"BGC" (space) message & send to 7575

بجٹ اور عام آدمی

جو لوگ جمہوریت کو سمجھنا چاہتے ہیں، وہ لائبریری میں ارسطو کی کتابوں کے ساتھ وقت ضائع کرنے کے بجائے بسوں اور بس اسٹیشنوں پر وقت گزاریں۔ روسی نژاد امریکی لکھاری سیمیون سٹراسکی 
اگر آپ جمہوریت کے خلاف بہترین رائے لینے کے خواہاں ہیں تو محض پانچ منٹ ایک عام ووٹر سے بات کرکے دیکھ لیں۔ ونسٹن چرچل
مجھے یقین ہے اگر محولہ بالا جملوں میں جمہوریت کے لفظ کو بجٹ سے بدل لیا جائے تو بھی چرچل اور سٹراسکی کے اس مشورے کی افادیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ لہٰذا بجٹ کو سمجھنا ہے تو ٹی وی چینلز پر براجمان معاشی ماہرین کی ناقابل فہم گفتگو سننے پر وقت ضائع کرنے اور اعداد و شمار کے پہاڑ سے سر ٹکرانے کے بجائے گلی محلے کے عام آدمی سے رجوع کرنا چاہئے۔ اسی سوچ کے ساتھ میںگھر سے نکلا تو رات کو پہرہ دینے والے چوکیدار گُل خان سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے اس سے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا، بجٹ میں توقعات کے برعکس کم از کم اجرت خاطر خواہ نہیں بڑھائی گئی اور محض ایک ہزار اضافے کے ساتھ پندرہ ہزار روپے کی گئی ہے۔ گل خان بہت دھیمے مزاج کا مہذب آدمی ہے لیکن نہ جانے کیوں میری اس بات پر اچانک بھڑک اٹھا اور اسحاق ڈار کی شان میں قصیدے پڑھنے کے بعد کہنے لگا ''صاحب! آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ یہ کم ازکم اجرت بڑھا کر پچاس ہزار بھی کر دیتے تو کیا فرق پڑتا؟ میں نے تو مہینے بعد ہر گھر سے 200 روپے ہی وصول کرنے ہوتے ہیں، وہ بھی کوئی دیتا ہے اور کوئی نہیں دیتا۔ میرا لڑکا ساتھ والی گلی کے اسکول میں سکیورٹی گارڈ ہے اور اس کی تنخواہ 12000 روپے ماہوار ہے۔ کیا اب اس کی تنخواہ بڑھ کر 15000 ہو جائے گی؟ یہ بجٹ تو بیکار اور فضول چیز ہے صاحب!‘‘
گُل خان کی باتوں نے اس قدر پریشان کیا کہ میں نے ایک اور دوست کو اس عوامی سروے کی مہم جوئی میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے پاس پہنچا تو ایک آفس بوائے منت سماجت کر رہا تھا کہ صاحب اکائونٹس والوں سے کہ کر ایڈوانس دلوا دیں یا ذاتی طور پر تھوڑا سا قرضہ دے دیں‘ میں نے قسطوں پر موٹر سائیکل لینی ہے‘ بہت دور سے آتا ہوں، وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور کرایہ بھی بہت لگ جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میرا دوست کوئی جواب دیتا، میں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا، حکومت نے موٹر سائیکل کی لیز پر تو 3 فیصد ٹیکس لگا دیا ہے‘ تم موٹر سائیکل کے بجائے ہائبرڈ الیکٹرک گاڑی کیوں نہیں لیتے‘ جس پر درآمدی ڈیوٹی کم کر دی گئی ہے اور پھر نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس بھی گھٹا دی گئی ہے۔ آفس بوائے کوئی جواب دینے کے بجائے یوں ہونّقوں کی طرح میرا منہ تکنے لگا‘ جیسے میں نے انتہائی غلط موقع پر کوئی فحش لطیفہ سنا دیا ہو۔ میں نے اپنے دوست کے سامنے مہم جوئی کا ارادہ ظاہر کیا تو وہ بمشکل میرے ساتھ جانے پر تیار ہوا۔ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو ایک بچے نے زبردستی گاڑی کی ونڈ اسکرین صاف کرنے کی کوشش کی۔ میں نے اسے 20 روپے دیتے ہوئے پوچھا، بیٹا! بجٹ تقریر سنی ہے تم نے۔ اس عوام دوست بجٹ کے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا؟ اس نے کہا، صاحب دو قت کی روٹی کے لئے یہاں گاڑیاں صاف کرتا ہوں، میرے تو فرشتوں کو بھی نہیں پتہ کہ بجٹ کب آتا ہے اور اس سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ میں نے اس کی لاعلمی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے اسمارٹ فونز پر درآمدی ڈیوٹی کم کر دی ہے اور موبائل فون کالز بھی سستی کر دی ہیں، دو وقت کی روٹی نہیں تو کیا ہوا، ویسے بھی رمضان المبارک شروع ہو چکا ہے، فاقوں کو روزہ سمجھ لو، اسمارٹ فون خریدو اور سستی فون کالز کے مزے لو۔ اس سے پہلے کہ وہ لڑکا اینٹ اٹھا کر ہماری گاڑی کی ونڈ اسکرین توڑ دیتا، ہم
وہاں سے نکل لیے۔
راستے میں سگنل پر گاڑی رُکی تو لاتعداد بھکاری منتظر تھے۔ میں نے شیشہ نیچے کرکے ایک معذور نوجوان کو آواز دی۔ وہ خوشی سے لپک کر قریب آیا تو میں نے اس سے بھی وہی سوال کیا کہ کیا تم نے بجٹ تقریر سنی ہے؟ وہ سمجھ نہ پایا کہ اس سوال کا پس منظر کیا ہے۔ میں نے وضاحت کرتے ہوئے اسے بتایا کہ حکومت نے شتر مُرغ پال اسکیم کو فروغ دینے کے لیئے شتر مُرغ پر عائد ڈیوٹی ختم کر دی ہے اور اب تم بھیک مانگنے کے بجائے اپنا کاروبار شروع کر سکتے ہو۔ ابھی وہ بھکاری کھا جانے والی نظروں سے گھور ہی رہا تھا کہ اشارہ کھل گیا اور میرے دوست نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ ان تلخ تجربات کے بعد فیصلہ کیاکسی میٹرو بس اسٹاپ پر گاڑی پارک کرکے وہاں موجود مسافروں سے بجٹ کے بارے میں رائے لی جائے۔ کسی نوجوان خاتون سے بات چیت کا کچھ اور مطلب اخذ کیا جا سکتا تھا اس لیے ایک کونے میں کھڑی معمر اور پڑھی لکھی خاتون سے مکالمہ کرنے کی نیت سے آگے بڑھے۔ ان سے پوچھا کہ گھر میں بجٹ بالعموم خواتین ہی بناتی ہیں اس لیے ان کی رائے بہت معتبر ہو سکتی ہے، کیا خیال ہے آپ کا‘ یہ بجٹ کیسا ہے؟ کہنے لگیں: یہاں تو ہر روز نیا بجٹ آتا ہے۔ چکن، چاول، دالیں، آٹا، چینی، سبزی اور پھل کے نرخ نامے ہر روز بدل جاتے ہیں۔ ہر پندرہ دن بعد پٹرول کی قیمتوں میں رد و بدل ہوتا ہے تو ایسے حالات میں کوئی بجٹ پر کان کیوں دھرے؟ یہ تو ایک فضول اور لاحاصل سی مشق ہے۔ میں نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا، لیکن اس فضول مشق سے بھی بہت فرق پڑتا ہے مہنگائی پر۔ مثال کے طور پر حالیہ بجٹ میں چاکلیٹ پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا اور بچوں کے ڈائپرز سستے کر دیے گئے ہیں۔ خاتون نے میری اس تاویل پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، اسحاق ڈار کے بچے چاکلیٹ کھاتے ہوں گے‘ ورنہ اس ملک کے بیشتر بچوں کو تو دودھ میسر نہیں جو بنیادی غذا ہے۔ انہوں نے دودھ پر ٹیکس لگا دیا اور ڈائپرز سستے کر دیئے‘ کوئی انہیں بتائے کہ بچے دودھ پئیں گے تو ڈائپرز کی ضرورت پڑے گی۔
اس خاتون سے گفتگو کرنے کے بعد میری ہمت جواب دے گئی اور عوام دوست بجٹ پر خود ساختہ عوامی سروے کا سلسلہ ترک کرنا پڑا۔ واپس آ کر پھر سے بجٹ دستاویزات پڑھنا شروع کیں تو انکشاف ہوا کہ آئندہ مالی سال کے دوران ملکی دفاع کے لیے تو 920 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے مگر قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 1363 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جس ملک کے اخراجات میں سب سے بڑی مد قرضوں پر سود کی ادائیگی ہو، بھلا اس کے جی 20 میں شامل ہونے کی توقع کیسے نہ کی جائے؟ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر سے پہلے سورہ آل عمران کی جو آیات تلاوت کی گئیں‘ ان میں سے ایک آیت کا مفہوم کچھ یوں ہے ''اللہ تعالیٰ بے جا اجاڑنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘ اس آیت کا ترجمہ ذہن میں رکھتے ہوئے بجٹ دستاویزات پڑھنا شروع کیں تو معلوم ہوا کہ گزشتہ برس حکومت نے وزیر اعظم ہیلتھ پروگرام کا چرچا کرنے پر 22.1 ارب روپے اجاڑ ڈالے۔ گزشتہ برس ایوان صدر کے یومیہ اخراجات 26 لاکھ روپے جبکہ وزیر اعظم ہائوس کے روزانہ کے اخراجات 25 لاکھ روپے تھے‘ جن میں اب مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جانے کس کا شعر ہے مگر ہمارے حکمرانوں کے مزاج کی خوب عکاسی کرتا ہے:
ہم نے ایسے اجاڑ دی جیسے
زندگی باپ کی کمائی ہو 
ملکی خزانے کو اجاڑنے والے بھی شاید اسے باپ کی کمائی سمجھتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں