"BGC" (space) message & send to 7575

سب کے اپنے روہنگیا

عیدالاضحی پر قربانی کرنا اچنبھے کی بات تو نہیں مگر نہ جانے کیوں اس بار جب قصائی کو بکرے کے حلقوم پر چھری پھیرتے دیکھا تو جھرجھری سی آ گئی اور یوں لگا جیسے زمین پر لٹایا گیا یہ بکرا روہنگیا ہے اور گردن کاٹنے والا قصائی کوئی بدھ قوم پرست۔ اس تشبیہ کا کریڈٹ ان سوشل میڈیائی مجاہدین کو جاتا ہے جنہوں نے سابق اراکان اور موجودہ رخائن میں مسلمان اقلیت پر ڈھائے جا رہے حقیقی مظالم کی جھوٹی تصاویر شیئر کرکے ماحول گرما دیا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے سوشل میڈیا استعمال کرنے سے قاصر ہوں کیونکہ ہر دوسری پوسٹ ان انسانیت سوز مکروہ مناظر سے متعلق ہوتی ہے جنہیں دیکھنے کے لئے ڈھٹائی اور بے حیائی کا وافر مقدار میں دستیاب ہونا ضروری ہے۔ جلتے ہوئے گھر، اپنی مردہ مائوں کی بے گور و کفن لاشوں سے لپٹے شیر خوار بچے، پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے بے بس و لاچار لوگ اور دوسری طرف 'روہنگیا بُو روہنگیا بُو‘ پکارتے بدھ قوم پرست، میری تو راتوں کی نیند اور دن کا سکون برباد ہو گیا ہے۔ آنکھ لگتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی بدھسٹ اپنے خون آلود بھالے سے میرا پیٹ پھاڑ ڈالے گا۔ گھبرا کر اٹھ بیٹھتا ہوں اور اس معاملے کے تاریخی پس منظر کی کھوج لگاتا ہوں تو غیر جانبدار تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ اس کشمکش کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ انتقام کی آگ ہے جسے قوم پرستی کے جذبات نے مہمیز کیا ہے۔ برما بھی پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی طرح برطانیہ کی کالونی ہوا کرتا تھا۔ جب برما کے لوگوں نے برطانوی سامراج کے خلاف جاپان سے مل کر آزادی کی جنگ لڑی تو برطانیہ نے جنگ عظیم اول اور دوئم کے دوران اس خطے سے ایک بہت بڑی فوج تیار کی جو آج نیپال، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش پر مشتمل ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس خطے کے گورکھا سپاہیوں نے برما کی جدوجہد آزادی کو دبانے میں کلیدی کردار ادا کیا‘ اور لگ بھگ نوے ہزار ہندوستانی فوجی برما میں لڑتے ہوئے مارے گئے‘ جن کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے برطانیہ نے تیس ہندوستانی فوجیوں کو سب سے بڑا فوجی اعزاز وکٹوریہ کراس دینے کا فیصلہ کیا۔ ان میں سے بہت سے فوجی واپس آنے کے بجائے برما میں ہی رچ بس گئے‘ جن کی یاد میں شمشاد بیگم نے گانا گایا ''میرے پیا گئے رنگون، وہاں سے کیا ہے ٹیلیفون کہ تیری یاد ستاتی ہے‘ جیا میں آگ لگاتی ہے‘‘۔ یہ بھی ایک تاریخی حوالہ ہے کہ برما کی جدوجہدِ آزادی کے اس فیصلہ کن مرحلے میں اراکان کے رہائشی مسلمانوں‘ جو اپنا تعلق جہاز رانوں کی نسل سے بتاتے ہیں، نے اپنا وزن برطانوی افواج کے پلڑے میں ڈال دیا۔ جب تقسیمِ ہندوستان کے چند ماہ بعد برما کو آزادی ملی‘ تو مسلمان اقلیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا‘ مگر شکوک و شبہات نے تشدد کا روپ تب دھارا جب فوجی جنتا نے اقتدار سنبھالتے ہی برما کا نام بدل کا میانمار جبکہ اراکان کا نام تبدیل کرکے رخائن کر دیا‘ اور یہاں آباد روہنگیا مسلمانوں کو برمی شہری تسلیم نہ کرتے ہوئے ملک چھوڑنے کا الٹی میٹم دے دیا۔ اس دوران پہلی ہجرت ہوئی تو تین لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے بھارت میں پناہ لے لی‘ اور کچھ روہنگیا کراچی اور ڈھاکہ میں آ بسے۔ اس دوران مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا‘ تو وہاں کی حکومت نے روہنگیا اقلیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اب صورتحال یہ ہے حالات کے ستائے اور تنگ آئے ہوئے روہنگیا سمندری راستے سے چوری چھپے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو بنگالی کوسٹ گارڈ ان پر گولیاں برساتے ہیں‘ اور یوں ان کے سفینے کھلے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔ اسی ادھیڑبن میں دفعتاً یہ خیالِ خام درِ احساس پر دستک دیتا ہے کہ اس مسئلے کی اٹھان مذہبی ہے یا قومی، اس سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے؟ مرنے والوں کو اس بات سے کیا غرض کہ کسی مذہبی عِلت کے پیش نظر ان پر زندگی کی راہیں مسدود کی گئیں‘ یا پھر انتقامی جبلّت کے تحت ان کے گھر جلائے گئے؟ کچھ بھی ہو یہ انسانی المیہ تو ہے جس کی غیر مشروط مذمت از حد ضروری ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کے مصائب و آلام کا ایک مرتبہ پھر چرچا ہوا تو یہ بھید بھی کھل گیا کہ ترکی امت مسلمہ کا قائد اور آنکھوں کا تارا کیوں ہے۔ انتیس اگست کو یعنی عید سے چند روز قبل ترکی کے نائب وزیر اعظم محمت سمسیک نے روہنگیا مسلمانوں کی چار تصاویر ٹویٹ کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ روہنگیا اقلیت پر ڈھائے جا رہے مصائب کا ادراک کرے۔ یہ تصویریں کسی سوشل میڈیائی مجاہد نے لگائی ہوتیں‘ تو بات آئی گئی ہو جاتی مگر یہاں معاملہ ترک نائب وزیر اعظم کا تھا‘ تو عالمی میڈیا نے محدب عدسہ لے کر جانچ پڑتال شروع کر دی کہ یہ تصاویر جعلی ہیں یا اصلی اور اگر حقیقی ہیں تو کس علاقے کی ہیں۔ جستجو پر معلوم ہوا کہ ایک تصویر سمندری طوفان نرگس سے متاثرہ افراد کی ہے‘ دوسری افریقی ملک روانڈا میں لی گئی، تیسری انڈونیشیا کی ہے اور چوتھی مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی جدوجہد سے متعلق ہے۔ جب اس جعلسازی اور غلط بیانی پر شدید تنقید ہوئی تو ترک نائب وزیر اعظم کو یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پڑی‘ البتہ سوشل میڈیائی فدائی دل و جان سے اس مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں‘ اور ایسی ایسی دل فگار تصاویر اور ویڈیوز سامنے لا رہے ہیں کہ روح تک کانپ اٹھتی ہے۔ ترک خاتون اوّل بنگلہ دیش کے دورے پر آئیں تو انہوں نے برما سے ہجرت کرکے آنے والے روہنگیا مسلمانوں کے کیمپ کا بھی دورہ کیا‘ مگر یار لوگوں نے ان تصویروں کو کچھ اس طرح سے پیش کیا کہ ترک خاتون اوّل روہنگیا اقلیت کی مدد کرنے برما جا پہنچی ہیں، سب سبحان اللہ کہہ کر شیئر کریں۔ سچ کہتے ہیں جنگ کے دوران سب سے پہلے سچ کی موت واقع ہوتی ہے۔ اس گتھی کے سلجھنے پر اطمینان کا سانس لینے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اس تاویل نے سارا سکون غارت کرکے رکھ دیا کہ تصویریں بیشک جھوٹی ہوں گی مگر روہنگیا مسلمانوں کی داستانِ خونچکاں تو سچی ہے۔
برما کی حکومت کہتی ہے: رخائن کے لوگ دہشت گرد ہیں، بستیاں فوج نہیں جلا رہی‘ بلکہ یہ سب ''حرکۃ الیقین‘‘ نامی دہشت گرد تنظیم کی کارستانی ہے‘ جس کی ڈور بیرونِ ملک بیٹھے ماسٹر مائنڈز کے ہاتھ میں ہے۔ جب فوج ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے لگتی ہے تو یہ انسانی آبادیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یوں بعض بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں۔ جہاں ایک اقلیت کو سالہا سال سے دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہو، وہاں ''حرکۃ الیقین‘‘ جیسے بندوق بردار گروہوں کا پیدا ہونا فطری سے بات ہے۔ البتہ اس بیانئے میں خاصی اپنائیت محسوس ہوئی اور یوں لگا جیسے یہ باتیں تو خاصی مانوس اور سنی سنی سی ہیں۔ جب یمن پر بمباری کی جاتی ہے اور فضائی حملوں میں عام افراد مارے جاتے ہیں تو تب بھی یہی جواز پیش کیا جاتا ہے ناں؟ اور شام میں برسہا برس سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی نسل کشی کے زمرے میں ہی آتا ہے ناں؟ عراق اور ترکی کی سرحد پر وطن کی تلاش میں مارے مارے پھرتے کُرد بھی تو روہنگیا ہیں اور اس یزدی قبیلے کے بارے میں کیا خیال ہے جو داعش کے نشانے پر ہے؟ زیادہ دور جانے کی کیا ضرورت ہے صاحب، بنگلہ دیش میں محصور بہاری بھی تو روہنگیا ہیں اور کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہزارہ برادری کے بارے میںکیا خیال ہے؟ کچھ کا تو میں نام بھی نہیں لے سکتا۔ سب کے اپنے اپنے روہنگیا ہیں۔ یہ ہمارے روہنگیا، وہ تمہارے روہنگیا۔ کوئی ان کو سمجھائے خون کے دھبے خون سے نہیں دھلتے۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں