"BGC" (space) message & send to 7575

شطرنج کا بے مول بادشاہ

سیاست میں کچھ بھی حادثاتی طور پر نہیں ہوتا، اگر کوئی حادثہ بھی ہو تو آپ شرطیہ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ سابق امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ۔
مجھے کبھی شطرنج کی بازی میں دلچسپی نہیں رہی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ میرے ناپسندیدہ اور ناگوار ترین کھیلوں میں سے ایک ہے‘ مگر گپتا کے دور سے متعارف ہونے والا یہ کھیل انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا ہونے کے بعد بھی دنیا بھر میں مقبول ہے۔ سنا ہے آج کل شطرنج کے کھیل پر یورپ کی اجارہ داری ہے۔ اس بازی میں دلچسپی رکھنے والے دوست بتاتے ہیں کہ 64 خانوں پر مشتمل شطرنج کی بساط پر چال چلنے کے امکانات کائنات کے کھرب ہا الیکٹرونز سے بھی زیادہ ہیں۔ انہی امکانات کے پیش نظر شطرنج کے موجد ریاضی دان کا وہ غیر مصدقہ واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے جس نے ہندوستانی راجہ سے بطور انعام شطرنج کے ہر خانے میں پہلے سے دوگنا چاول رکھنے کی فرمائش کی تھی۔ راجہ نے اس فرمائش کو بہت ادنیٰ اور حقیر گردانتے ہوئے فوری طور پر پورا کرنے کا حکم دیا مگر 30 خانوں تک پہنچنے کے بعد ریاست کے گوداموں میں پڑا تمام چاول ختم ہو گیا۔ سرتوڑ کوشش کے باوجود جب راجہ یہ فرمائش پوری کرنے میں ناکام رہا تو اس نے شطرنج ایجاد کرنے والے اس ریاضی دان کو اپنا مشیر بنا لیا۔
شطرنج دو یا دو سے زائد کھلاڑی مل کر کھیل سکتے ہیں اور مروجہ قوانین کے مطابق ان کھلاڑیوں کے پاس بادشاہ، وزیر، دو اونٹ، دو ہاتھی اور آٹھ پیادے مہروں کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ سب سے اہم مہرہ وزیر ہوتا ہے جسے انگریزی میں کوئین کہتے ہیں۔ اہمیت یا قدر و قیمت کے حوالے سے تولا جائے تو اس کا وزن 9 سپاہیوں کے برابر ہوتا ہے جنہیں پیادہ کہتے ہیں۔ وزیر کے بعد رُخ یا ہاتھی سب سے گرانقدر مہرہ سمجھا جاتا ہے جو 5 پیادوں جتنی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی طرح گھوڑا تین پیادوں کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ دلچسپ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شطرنج کے کھیل میں بادشاہ بے مول ہوتا ہے۔ کھلاڑی مروجہ قوانین کے مطابق اپنے مہروں کو آگے بڑھاتے ہیں اور بادشاہ کا محاصرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ضابطے کے مطابق سپاہی پہلی چال میں تو دو قدم آگے جا سکتا ہے مگر پھر اس کی حرکت ایک قدم تک محدود ہو جاتی ہے کیونکہ وہ پیادہ ہے۔ پیادے کی ایک اور مجبوری اور لاچاری یہ ہے کہ وہ پسپائی اختیار کرتے ہوئے پیچھے نہیں ہٹ سکتا، اسے بس آگے ہی بڑھنا ہے۔ گھوڑے کی خوبی یہ ہے کہ کھلاڑی چاہے تو اسے جمپ کروا سکتا ہے اور یوں یہ ایک ہی جست میں اڑھائی قدم کی چھلانگ لگا سکتا ہے۔ رُخ یا ہاتھی افقی یا عمودی سمت میں آگے بڑھتا ہے مگر اسے ایک سیدھ میں چلاتے ہوئے کسی بھی خانے تک لایا جا سکتا ہے۔ وزیر چونکہ سب سے اہم مہرہ ہے اس لئے یہ سیدھا بھی چل سکتا ہے اور ٹیڑھا بھی۔ باالفاظ دیگر شطرنج کی بساط بھی ایک چھوٹا سا میدان جنگ ہے جہاں سپہ سالار پیادوں، گھڑ سواروں، رتھ سواروں اور فیل بانوں کے ہمراہ پیش قدمی کرتا ہے اور اس کا مقصد بادشاہ کا گھیرائو کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ سرنڈر کر دے اور گیم اینڈ ہو جائے۔ مد مقابل کھلاڑی تگڑا ہو تو وہ کوئی چال چلتے ہوئے بادشاہ کو اس محاصرے سے نکال بھی سکتا ہے لیکن جب سپاہی، وزیر، ہاتھی، گھوڑے اور اونٹ بادشاہ کا تحفظ نہ کر پائیں تو بازی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ تو ہے شطرنج کا وہ طریقہ جو دنیا بھر میں رائج ہے مگر ہمارے ہاں شطرنج کا کھیل بہت انوکھا اور نرالا ہے۔ پاکستان میں کھیلی جا رہی شطرنج کی بازی کا سب سے بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کا کوئی اصول نہیں۔ کبھی شطرنج بادشاہوں کا چنیدہ اور پسندیدہ کھیل ہوا کرتی تھی مگر ہمارے ہاں یہ ''بادشاہ گروں‘‘ کا محبوب مشغلہ سمجھی جاتی ہے۔''بادشاہ گر‘‘ چاہے تو ہاتھی ٹیڑھا چلنے کے بجائے سیدھا پیش قدمی کرتا اور سب کچھ روندتا ہوا وہاں تک پہنچ جائے جہاں کسی مہرے کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اشارہ نہ ہو تو سپاہی بے حس و حرکت کھڑا نہیں بلکہ پڑا رہے اور اذن ہو تو اپنی حیثیت سے بڑھ کر ایک ساتھ کئی قدم اٹھا لے۔ بالعموم وزیرکو یہ صلاحیت ودیعت کی گئی ہے کہ وہ ٹیڑھا یا سیدھا چل سکتا ہے مگر ''بادشاہ گر‘‘ چاہے تو بادشاہ کو گھٹنوں کے بل چلنے پر مجبور کر دے۔ پاکستان میں رائج فری سٹائل شطرنج کی بساط سے کسی بھی مہرے کو کسی بھی وقت باہر بٹھایا جا سکتا ہے اور کسی نئے مہرے کو کھیل کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ گویا جو چاہے ''ان کا‘‘ حسن کرشمہ ساز کرے۔ ''بادشاہ گر‘‘ چاہے تو روایتی مہروں کو ہٹا کر نئی بساط بچھائے اور نئے مہرے سامنے لے آئے مثلاً گھوڑے کو گدھے سے بدل دیا جائے اور اونٹ کی جگہ کسی منہ زور بیل کو کھیل کا حصہ بنا دیا جائے۔ جب ہمارے ہاں شطرنج کی بازی عروج پر ہوتی ہے، بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ذہین و فطین کھلاڑی اپنے مخالفین کو عمدہ ترین چالوں کے بل پر پٹخ رہے ہیں اور کانٹے دار مقابلہ ہو رہا ہے۔ لوگ دم سادھے اور ٹکٹکی باندھے منتظر ہوتے ہیں کہ اس کھیل کا انجام کیا ہو گا؟ کس کو مات ہو گی اور کس کی جیت؟ اچانک پردہ اٹھتا ہے تو سب بے ساختہ کہ اٹھتے ہیں ''دھت تیرے کی‘‘ یہ تو پاکستانی اسٹائل شطرنج تھی جس کی بساط کے دونوں طرف ''بادشاہ گر‘‘ براجمان تھا اور خود ہی دونوں طرف سے چالیں چل رہا تھا۔ وہ جو خود کو کھلاڑی اور مخالفین کو اناڑی سمجھ رہے تھے وہ بیچارے تو محض اس شطرنج کی بازی کے مہرے تھے جنہیں بادشاہ کا گھیرائو کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ کھیل کے دوران پہلے سے دھوکہ کھائے ہوئے لوگ کھلاڑیوں کو سمجھاتے ہیں کہ تمہاری حیثیت پیادوں کی سی ہے جو پیچھے نہیں ہٹ سکتے، تم خود کو کھلاڑی سمجھنے کی غلطی نہ کرو اور اس بساط کے مہرے نہ بنو، تم سے پہلے ہم بھی دھوکہ کھا چکے ہیں مگر بادشاہ کو گرانے کی خواہش میں یہ کھلاڑی کسی کی نہیں سنتے۔
''بادشاہ گر‘‘ جب بساط جما کر اور ہاتھی گھوڑے لا کر کسی ''بادشاہ ‘‘ کا گھیرائو کرتا ہے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر پاتا یا پھر کسی غلط چال کے نتیجے میں بے نقاب ہونے لگتا ہے تو بھی اس کے پاس سب سے مہلک چال موجود ہوتی ہے کہ وہ شکست سے بچنے کے لئے پوری بساط ہی پلٹ دے۔ ایک مرتبہ پھر سیاسی بساط پر براجمان بادشاہ گھیرے میں آ چکا ہے مگر جمع خاطر رکھیں اس مرتبہ بساط لپیٹے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ ''دھاندلی کے ہاتھی‘‘ نے تو پورس کے ہاتھیوں کی طرح اپنے ہی فوج کو روند ڈالا تھا چنانچہ اس مہرے کے پٹ جانے کے بعد ''احتساب کا منہ زور بیل‘‘ سامنے لایا گیا۔ اس ''منہ زور‘‘ بیل کا مقصد بادشاہ کو اٹھا کر بساط سے باہر پھینکنا نہیں بلکہ بار بار اٹھا کر کچھ ایسے پٹخنا ہے کہ وہ پھر سے اٹھنے کے قابل نہ رہے۔ اسے شطرنج کی بساط پر گرانے کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کی نظروں سے گرا دیا جائے۔ ''بادشاہ گر‘‘ کا مقصد اور مطمح نظر تو محض یہ بتانا ہے کہ تمہارا بادشاہ بے مول ہے، اس کی کوئی وقعت و حیثیت اور اہمیت نہیں، ہم جب چاہیں اس بے مول بادشاہ کو اٹھا کر بساط سے باہر پھینک دیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں