18جولائی 2018،بروز منگل
بمقام دائمی مستقر
عزیزان ِگرامی !
ہم پارسی بھی موت کے بعد ابدی زندگی پر یقین رکھتے ہیں ۔ہماراعقیدہ ہے کہ جب روح جسم سے الگ ہونے کے بعد دوسرے جہان میں پہنچتی ہے تو اسے ''ججمنٹ برج‘‘ پر رکھ دیا جاتا ہے ،جہاں انسان کے اچھے اور برے اعمال کا حساب ہوتا ہے۔میں عدلیہ سے وابستہ اپنے دوستوں کو محض یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں دی گئی ہر ججمنٹ کا حساب یہاں ''ججمنٹ برج‘‘ پر دینا پڑتا ہے۔میں یہاں بہت مطمئن اور خوش ہوں لیکن گزشتہ چند ماہ سے عدالتوں میں جو تماشا جاری ہے اس نے بہت مضطرب کر دیا ہے ۔کل جسٹس نسیم حسن شاہ اور جسٹس مشتاق حسین سے ملاقات ہوئی تو اس دور کی یادیں تازہ ہو گئیں جب ہم سب منصف کے منصب پر براجمان تھے۔نوازشریف کے خلاف تو براہ راست سپریم کورٹ کو ہی ٹرائل کورٹ بنا لیا گیا ہے اور اب اگر ان کے خلاف فیصلہ آیا تو ان کے پاس نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا مگر بھٹو کے خلاف ہائیکورٹ کے فل بنچ نے فیصلہ دیا اور یوں انہیں انصاف کے حصول کے لیے دو اپیلیں دائرکرنے کا موقع مل گیا۔جس طرح سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بنچ نے پانامہ کا مقدمہ سنا اسی طرح بھٹو کے خلاف ہائی کورٹ کے پانچ رُکنی بنچ نے سماعت کی۔اس بنچ میں جسٹس مشتاق حسین ،جسٹس ذکی الدین پال ،جسٹس ایم ایچ ایس قریشی ،جسٹس گلباز خان اور جسٹس آفتاب حسین شامل تھے۔میری رائے یہ تھی کہ جب بھٹو کی طرف سے بنچ کے سربراہ جسٹس مشتاق حسین پر تعصب اورذاتی عناد کا الزام عائد کیا گیا ،انہیں اسی وقت اس بنچ سے علیحدہ ہو جانا چاہئے تھا۔جس طرح آج نوازشریف کا دفاع کرنے والے وکلاء دہائی دے رہے ہیں کہ یہ مقدمہ قانونی نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے اسی طرح اس وقت کے وکلا ئے صفائی بھی چیختے چلاتے رہ گئے مگر ان کے دلائل نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئے۔جب بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت جاری تھی تو انسانی حقوق کی بہت سی تنظیمیں اور عالمی ماہرین قانون اس پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے ۔امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک کا خیال تھا کہ استغاثہ کے پاس الزام ثابت کرنے کے لیے شواہد ناکافی ہیں۔فرانسیسی وکیل موسیو اٹینے جاڈل جو اس مقدمے جا ئزہ لینے کے لیے بالخصوص پاکستان آئے ان کی رائے میں اس مقدمے میں بیشمار تضادات تھے ۔ایک اور فرانسیسی وکیل موسیو رابرٹ باڈیز نے تو اپنے مختصر تبصرے سے سمندر کو کوزے میں سمیٹ دیا ۔انہوں نے کہا:
''History will judge the judges ‘‘
18مارچ 1978ء کو جب جج صاحبان اپنی وگیں زیب سر کیے کمرہ عدالت میں تشریف لائے تو بلا مبالغہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ۔حاضرین کے دلوں کی دھڑکیں اس وقت تھم سی گئیں جب بنچ کے سربراہ جسٹس مشتاق حسین نے قتل کے اس مقدے میں ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کے قیدی نمبر 3183کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنادی۔
میںنے کل ہی جسٹس مشتاق حسین سے پوچھا کہ آپ نے مقبول فیصلہ دیایا پھر بھٹو نے دوران سماعت آپ سے جو سخت باتیں کہی تھیں ان کا غصہ کرتے ہوئے موت کی سزا سنائی ؟جسٹس مشتاق حسین ہنستے ہوئے کہنے لگے ''آپ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کوئی وجہ نہیں تھی ۔بس ہر جج آپ کی طرح بہادر تو نہیں ہوتا‘‘بہر حال ہائیکورٹ کے جج صاحبان کا امتحان لینے کے بعد تاریخ نے سپریم کورٹ کے ججز کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔جب اپیل دائر کی گئی تو تمام ججوں پر مشتمل 9رُکنی بنچ تشکیل دیا گیا ۔جس میں چیف جسٹس انوارالحق ،جسٹس قیصر خان ،جسٹس محمد حلیم ،جسٹس غلام صفدر شاہ ،جسٹس کرم الہیٰ چوہان ،جسٹس نسیم حسن شاہ اور میں یعنی جسٹس دراب پٹیل شامل تھے۔30جون 1978ء کو جسٹس قیصر خان اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو گئے 20 نومبر1978ء کو جسٹس وحید الدین احمد پر فالج کا شدید حملہ ہوا جس کے بعد میڈیکل بورڈنے انہیں معذورقرار دیدیا یوں فیصلے کی ذمہ داری باقی ماندہ سات ججوں کے کندھوں پر آن پڑی۔اپیل کی سماعت کے دوران دونوں طرف کے وکلاء نے بھی دلائل دیئے مگر خود بھٹو نے اپنے جوش خطابت سے ماحول گرما دیا۔ایک روز انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہا''میرے خلاف بنایا گیا مقدمہ جھوٹ کا پلندہ ہے،گھنائونے پلاٹ والا ایک ناول اور من گھڑت داستان ہے۔یہ سب ایک افسانہ ہے ،ایک مریض ذہن کی یاوہ گوئی اور مکروہ خیال کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘۔ہائی کورٹ کے فیصلے میں انہیں ''جبری جھوٹا‘‘ قرار دیا گیا تھا ،انہوں نے اس پر بھی شدید احتجاج کیا۔2فروری1979ء کو فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ۔جسٹس انوارالحق چیف جسٹس اور بنچ کے سربراہ تھے ،انہوں نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے بھٹو کی اپیل مسترد کر دی ۔جسٹس اکرم ،جسٹس کرم الہیٰ چوہان اور جسٹس نسیم حسن شاہ ان کے ہمنوا تھے جبکہ مجھ سمیت تین ججوں نے اس فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا ۔جسٹس غلام صفدر شاہ نے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ اس مقدمے کا فیصلہ وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کے بعض بیانات کی بنیاد پر کیا گیا ہے جو سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہیں اور بطور شہادت قابل قبول نہیں ہو سکتے۔علاوہ ازیں وعدہ معاف گواہ بذات خود بھی قابل اعتماد نہیں۔انہوں نے یہ بھی لکھا کہ بھٹو اور مسعودمحمود کے درمیان قتل کی سازش کرنے کا جرم ثابت نہیں کیا جا سکا۔جسٹس محمد حلیم نے جسٹس غلام صفدر شاہ کی بات سے اتفاق کیا جبکہ میں (جسٹس دُراب پٹیل) نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ مسعود محمود کوئی قابل اعتبار گواہ نہ تھااور اس قسم کے مقدمے میں اس سے کہیں زیادہ معتبر شہادت درکار تھی۔سنیارٹی لسٹ کے مطابق مجھے سپریم کورٹ کا آئندہ چیف جسٹس مقرر کیا جانا تھا لیکن جب ضیاء الحق نے 24مارچ 1981ء کو پی سی او جاری کرتے ہوئے تمام جج صاحبان کو اس کے تحت حلف لینے کا کہا تو میں نے حلف اٹھانے سے انکار کر دیا اور مستعفی ہو گیا مگر باقی دو جج صاحبان جنہوں نے ضیاء الحق کی خواہشات کے برعکس اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا اور بھٹو کو بے گناہ قرار دیا انہیں نشان عبرت بنا دیا گیا۔
رابرٹ باڈیز کے الفاظ مستعار لوں تو آج پھر انصاف کی کرسی پر بیٹھے میرے قابل احترام دوستوں کو تاریخ کی جانب سے ایک کڑے امتحان کا سامنا ہے۔وہ جو بھی فیصلہ کریں گے ،اسے تاریخ پرکھے اور جانچے گی ۔اس فیصلے کے اثرات اور نتائج نہ صرف ملکی معیشت،جمہوریت اورسیاسی استحکام پر مرتب ہونگے بلکہ خود عدلیہ کے بارے میں بھی یہ تعین ہو گاکہ آیا وہ ابھی تک جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کے تحت مقبول فیصلے دینے کی روش برقرار رکھے ہوئے ہے یا پھر انصاف اور قانون پر مبنی فیصلے کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ معاملہ چونکہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لیے میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ۔البتہ امریکی قانون دان اور مصنف رابرٹ گرین انگرسول کے ایک قول کا حوالہ ضرور دوں گا شاید یہ غور و فکر کے نئے زاویئے فراہم کر سکے۔'' انصاف کو اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی اتارنی چاہئے تاکہ بُرے اور بدقسمت میں فرق کیا جا سکے ۔‘‘
آپ کا خیرخواہ اور محب وطن پاکستانی
جسٹس (ر) دُراب پٹیل
(نوٹ :اگرچہ یہ مراسلہ کیلبری فونٹ میں نہیں لکھا گیا تاہم غیر مصدقہ ہے، فریقین اسے بطور شہادت عدالت میں پیش کرنے سے گریز کریں)