"BGC" (space) message & send to 7575

نوازشریف کے ’’رتن‘‘

ان دنوں نیوزچینلز پر بھی فلمیں ہی چلائی جا رہی ہیں تو سوچا کیوں نہ ریاض پیرزادہ جیسی گھسی پٹی اور فلاپ فلمیں دیکھنے کے بجائے کوئی حقیقی فلم دیکھی جائے۔فلم کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوا تو پہلے سے دیکھی ہوئی فلم ''رونن فورٹی سیون‘‘کو نئے تناظر میں ایک مرتبہ پھر دیکھنے کا فیصلہ ہوا۔ ''رونن 47‘‘جاپان کی لوک داستان ہے۔18ویں صدی کی اس کہانی کو وفاداری اور قربانی کی لازوال داستان کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے ۔اس لوک داستان کے بارے میں کئی کتابیں لکھی گئیں اورپھر ہالی ووڈ نے فلم بھی بنائی۔یہ کہانی شروع ہوتی ہے جاپانی حکمران لارڈ آسانوکے دور حکومت سے ۔عدالتی اہلکار کیرالارڈ آسانو کی حکومت گرانا چاہتا ہے اور وہ ایک ایسی سازش تیار کرتا ہے کہ مقامی قوانین کے تحت لارڈ آسانوکو بھرے مجمع میں خودکشی کرنا پڑتی ہے۔لارڈ آسانو کے بعد اس کے وفاداروں اور چاہنے والوں کو چن چن کر گرفتار کیا جاتا ہے تاکہ کسی قسم کی بغاوت کا خدشہ باقی نہ رہے۔اسی اثناء میں لارڈ آسانو کے چند وفادار ساتھی ایک دوسرے سے حلف لیتے ہیں کہ جب تک لارڈ آسانو کے خلاف سازش کے مرکزی کردار کیرا کوانجام تک نہیں پہنچا لیتے ،چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ایک سال تک منصوبہ بندی کرنے اور مناسب موقع کی تلاش میں رہنے کے بعد یہ سامورائی کیرا کے محل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے آگے کھائی ہے تو پیچھے کنواںکیونکہ اگر وہ ناکام رہے تو دشمن کے ہاتھوں مارے جائیں گے اور اگر جیت گئے تو بھی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے انہیں بھرے مجمع میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگیاں ختم کرنا پڑیں گی۔موت کے خوف سے بے نیاز سامورائی جن کی تعداد 47ہے،اپنے رہنما لارڈ آسانوکے قاتل کیرا کا سر دھڑ سے جدا کر دیتے ہیں اور صبح ہونے سے پہلے یہ سر لیکر اپنے لیڈر لارڈ آسانو کی قبر پر پہنچتے ہیں اور پھر مقامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے خودکشی کر لیتے ہیں۔مگر ان کی قربانی کی بدولت لارڈ آسانو کی حکومت بحال ہو جاتی ہے۔ان وفاداروں کو بھی اپنے لیڈر کے ساتھ دفن کر دیا جاتا ہے۔ان 47وفادارجنگجوئوں کی قبریں آج بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں ،انہیں مقبرے کی شکل دے دی گئی ہے اور ہر سال 14دسمبر کو ان ''رونن فورٹی سیون‘‘ کی یاد میں ایک فیسٹول منایا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں لارڈ آسانو کی اڑچن یہ ہے کہ وفادار سامورائی تو انگلیوں کی پوروں پر گنے جا سکتے ہیں مگر کھوٹے سکے ان گنت ہیں۔ میںنے ریاض پیرزادہ کا ضمیر اچانک جاگنے کے بعد ان جیسوں کو شمار کرنے کی کوشش کی تو بہت دلچسپ انکشافات ہوئے۔مسلم لیگ (ن)کی صفوں میں اس وقت کم از کم 36ایم این اے ایسے ہیں جو کسی بھی نئی لیگ میں جا سکتے ہیں اور اگر یہ مسلم لیگ(ش) ہو تو ایسے ارکان کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔اگر بالترتیب ایسے ارکان کا جائزہ لیں جو وفاداری بدل کر نوازشریف کی صفوں میں شامل ہوئے ہیں تو سب سے پہلے سردار محمد یوسف کا ذکر آتا ہے جو نوازشریف کی کابینہ میں مذہبی امور کے وفاقی وزیر رہے۔پرویز مشرف کے دورِحکومت میں جب نوازشریف زیر عتاب تھے تو یہ صاحب مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے۔ان کے صاحبزادے سردار شاہجہان یوسف NA20مانسہرہ سے 2002ء اور 2008ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے اور پھر جب یہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے تو 2013ء کا الیکشن سردار یوسف نے خود شیر کے انتخابی نشان پر لڑا۔انجینئرامیر مقام NA31شانگلہ سے2002ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے،پرویز مشرف سے عقیدت بڑھی تو مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے اور 2008ء کا الیکشن سائیکل کے انتخابی نشان پر جیتا ۔2013ء میں شیر کے انتخابی نشان پر الیکشن تو ہار گئے مگر آجکل نوازشریف کی آنکھوں کا تارہ ہیں اور وزیر اعظم کے مشیر ہیں۔NA56راولپنڈی سے حنیف عباسی 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے ۔2008ء میں قاضی حسین احمد نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تومسلم لیگ(ن) میں شامل ہو گئے۔NA60چکوال سے میجر (ر) طاہر اقبال 2002ء میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے،2008ء میں ایاز امیر نے انہیں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حیثیت سے شکست دی ۔الیکشن کے بعد یہ صاحب مسلم لیگ(ن) میں آگئے تو 2013ء میں اس سیٹ پر انہیں ٹکٹ دیدیا گیا اور اب یہ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔NA63جہلم تھرڈ وہ حلقہ ہے جہاں سے 2002ء کے کڑے وقت میں بھی راجہ افضل کے صاحبزادے راجہ اسدخان نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی ،2008ء کے انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے مگر 2013ء میں یہاں سے امین الحسنات کو ٹکٹ دیا گیا جو اب وزیر مملکت ہیں۔NA74بھکر سے راشد اکبر نوانی 2002ء میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور 2008ء کے الیکشن میں شیر کے انتخابی نشان پر کامیاب ہوئے۔فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے حلقوں NA75,NA77,NA78سے بالترتیب غلام رسول ساہی ،عاصم نذیر اور رجب علی خان بلوچ2002ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے اور اب مسلم لیگ (ن)کے ایم این اے ہیں۔NA81فیصل آباد سے ڈاکٹر نثار احمد جٹ نے 2002ء کا الیکشن جیتنے کے بعد پیپلز پارٹی سے راہیں جدا کر لیں اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا حصہ بن گئے مگر 2013ء کے الیکشن میںشیر کے انتخابی نشان پر ایم این اے منتخب ہوئے۔غلام بی بی بھروانہ اور صائمہ اختر بھروانہ 2002ء کے انتخابات کے بعد بننے والی مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں شامل تھیں ،2008ء کا الیکشن بھی سائیکل کے نشان پر لڑا ۔2013ء میں شیر کا انتخابی نشان حاصل کیا،صائمہ اختر بھروانہ تو ہار گئیں مگر غلام بی بی بھروانہ NA88جھنگ کم چنیوٹ سے مسلم لیگ (ن) کی ایم این اے ہیں۔غلام محمد لالی جو پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے وہ NA87چنیوٹ کم جھنگ سے ایم این اے ہیں۔NA89جھنگ سے شیخ وقاص اکرم 2002ء اور 2008ء میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے کیونکہ ان کے والد الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے مگر 2013ء میں ان کا خاندان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گیا اور ان کے والد شیخ اکرم 2013ء میں شیر کے انتخابی نشان پر ایم این اے منتخب ہوئے۔NA90جھنگ سے صاحبزادہ نذیر سلطان 2008ء میں سائیکل کے انتخابی نشان پر ہار گئے تو 2013ء میں مسلم لیگ (ن) نے ٹکٹ دیدیا اور اب ایم این اے ہیں۔NA92ٹوبہ ٹیک سنگھ سے 2002ء میں امجد علی وڑائچ اور 2008ء میں ان کی اہلیہ فرخندہ جاوید مسلم لیگ (ق) کی ایم این اے ہوا کرتی تھیں۔ اب امجد وڑائچ کے بھائی خالد جاوید وڑائچ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔NA99گوجرانوالہ سے رانا عمر نذیر خان 2002ء میں سائیکل کے انتخابی نشان پر ایم این اے منتخب ہوئے ،2008ء میں ان کے والد رانا نذیر احمد نے شیر کے انتخابی نشان پر کامیابی حاصل کی اور 2013ء میں صاحبزادے عمر نذیر خان مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔NA114سیالکوٹ اور NA116نارووال سے بالترتیب زاہد حامد اور دانیال عزیز مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر جیتے اور اب مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں شامل ہیں۔یہ دونوں پرویز مشرف کی کابینہ میں شامل تھے اور اب بھی وفاقی وزیر ہیں۔چونکہ رتنوں کی تعداد بہت ہے اس لیئے باقی کی تفصیل اگلے کالم میںبیان کروں گا۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں