شخص نے مجھے جامعیت اور اختصار کے ساتھ اس محاورے کا مفہوم سمجھایا، وہ ہمارا حکمران ہے۔ لوگ کہتے ہیں ان کی پہلی حکومت صدر غلام اسحاق خان نے گرائی مگر میرا خیال ہے کہ وہ حکومت ان کے اپنے اس جملے سے ڈگمگائی ''میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ حالانکہ پھر صدر غلام اسحاق خان تو کیا جنرل عبدالوحید کاکڑ کی ڈکٹیشن لے کر گھر جانا پڑا۔ ہمارے وزیر اعظم خطروں کے وہ کھلاڑی ہیں‘ جنہیں جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے میں ہی لطف آتا ہے۔ محتاط طبیعت لوگ تو ایک مرتبہ پھسلنے کے بعد پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں مگر وزیر اعظم صاحب کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کی نظریں مسلسل انتظار میں رہتی ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ کرتب دکھائیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ اور جنرل جہانگیر کرامت ان کے مزاج سے واقف تھے‘ اس لیے کوئی موقع دیے بغیر گھر چلے گئے مگر جنرل پرویز مشرف نے سرخ رومال دکھانے پر نواز شریف کو اٹھا کر میدان سے باہر پٹخ دیا۔ اور اب تیسرے دورِ حکومت کی صورت میں جب سے یہ عظیم بُل فائٹر کھیل میں واپس آیا ہے منہ زور بیل کو سرخ جھنڈی دکھا کر اشتعال دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ بات ہمیشہ سے ان کے پیشِ نظر رہی ہے کہ گر جیت گئے تو کیا کہنے، ہارے بھی تو بازی مات نہیں یعنی بیل نے روند ڈالا تو سیاسی شہید کہلائیں گے اور اگر جیت گئے تو فاتح اور مرد میدان بن جائیں گئے۔
چرچل کے الفاظ مستعار لوں تو سیاست کا عمل بھی جنگ کی طرح ولولہ انگیز اور خطرناک ضرور ہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ میں تو آپ ایک بار رزق خاک ہو جاتے ہیں مگر سیاست میں کئی بار مرنا پڑتا ہے۔ مگر جنگ اور لڑائی کسی بھی قسم کی ہو، کامیاب جنگجو بیک وقت کئی محاذ کھولنے سے گریز کرتے ہیں اور ایک وقت میں ایک ہی لڑائی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں مگر ہمارے رہنما شروع سے چومکھی لڑائی کا شوق رکھتے ہیں۔ یعنی وہ ایسے بُل فائٹر ہیں جو بیک وقت کئی منہ زور سانڈوں کو سرخ رومال دکھا کر غصہ دلانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں‘ اور اس وقت تک جم کر میدان میں کھڑے رہتے ہیں جب تک یہ سب سانڈ ایک ساتھ حملہ آور نہ ہو جائیں۔ ان کا ایک اور نمایاں وصف یہ ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی اپنے اصولوں پر ڈٹے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر چند روز قبل جب ریاست کے ایک ماتحت ادارے نے وزیر اعظم ہائوس سے جاری ہونے والے ایک حکم نامے کو ٹویٹ کی نوک پر رکھا تو پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ان کے بدترین سیاسی مخالفین بھی ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے نظر آئے کہ یہ ایک منتخب وزیر اعظم کی توہین تھی۔ ٹوئٹر پر ان کے حق میں بنایا جانے والا ٹرینڈ ''آئی ایم وِد مائی پرائم منسٹر‘‘ ٹاپ ٹرینڈز میں مسلسل سرِفہرست تھا مگر اس دوران انہوں نے اوکاڑہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک کونے میں کھڑی بہنوں کا موازنہ تحریکِ انصاف کے جلسے میں شریک خواتین کے ساتھ کیا تو اس قومی یکجہتی کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور ایک مرتبہ پھر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے عمران خان نے دس ارب روپے کی پیشکش کا ذکر کیا تو میڈیا نے اپنی توپوں کا رُخ ان کی طرف کر لیا‘ لیکن وزیر اعظم صاحب نے حسب عادت مری میں بھارتی بزنس مین سجن جندل سے ملاقات کرکے پوری قوم کو سمجھایا کہ ''آ بیل مجھے مار‘‘ کا عملی مظاہرہ کیسے کیا جاتا ہے۔
اب ذرا فریقِ ثانی کا بھی ذکر ہو جائے۔ جن کا خیال ہے کہ تیسری مرتبہ گھر بھیجنے کی دھمکی دے کر اس بل فائٹر کے سارے کس بل نکال دیں گے، وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اگر ممکن ہو تو وہ کسی سے اس جنونی بچے کی کہانی سنیں جسے غلیل بازی کا شوق تھا۔ باپ (جسے آپ گاڈ فادر بھی کہ سکتے ہیں) نے تنگ آ کر اسے شہر سے باہر بھیج دیا۔ کئی سال بعد وہ ضدی بچہ واپس آیا تو باپ نے پوچھا ''بیٹا! اگر میں تمہیں گاڑی لے کر دوں تو کیا کرو گے؟‘‘ بچے نے کہا: میں گاڑی پہ بیٹھ کر جنگل میں جائوں گا، وہاں کسی درخت سے کوئی اچھا سا دو شاخہ تلاش کرکے غلیل بنائوں گا اور پھر گاڑی پہ بیٹھ کر نشانہ لگائوں گا۔ باپ سمجھ گیا کہ ایسے من موجی اور دھن کے پکے بچوں کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کر سکتے ہیں کہ جب بچے کی غلیل بازی حد سے بڑھنے لگے تو اس کا کھلونا چھین کر الماری میں رکھ دیں۔ کھلونا غلیل ہو یا جمہوریت، بچوں کے لیے اتنی سزا بہت ہوتی ہے۔ اگر بات سمجھ نہیں آئی تو ایک اور مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ عام تجربے اور مشاہدے کی بات یہ ہے کہ شیر کتنا ہی لاغر اور کمزور کیوں نہ ہو جائے، اسے آپ قید کرکے سرکس میں تماشا تو بنا سکتے ہیں لیکن حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں، شیر گھاس نہیں کھاتا۔ اگر مناسب سمجھیں تو یہ بات پلے باندھ لیں۔
آگے چل کر جو بھی ہو لیکن میاں صاحب کی اس بُل فائٹنگ کا فوری نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ خود مختاری کی ناحق تہمت کا بھرم بھی ختم ہو گیا ہے۔ اب میاں صاحب ایک ایسی صورتحال کا شکار ہو گئے ہیں جہاں آگے کنواں ہے تو پیچھے کھائی۔ ان کی اخلاقی اور سیاسی پوزیشن‘ جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پہلے ہی غیر مستحکم اور کمزور تھی‘ اب اس اعلانیہ انحراف کے بعد مزید کھوکھلی ہو چکی ہے۔ اب ان کے پاس دو ہی راستے ہیں کہ سویلین بالادستی کا بھرم پھر سے قائم کرنے اور حکومت کی رِٹ برقرار رکھنے کے لیے ٹویٹ کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کریں یا پھر قوم سے خطاب کریں، اپنی بے اختیاری اور بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہو جائیں اور اسمبلیاں تحلیل کرتے ہوئے از سر نو مینڈیٹ لینے کے لیے عوام کی عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیں۔ لیکن ان کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اپنے مزاج کے مطابق وہ اس وقت تک میدان نہیں چھوڑیں گے جب تک کوئی منہ زور بیل انہیں اپنے سینگوں پر اٹھا کر باہر نہ پٹخ دے۔ لیکن کوئی میاں نواز شریف جیسے عظیم بُل فائٹر، دھن کے پکے جنگجو اور پیدائشی خطروں کے کھلاڑی کو سمجھائے یا کم از کم بتائے کہ آپ اپنے ترک دوست طیب اردوان سے ہی کچھ سیکھ لیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کس طرح جیتی جاتی ہے۔ لڑائی کا پہلا اور بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ جب تک آپ جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تب تک طبل جنگ نہ بجائیں۔ تمام عذر، تمام تاویلیں اور تمام توجیہات اپنی جگہ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو اُڑنا نہیں آتا تھا تو پنگا کیوں لیا؟
چرچل کے الفاظ مستعار لوں تو سیاست کا عمل بھی جنگ کی طرح ولولہ انگیز اور خطرناک ضرور ہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ میں تو آپ ایک بار رزق خاک ہو جاتے ہیں مگر سیاست میں کئی بار مرنا پڑتا ہے۔ مگر جنگ اور لڑائی کسی بھی قسم کی ہو، کامیاب جنگجو بیک وقت کئی محاذ کھولنے سے گریز کرتے ہیں اور ایک وقت میں ایک ہی لڑائی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں مگر ہمارے رہنما شروع سے چومکھی لڑائی کا شوق رکھتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں