''انتظامیہ بہت طاقتور ہو چکی ہے، عدلیہ بہت متکبر ہو گئی ہے اور مقننہ بہت بے وقوف ہو چلی ہے۔‘‘
محولہ بالا الفاظ ہیں امریکی مصنف لین ناف زائیگر کے جو نہ صرف کیلی فورنیا کے گورنر رہے بلکہ انہوں نے کئی امریکی صدور کے ساتھ کام بھی کیا۔ رونالڈ ریگن نے ناف زائیگر کو پریس سیکرٹری کے طور پر منتخب کیا تو رچرڈ نکسن نے انہیں اپنا مشیر مقرر کیا۔ ناف زائیگر نے ان تین طبقات کے بارے میں اس لیے تبصرہ کیا کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ریاستی امور انتظامیہ ،عدلیہ اور مقننہ کے گرد ہی گھومتے ہیں مگر غیر ترقی یافتہ ممالک میں ایک چوتھا فریق بھی ہے جسے کلیدی حیثیت حاصل ہے اور وہ ہے فوج۔ جب ہم آمریت کی بات کرتے ہیں تو بالعموم جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے والے جرنیلوں کا خیال آتا ہے حالانکہ آمریت کے کئی روپ اور چہرے ہوتے ہیں۔ گاہے جمہوریت کا دم بھرنے والی مقننہ آمریت کی راہ پر چل نکلتی ہے تو کبھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی انتظامیہ خود کو ظل سبحانی سمجھنے لگتی ہے۔ اسی طرح کبھی جرنیل بندوق کے زور پر ریاست کو یرغمال بنا لیتے ہیں تو کبھی جج جوڈیشل ایکٹواِزم کے ذریعے عدالتی مارشل لا مسلط کر دیتے ہیں۔ ٹیڈ کروز امریکی قانون دان اور سابق صدارتی امیدوار ہیں، وہ جوڈیشل ایکٹواِزم کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب جج صاحبان اپنی ذاتی ترجیحات پر مبنی پالیسیاں آئین کے الفاظ پر چسپاں کرنے لگتے ہیں تو یہ روش جوڈیشل ایکٹواِزم کہلاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور معروف قانون دان عدالتی اختیارات کے غلط استعمال کی بابت کہتے ہیں ''عدالتی اختیارات کا غلط استعمال تب ہوتا ہے جب جج قانون کے بجائے اپنے سیاسی
خیالات پر عمل کرنے لگتے ہیں‘‘۔ ہم نے پاکستان میں مقننہ کی آمریت تو نہیں دیکھی مگر ماضی میں منتخب حکومتوں اور فوجی ڈکٹیٹرز کی آمریت کا مزا چکھ چکے ہیں اور ان دنوں ہم ماضی کی جوڈیشل ایکٹواِزم کو بھگت رہے ہیں جس کا آغاز عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی کے بعد جسٹس افتخار چوہدری کی بطور چیف جسٹس واپسی سے ہوا۔ اس تحریک کے بعد بعض وکلا تو آپے سے باہر ہوئے ہی مگر عدلیہ بھی غرورِصالحیت کا شکار ہوگئی تھی اور رفتہ رفتہ یہ احساس تقویت پانے لگا کہ پورا معاشرہ گناہوں اور گندگی میں لتھڑا ہوا ہے،سارانظام گل سڑ چکا ہے،تمام ادارے نااہل اور بدعنوان ہیں اورسابقہ عدلیہ تباہی کے دہانے پر کھڑے اس معاشرے کی آخری امید ہے۔اسی احساس کے پیش نظر ماضی کے معزز جج صاحبان نے خود کو منصف کے بجائے مسیحااور نجات دہندہ سمجھنا شروع کر دیا۔سیاستدان تو راندہ درگاہ تھے ہی،تمام سول سرونٹس کوبھی ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جانے لگا اور بلا ناغہ انہیں عدالتوں میں طلب کرکے ان کی عزت نفس مجروح کی جانے لگی۔قدیم روایت تو یہ تھی کہ جج صاحبان خود نہیں بولتے بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں مگر اس کے برعکس ماضی کے جج صاحبان اپنے ریمارکس کے ذریعے سیاستدانوں کی طرح بیانات دینے لگے اور میڈیا نے بریکنگ نیوز کی دوڑ میں ان ریمارکس کو پس منظر اور پیش منظر کے بغیر خبروں کا حصہ بنانا شروع کردیا ۔اور اب تو کھلے عام حکومت کو سسلین مافیا اور وزیر اعظم کو گاڈ فادر جیسے القابات سے نوازاجانے لگا ہے۔
سسلین مافیا ہے کیا؟ اور کیا ہماری حکومت واقعی اس سے مشابہت و مماثلت رکھتی ہے؟ سسلی بحیرہ روم کا سب سے بڑا جزیرہ ہے جو اطالوی ریاست کے قیام سے پہلے جب آزاد اور خود مختار علاقہ تھا تو یہاں انڈر ورلڈ نے قدم جمائے جو مقامی طور پر ''کوسانوسٹرا‘‘ کے نام جانا جاتا تھا اور سسلی کی مناسبت سے اس نیٹ ورک کو سسلین مافیا بھی کہا جاتا۔ اسی اطالوی مافیا کے گروہ جب ہجرت کرکے امریکہ اور کینیڈا پہنچے تو وہاں بھی مجرمانہ نیٹ ورک قائم کیا جس پر ہالی ووڈ نے ''گاڈ فادر‘‘ سمیت متعدد فلمیں بنائیں۔ یہ مافیا مسلسل کئی صدیوں تک خوف اور دہشت کی علامت بنا رہا اور نوے کی دہائی تک اسے ریاست کے اندر ریاست کی حیثیت حاصل رہی۔ کئی پولیس افسر، پراسیکیوٹرز، جج اور سیاستدان اس مافیا کے خلاف بند باندھنے کی کوشش میں لقمہ اجل بنے۔ اس سلسلے کی آخری بڑی واردات مئی 1992ء میں ہوئی جب سسلین مافیا کے خلاف مقدمات سننے والے جج جیوانی فالکونی کو اس کی بیوی،
بچوں اور تین محافظوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ خواہ انتظامیہ ہو، عدلیہ، مقننہ یا پھر فوج، سب اس مافیا کے آستانے پر سجدہ ریز ہوتے۔ اس منظر کشی کے تناظر میں اب آپ خود ہی یہ فیصلہ کر لیں کہ پاکستان میں سسلین مافیا اور حقیقی گاڈ فادر کون ہے لیکن میں جب حکومت پاکستان کے بارے میں سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ یہ کیسا لولا لنگڑا، بے بس اور لاچار مافیا ہے۔ اگر یہ سِسلین مافیا ہے تو پھر اس کے ہر سربراہ کو نشان عبرت کیوں بنا دیا جاتا ہے؟ لیاقت علی خان شہید ہوئے، بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، نواز شریف کو جلا وطن کر دیا گیا، یوسف رضا گیلانی نااہل قرار پائے اور اب پھر نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ یہ کیسا مافیا ہے جس کے سربراہ جونیجو اور جمالی جیسے مرنجاں مرنج سیاستدان بھی ہوں تو دودھ میں سے بال کی طرح نکال کر باہر پھینک دیے جاتے ہیں؟
سچ تو یہ ہے کہ آج تک اس ملک میں یہ نگوڑے سیاستدان ہی ہیں جو ہر دور میں احتساب کی ٹکٹکی پر بندھے رہے ہیں۔ کسی فوجی افسر کے خلاف شکایت ہو تو فوجی عدالت ہی اس کے خلاف سماعت کا اختیار ر کھتی ہے۔ معزز عدلیہ کے کسی جج کا کردار کہیں زیر بحث نہیں آ سکتا، سپریم جوڈیشل کونسل میں اس کی اپنی قبیل کے لوگ ہی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں مگر ''سسلین مافیا ‘‘ کے یہ نمائندے‘ انہیں کسی بھی چوراہے میں لٹکایا جا سکتا ہے۔ عوام کی عدالت تک لے جانے کی تو نوبت ہی نہیں آتی اور نہ کوئی اس کا فیصلہ تسلیم کرتا ہے۔ ہاں البتہ اس کے علاوہ بہت سے آپشنز کھلے ہیں۔ میڈیا کی عدالت چاہے تو وہ احتساب کرے، دل کرے تو فوجی عدالتوں میں گھسیٹیں، من چاہے تو احتساب عدالتوں میں لے جائیں، ضروری سمجھیں تو نیب کی خدمات حاصل کریں، جی نہ بھرے تو اینٹی کرپشن میں مقدمہ کریں اور پھر بھی تسلی نہ ہو تو ماضی کی طرح آئینی عدالتوں کو ٹرائل کورٹ بنا لیں۔ اہل سیاست بیچارے، احتساب کے مارے، شاید محسن نقوی نے ان کے بارے میں ہی کہا تھا:
میں مانتا ہوں عدالت کی دسترس کو مگر
میں کیا کروں مرے ہر طرف کٹہرے ہیں
پھر بھی ان ناہنجاروں پر سسلین مافیا کی تہمت... اور کیوں نہ لگے؟ جب آصف علی زرداری جوڈیشل ایکٹواِزم کی زد میں تھے تو جناب نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ جا پہنچے۔ میرے سامنے 30 جون 2010ء کا اخبار پڑا ہے جس کے صفحہ اول پر سب سے اوپر نواز شریف کا بیان جگمگا رہا ہے۔ ''حکومت عدلیہ کو آنکھیں دکھا رہی ہے اور لڑائی مول لینے کی کوشش کر رہی ہے‘‘ سانچ کو آنچ نہیں۔ آج قائد حزب اختلاف پرانا ادھار چکانے کی کوشش میں اس سے ملتے جلتے بیانات دے رہے ہیں تو جی میں کیسا ملال رکھنا۔ جو لوگ اپنی ڈاڑھی دوسروں کے ہاتھ میں دینے کی روش رکھتے ہوں، جو دیگر اداروں کے برعکس خود ایک دوسرے کا احتساب کرنے کے بجائے دوسروں کے ذریعے ایک دوسرے کی تلاشی لینے کے خواہاں ہوں، ان کے ساتھ یہ سب کیوں نہ ہو، ان کے چاروں طرف کٹہرے کیوں نہ ہوں اور انہیں سسلین مافیا ایسے القابات سے کیوں نہ نوازا جائے؟