"BGC" (space) message & send to 7575

یہ سب میرے باپ کی دعا ہے

بہت سے افراد کا خیال ہوتا ہے کہ طلاق ہر بیماری کا اکسیر اعظم ہے لیکن اسے آزمانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاج تو مرض سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ امریکی مصنفہ الزبتھ گلِمر‘ جو ڈروتھی ڈِکس کے قلمی نامی سے مشہور تھیں۔
جب رشتوں کے نازک آبگینوں کو ٹھیس پہنچتی ہے تو ان کی ڈور سے بندھے انسان بھی ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزرتے ہیں‘ مگر علیحدگی کا فیصلہ کرتے وقت انہیں قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کنویں سے نکل کر کھائی میں جا گریں گے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ والدین کے اس غلط فیصلے کی سزا وہ معصوم بچے بھگتتے ہیں جو زندگی کی تلخ حقیقتوں سے قطعاً نابلد ہوتے ہیں۔ طلاق کے بعد سب سے پہلے بچوں کے حصول کے لیے والدین میں چھینا جھپٹی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ چونکہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ماں ہی بچوں کی بہتر پرورش کر سکتی ہے اس لیے عدالتی جنگ میں باپ کی ہار ہوتی ہے۔ قانون تو یہ کہتا ہے کہ بچوں کے مقدر کا فیصلہ کرتے وقت ان کی اپنی فلاح و بہبود کو پیش نظر رکھا جائے مگر سماجی دبائو کے پیش نظر ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان ماں کے حق میں ہی فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کا پسِ منظر یہ ہے کہ چونکہ ہمارے معاشرے میں شدت کا رجحان بکثرت پایا جاتا ہے، ہم اللہ کی رحمت بیان کرنے پہ آتے ہیں تو ہر گناہ گار و سیاہ کار کو یقین ہو جاتا ہے کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے، رحیم و کریم نے بخش ہی دینا ہے، اسی طرح جب ہم ربِِ قہار کے قہر کی تفصیل بیان کرنے لگتے ہیں تو سننے والے کو یوں لگتا ہے کہ جتنی مرضی نیکیاں کر لیں، اگر روز محشر وہ پکڑنے پہ آ گیا تو کسی صورت سزا سے بچنا ممکن نہیں۔ یوں ہر نیکوکار سوچتا ہے خواہ مخواہ کیوں کشٹ اٹھائیں، جب معافی تلافی مقدر کی بات ہے تو پھر آنند رہیں۔ اسی لیے ہم ماں کی عظمت بیان کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ نگوڑے باپ کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے۔ جب بچہ ماں کی کوکھ میں ہوتا ہے تو وہ پھولے نہیں سماتا، اپنی بیوی کے ناز نخرے اٹھاتا ہے، بچہ پیدا ہوتا ہے تو باپ اس کے مستقبل کے سپنوں میں کھو جاتا ہے، اس کی قلقاریوں پہ فدا ہوئے جاتا ہے، ننھی سی انگلیاں پکڑ کو چلنا سکھاتا ہے، اسے دنیا جہان کی نعمتیں اور راحتیں مہیا کرنے کے لیے زمانے بھر کی ٹھوکریں کھاتا ہے، جب تھکا ہارا باپ گھر آتا ہے، لختِ جگر ٹانگوں سے لپٹ جاتا ہے اور ''بابا‘‘ کہ کر بلاتا ہے تو عالمِ وارفتگی میں انسان سب غم بھول جاتا ہے اور بے پناہ مسرت سے نہال ہوئے جاتا ہے۔ ہمیں یہ تو پڑھایا جاتا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ ہماری زندگی کو بہشت بنانے کی کوشش میں جس شخص کی اپنی زندگی جہنم ہو جاتی ہے اس کا نام باپ ہے۔ اسی لیے ہمیں چمچماتی گاڑیوں اور عالیشان گھروں پر یہ جملہ تو دکھائی دیتا ہے کہ ''یہ سب میری ماں کی دعا ہے‘‘ مگر یہ الفاظ دیکھنے کو میری آنکھیں ترس گئیں کہ ''یہ سب میرے باپ کی دعا ہے‘‘ گاہے سوچتا ہوں‘ کیا باپ اپنے بچوں کے لیے دعا نہیں کرتا؟ سچ یہ ہے کہ ماں دعا کرتی ہے تو باپ دعا کے ساتھ دوا بھی کرتا ہے۔ بہرحال چند روز قبل ایسے ہی رنجیدہ اور ستم رسیدہ افراد سے ملاقات ہوئی جن کے لختِ جگر بیوی سے علیحدگی کی صورت میں ان سے جدا ہو گئے۔ سچ پوچھئے تو ان کی داستان الم سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
معاملہ محض بچوں کی سپردگی کا نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں طلاق اور خلع کی شرح بڑھ رہی ہے اس لیے سالانہ تقریباً ایک لاکھ بچوں کے مقدمات گارڈین کورٹس میں آتے ہیں۔ جو بچے والدین میں سے کسی ایک (بالعموم والدہ کے حوالے ہی کیے جاتے ہیں) کے سپرد کر دیے جاتے ہیں ان کے ساتھ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ایامِ طفولیت میں ہی انہیں یہ فیصلہ کرنے کو کہا جائے کہ وہ اپنی ماں یا باپ میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ یقینا ماں کا حق فائق ہے اور یہ بات تسلیم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ بالعموم ماں بچے کی بہتر نگہداشت کر سکتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچے کو باپ کی حاجت نہیں ہوتی یا اسے بچوں کی زندگی میں محض ایک ایسی اے ٹی ایم مشین کی حیثیت حاصل ہے‘ جسے محض پیسے نکلوانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے نظام عدل کا کمال یہ ہے کہ قیدیوں کو بھی مہینے میں دو اور بعض اوقات مہینے میں چار دن ملاقات کی سہولت فراہم کی جاتی ہے مگر باپ کو اپنی اولاد سے ملنے کے لیے مہینے میں محض دو گھنٹے دیے جاتے ہیں اور وہ بھی بخشی خانے میں۔ یعنی سال بھر میں باپ کے لیے محض ایک دن مختص ہے۔ ماں کا حق فائق ضرور ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سال بھر کے 12 مہینوں میں سے 3 مہینے بھی بچے کو شفقتِ پدری کے لیے مہیا نہ کیے جائیں۔
گارڈین کورٹ کے 12*16 کے کمرہ‘ جس میں باپ کو ملاقات کی اجازت دی جاتی ہے‘ میں ہفتہ وار 400 بچے اور ان کے والدین موجود ہوتے ہیں۔ اس قدر بھیڑ میں بچے کو یوں لگتا ہے جیسے وہ کوئی قیدی ہے اور اسے جکڑ کر ملاقات کے لیے لایا گیا ہے‘ اس لیے وہ چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں مائیں بچوں کی شخصیت پر پڑنے والے مضر اثرات سے قطع نظر ان کی ذہن سازی کچھ اس طرح سے کرتی ہیں کہ تمہارا باپ تو اس کائنات کا سب سے بُرا شخص ہے اور اسے تمہاری کوئی پروا نہیں‘ اس لیے ملاقات کے لیے دیا گیا ایک گھنٹہ تو بچے کی غلط فہمیاں دور کرنے میں ہی گزر جاتا ہے۔ باپ کی طرف سے بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے ادا کیا جانے والا خرچہ تو ہر سال دس فیصد کے حساب سے بڑھ جاتا ہے مگر ملاقات کے دورانئے میں اضافہ نہیں ہوتا۔ امتیازی سلوک کا یہ عالم ہے کہ باپ کے ساتھ بچے کی دادی، دادا، چاچو، پھپھو یا کسی بھی اور عزیز کو ملاقات کرنے کی اجازت نہیں‘ مگر ننھیال کی طرف سے کوئی قدغن نہیں۔ ماں نہ ہو تو نانا، نانی، ماموں کوئی بھی بچے کو لے کر آ سکتا ہے۔ بچے کے تمام اخراجات باپ اٹھا رہا ہوتا ہے، اس کے اسکول کی فیس باپ کی طرف سے ادا کی جا رہی ہوتی ہے‘ اسے (باپ کو) اتنا حق بھی نہیں کہ وہ اسکول جا کر اپنے بچے کا رزلٹ معلوم کر سکے یا پھر اس کی کارکردگی کے بارے میں بات کر سکے۔
اس معاملے کا ایک اور اذیت ناک اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ عدالتی ماحول کی وجہ سے نہ صرف بچوں کے ذہن پراگندہ ہوتے ہیں بلکہ مائوں کی طرف سے مسلسل برین واشنگ کی صورت میں بچے اسی باپ سے نفرت کرنے لگتے ہیں جو انہیں ملنے کی جستجو میں گھائل ہوا جاتا ہے۔ ماں کا دل ضرور نرم ہوتا ہے لیکن باپ کا دل اتنا کٹھور بھی نہیں ہوتا کہ اسے دودھ میں سے بال کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا جائے۔ عدالتیں اور کچھ نہیں کر سکتیں تو اتوار کا دن تو باپ کو دے سکتی ہیں کہ ہر ہفتہ کی شام باپ اپنے بچے کو لے جائے اور اتوار کی شام واپس پہنچا دے۔ اسی طرح اگر تین ماہ کی چھٹیاں ہیں تو کم از کم 15دن کے لیے بچے کو باپ کے پاس بھیج دیا جائے۔ اس ضمن میں اگر یہ اندیشہ ہو کہ باپ بچے کو لے کر رفوچکر نہ ہو جائے تو جس طرح ضمانت منظور کرتے وقت مچلکے لیے جاتے ہیں اسی طرح باپ سے بھی زرِضمانت کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ سے ملاقات تو نہیں مگر ان کے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں۔ اگر وہ انسانی بنیادوں پر اس معاملے کا نوٹس لے لیں تو یہ مجبور و لاچار فادرز کے ساتھ ساتھ نونہالانِ قوم پر عظیم احسان ہو گا۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں