میں تو مجید امجد سے بھی زیادہ قسمت کا دھنی نکلا۔ مجید امجد کی '' شبِ رفتہ‘‘ میں ایک نظم ہے ''آٹو گراف‘‘! بہت بڑی نظم ہے! ان کی اکثر و بیشتر نظمیں اردو ادب کے حوالے سے تاریخ ساز نظمیں ہیں! یہ اور بات کہ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی نصابی کتابوں میں انہیں نظر انداز کیا گیا! بلکہ بلیک آؤٹ کیا گیا!اور کیا جا رہا ہے! اس لیے کہ کورس کی کتابیں ترتیب دینے والے بالشتیے ہیں! بونوں سے بھی قامت میں چھوٹے!! آنکھوں پر چربی کی موٹی تہیں ہیں! یہ چربی‘ تعصب کی چربی ہے! دماغ منجمد ہیں! علم سے ان مرتّبین کا اتنا ہی تعلق ہے جتنا قطبین میں جمی برف کا گرمی سے!
نظم کی طرف واپس آتے ہیں۔ نظم میں مجید امجد اپنا موازنہ اُن کھلاڑیوں سے کرتے ہیں جن کی ایک نگاہ کے لیے حسیناؤں کے جھرمٹ منتظر ہیں! منظر یہ ہے کہ خوبصورت لڑکیاں‘ ہاتھوں میں‘ آٹو گراف کاپیاں لیے‘ انتظار کر رہی ہیں! کوئی کھلاڑی جب آٹو گراف دیتے وقت کسی لڑکی کی کاپی پر لکھتا ہے تو ہونٹوں پر کھیلتی ہوئی شریر مسکراہٹیں جیسے رُک جاتی ہیں۔ مہندی لگے ہاتھوں کی نازک انگلیاں لرزنے لگتی ہیں! زر نگار دوپٹوں میں چھپی کلائیوں کی نبضیں جیسے تھم جاتی ہیں! نظم کی آخری سطور‘ نظم پڑھنے والے کو ہلا کر‘ رکھ دیتی ہیں!
وہ باؤلر ایک مہ وشوں کے جمگھٹے میں گھر گیا
وہ صفحہ ٔبیاض پر‘ بصد غرور‘ کلکِ گوہریں پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری
میں اجنبی میں بے نشاں
میں پا بہ گل!
نہ رفعتِ مقام ہے نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل... یہ لوحِ دل!
نہ اس پہ کوئی نقش ہے نہ اس پہ کوئی نام ہے
مگر میرے ساتھ معاملہ الٹ ہے! حالانکہ کہاں میں اور کہاں مجید امجد! وہ تو بہت بڑے شاعر اور بہت بڑے انسان تھے!
معلوم نہیں‘ کیکر کی چھاؤں میں رکھی‘ بان سے بُنی ہوئی کھردری چارپائی تھی یا درسگاہ کی چٹائی‘ جس پر بیٹھ کر دادا جان نے اپنی ڈائری میں‘ جو فارسی زبان میں لکھی جاتی تھی‘ ایک واقعے کا اندراج کیا تھا۔ بان سے بُنی چارپائی یا درسگاہ کی چٹائی اس لیے کہ نرم گرم بستر کو تو وہ صبحِ کاذب کے وقت ہی خدا حافظ کہہ دیتے تھے۔یہ نرم بستر واقعی نرم ہوتا تھا۔ اس لیے کہ یہ فوم کا میٹریس ہوتا تھا نہ سپرنگ میٹریس! یہ تو وہ گدّا ہوتا تھا جس میں سیروں کے حساب سے روئی بھری جاتی تھی۔ تب روئی دھننے والے‘ اپنا مخصوص آلہ کندھے پر اٹھائے‘ گلی گلی‘ شہر شہر‘ گاؤں گاؤں پھرا کرتے تھے۔ پنجابی میں اسے پینجا کہتے تھے۔ جب وہ روئی دھنتا تھا تو نہ صرف پرانی‘جُڑی ہوئی روئی کے ٹکڑے صاف ہو کر‘ برف کے گالوں کی طرح ہوا میں رقص کرتے تھے بلکہ اس کے آلے سے موسیقی کی دھنیں بھی نکلتی تھیں۔ ان دھنوں پر صوفیا کو حال بھی آتا تھا۔ روایت ہے کہ امیر خسرو اپنے شاگردوں اور عقیدتمندوں کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں دیکھا کہ روئی دھننے والا روئی دھن رہا ہے۔ایک شاگرد نے فرمائش کی کہ یہ تال یا سُر جو روئی دھننے والے کے آلے سے نکل رہی ہے‘ اسے آپ لفظوں میں کیسے ڈھالیں گے؟امیر خسرو نے فوراً اسے لفظوں کا جامہ پہنا دیا۔ انہوں نے کہا :
درپئے جاناں جاں ہم رفت‘ جاں ہم رفت‘ جاں ہم رفت
رفت رفت جاں ہم رفت‘ ایں ہم رفت و آں ہم رفت
آنہم رفت آنہم رفت‘ اینہم آنہم اینہم آنہم رفت
رفتن رفتن رفتن رفتن‘ دہ دہ رفتن دہ‘ رفتن دہ
دادا جان اور اُن کی قبیل کے لوگ عجیب تھے۔ یہ رات کے آخری پہر‘ روئی سے بھرے گدّے اور رضائیاں چھوڑ دیتے تھے۔اندھیری راتوں کو‘ پتھروں اور کیچڑ سے بھری گلیوں میں چل کر‘ مسجدوں کو جاتے تھے۔ پانی کبھی گرم ہوتا تھا کبھی نہیں!وضو کرتے تھے اور سر بسجود ہو جاتے تھے۔ ان کی اپنے پروردگار کے ساتھ ہاٹ لائن بچھی ہوتی تھی۔ درمیان میں کوئی نہیں ہوتا تھا۔ان کھدر پوشوں کے مشکل سے مشکل کام ہو جاتے تھے۔ درمیان میں رخنہ پڑتا تو یہ ہاٹ لائن پر رابطہ کرتے اور رخنہ ہوا میں تحلیل ہو جاتا! یہ لوگ نہتے ہوتے مگر کوئی ایسی غیر مرئی زرہ بکتر ان کے بدن پر تھی کہ حملوں میں اور بلاؤں میں اور آفتوں میں اور شرانگیزیوں میں محفوظ رہتے جیسے بتیس دانتوں میں زبان!
کھردرے بان سے بُنی ہوئی چارپائی تھی یا درسگاہ کی چٹائی جس پر بیٹھ کر انہوں نے روزنامچے میں اندراج کیا '' تاریخ پیدائش عزیزم محمد اظہارالحق خلف الرشید قاضی محمدظہورالحق‘ کہ نامِ تاریخء او غلام رسول است‘ مورخہ 3 ماہ ربیع الآخر 1367 ھ‘ مطابق 3 ماہ پھگن 2004 ب‘موافق 14 ماہ فروری 1948ء در شبِ شنبہ‘ اللہم زِد حیاتہ۔‘‘یعنی ربیع الثانی کی تیسری تاریخ تھی اور پھگن کی بھی تیسری تاریخ تھی اور فروری کی چودہ تاریخ تھی جب یہ معصیت کار عالمِ لاہوت سے عالم ِناسوت میں وارد ہوا۔ اُس گاؤں میں‘ جو پکی سڑک سے اُس زمانے میں دُور تھا‘ جہاں مردوں کی بھاری اکثریت تہمد پوش تھی‘ جہاں اکثر مکان کچے تھے‘ جہاں زیادہ گھر وہ تھے جن کے دروازے نہیں تھے‘جہاں ایک گھر میں چولہا جلتا تھا تو دوسرے گھروں میں اُسی گھر کے جلتے انگاروں سے چولہے جلتے تھے‘ جہاں دکانوں میں خرید و فروخت نقدی سے کم اور گندم سے زیادہ ہوتی تھی‘ جہاں حجام‘ درزی‘ کمہار‘ لوہار‘ بڑھئی‘ موچی اور جولاہے کو اس کی خدمات کی ادائیگی ربیع اور خریف کی فصلیں اترنے کے وقت‘ اناج کی صورت میں کی جاتی تھی‘ جہاں سفر گھوڑوں اور اونٹوں پر‘ یا پیدل‘ ہوتا تھا‘ جہاں سائیکل مرسڈیز کے برابر تھی‘ جہاں موٹر سائیکل کو ٹھَک ٹھَکّا کہا جاتا تھا اور کبھی ہفتوں بعد کوئی ٹھَک ٹھَکّا گاؤں سے گزرتا تھا تو لڑکے بالے دور تک اس کے پیچھے بھاگتے تھے‘ ہاں اُسی گاؤں میں بیٹھے ہوئے دادا کو‘ جو روزنامچہ فارسی میں لکھتے تھے‘ کیا معلوم تھا کہ چودہ فروری کے دن پیدا ہونے والے اُن کے پوتے کا جنم دن پوری دنیا میں منایا جائے گا! اُس دن پھول ہی پھول ہوں گے‘ رنگ ہی رنگ ہوں گے‘اُس کی سالگرہ منانے میں‘ امریکہ اور انگلستان اور جرمنی اور ڈنمارک اور دوسرے کئی ملکوں کی‘ سنہری زلفوں والی‘ زہرہ وشیں آگے بڑھ بڑھ کر حصہ لیں گی! بے خود ہو کر رقص کریں گی! جن کی مجھ تک رسائی نہ ہو گی‘ وہ مبارک کے کارڈ ایک دوسرے کو دیں گے! جاپان سے لے کر لاس اینجلس تک ایک غلغلہ برپا ہو گا! مجید امجد یہ حسرت لے کر دنیا سے رخصت ہو گئے کہ ان کی لوحِ دل پہ کوئی نقش ہے نہ نام! مگر میں‘ جو ان کے سامنے ایسا ہی ہوں جیسے آفتاب کے سامنے ذرّہ‘ میری تو ہر چودہ فروری کو خوب خوب پذیرائی ہوتی ہے!
حسد کرنے والوں کا کوئی علاج نہیں! میری سالگرہ پر یہ جو پوری دنیا میں مبارک سلامت کا شور برپا ہوتا ہے اور پھولوں اور رنگوں اور خوشبوؤں کی‘ افق تا افق‘ بہار آجاتی ہے اور ہر اقلیم اور ہر ولایت میں خوشی منائی جاتی ہے‘ تو کچھ حاسد اور بداندیش اور بدخواہ میری اس عالمگیر پذیرائی کی قدرو قیمت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں! وہ اس جشن کو ایک نصرانی راہب‘ ویلنٹائن‘ سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ پادری'' روم کا ویلنٹائن‘‘ کہلاتا تھا۔ تیسری صدی عیسوی میں اسے قتل کر دیا گیا اور پانچویں صدی عیسوی کے اواخر میں اُس وقت کے پوپ نے اس کا نام اولیایعنیSaintsکی فہرست میں شامل کر دیا! متعدد عیسائی فرقے چودہ فروری کا دن '' سینٹ ویلنٹائن ڈے‘‘ کے طور پر مناتے ہیں لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ اس دن‘ پوری دنیا میں میری ہی سالگرہ منائی جاتی ہے۔