جس دن امریکی صدر جو بائیڈن نے‘ بغیر کوئی لفظ چبائے‘ صاف اور واشگاف الفاظ میں اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور حماس کے خلاف زہر اگلا تھا‘ اس سے ٹھیک اگلے دن‘ پچپن مسلمان ملکوں کو چاہیے تھا کہ اپنے اپنے سفیر واشنگٹن ڈی سی سے واپس بلا لیتے اور امریکی سفیروں کو رخصت کر دیتے!
مگر یہ کیسے ہو سکتا تھا! یہ ناممکن تھا! اس لیے کہ یہ پچپن مسلمان ملک راکھ کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں! ان کی اس کرۂ ارض پر وہی حیثیت ہے جو محل کے باہر باڑے کی ہوتی ہے۔ باڑے میں جو مخلوقات رکھی جاتی ہیں یا باندھی جاتی ہیں انہیں ان فیصلوں میں نہیں شریک کیا جاتا جو محل کے اندر کیے جاتے ہیں۔ باڑے میں بند‘ بندھی ہوئی ان مخلوقات پر جتنا بھی ظلم ہو‘ یہ کبھی آپس میں اتحاد نہیں کرتیں! یہ ہمیشہ محل کی اور محل والوں کی دست نگر رہتی ہیں! یہ امریکہ کی اسرائیل پرستی کا کیا جواب دیں گے ! یہ تو وہ ہیں جنہیں فرنگی زبان میں Vegetables کہتے ہیں ! اپنی کوئی سوچ نہیں! کوئی منصوبہ بندی نہیں! کوئی دماغ نہیں! یہ ایک ریوڑ ہے جس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے! ریوڑ کی تعداد جتنی بھی بڑھے‘ وہ ریوڑ ہی رہتا ہے! وہ کبھی مالک کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا۔ یہ بھیڑوں کا گلہ ہے جسے بڑی طاقتیں ہانک رہی ہیں۔ بھیڑیں منہ نیچے کیے‘سر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کرتیں‘ چلی جا رہی ہیں! آہ ! یہ بھیڑیں ! یہ بکریاں! مجید امجد نے ان پچپن ملکوں کی کیا تصویر کَشی کی ہے !
ناچتی ڈار ممکتے ہوئے بزغالوں کی
ہر جھکی شاخ کی چوکھٹ پہ ٹھٹک جاتی ہے
سان پر لاکھ چھری‘ سیخ پہ صد پارۂ گوشت
پھر بھی مدہوش غزالوں کی یہ ٹولی ہے کہ جو
بار بار اپنے خطِ رہ سے بھٹک جاتی ہے
یہ امریکہ کے سامنے خم ٹھونک کر کیا کھڑے ہوں گے ! یہ غزہ کے بچوں کی کیا حفاظت کریں گے! ان میں سے کچھ'' غیرت مند‘‘ تو وہ ہیں جن کے ہوائی اڈوں سے امریکی بمبار طیارے اُڑ کر عراق اور افغانستان پر موت پھینکتے تھے! کچھ ان میں اس قدر ''خود مختار‘‘ ہیں کہ ان کی سرزمینوں پر استعمار کی چوکیاں ( Bases )قائم ہیں! یہ تو کھانسنے سے پہلے اور چھینکنے سے پہلے اور کہیں جانے سے پہلے اور کسی سے دشمنی کرنے سے پہلے اور کسی سے دوستی کرنے سے پہلے اوقیانوس کے پار دیکھتے ہیں اور پھر جو کہا جائے وہی کرتے ہیں! ان پچپن ملکوں کے سربراہ جس معیار کی زندگیاں گزار رہے ہیں وہ معیار‘ زمین پر جنت سے کم نہیں! مگر اپنے اپنے عوام کے لیے انہوں نے گڑھے کھودنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔تعلیم‘ صحت‘ جمہوریت‘ قانون کی برتری‘ پولیس کی آزادی اور غیر جانبداری‘کچھ بھی مہیا نہیں کیا! پچپن مسلمان ملکوں کے عوام کی ارضِ موعود (Promised Land) امریکہ ہے! کروڑوں وہاں پہنچ کر بس چکے ہیں۔ کروڑوں ویزوں کے لیے کشکول اٹھائے منتظر ہیں۔عبرت کا مقام ہے۔ ماتم کا مقام ہے اور شرم کا مقام ہے کہ ان پچپن ملکوں میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جو امریکہ اور یورپ جانے والوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکے! اپنے عوام کی زندگیاں ناقابلِ رشک بنانے والے کوتاہ نظر اور کور چشم حکمران غزہ کے مصیبت زدگان کی کیا مدد کریں گے! غزہ کے ارد گرد رہنے والے‘ اسرائیل سے خائف نہیں مگر غزہ کے شہیدوں اور مجاہدوں سے ضرور خوف زدہ ہیں! یہ غزہ کے محصور مظلوموں کی کیا مدد کریں گے یہ تو ایک تلوار‘ ایک بندوق‘ ایک ٹینک‘ ایک ہوائی جہاز یہاں تک کہ ایک گولی بھی غزہ والوں کو نہیں دے سکتے! کیا فلسطینیوں کو وہ بریگیڈیر یاد نہیں جس نے اردن میں رہ کر سینکڑوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا؟ اسی قتل عام کے بدلے میں ہی تو اوقیانوس پار کی سرکار نے اس بریگیڈیر کو جنرل بنواکر ملک کے منصبِ صدارت پر متمکن کرا دیا تھا!
ارض فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے صلاح الدین ایوبی بننا پڑتا ہے! صلاح الدین ایوبی بننے کے لیے زندگی گھوڑے کی پیٹھ پر گزارنی پڑتی ہے! کھانا سپاہیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا پڑتا ہے! جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے! زمین پر سونا پڑتا ہے! سونے کی بنی ہوئی گاڑیوں‘ کمخواب سے سجی ہوئی خوابگاہوں اور آرڈر پر بنوائے ہوئے خواب آور طیاروں میں ہلکورے لینے والے فلسطین کو کیا آزاد کرائیں گے۔ جن حکمرانوں کی زندگی کا مقصد لندن‘ نیویارک‘ پیرس‘ دبئی‘بارسلونا اور بہاما میں محلات‘ کوٹھیوں اور فلیٹوں کا حصول ہو‘ جن کی ذریتیں پیدائش سے پہلے کھرب پتی ہو جاتی ہوں اور جن کے دسترخوانوں پر مسلّم مرغوں‘ بکروں‘ دنبوں اور اونٹوں کے انبار لگے ہوں‘ وہ امریکہ کے زر خرید تو ہو سکتے ہیں‘ مظلوموں کے نجات دہندہ نہیں ہو سکتے!اقبال نے کہا تھا فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے۔ آج اسرائیل کی رگِ جاں امریکہ کی حفاظت میں ہے۔ آج امریکہ اسرائیل کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے تو صیہونیت ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے۔مگر جب مسلمان ملک امریکہ کی دہلیز پر بیٹھے ہوں تو وہ اسرائیل کی مدد سے ہاتھ کیوں کھینچے !! پروفیسر ڈاکٹر ناہید قمر کی دلخراش نظم پڑھتے ہوئے غزہ کے مظلوموں کی چیخیں تیر کی طرح دل میں پیوست ہو جاتی ہیں !!
مٹی کی سرخ رنگت
احد تمیمی /یہ خواب ہے یا کوئی اشارہ/کسی بہت محترم زمانے کی برجیوں سے جھڑے ہوئے وقت کے برادے میں کتنی صدیوں کی برگزیدہ نشانیاں ہیں/گھنے درختوں میں سانس لیتے قُدس کے اطراف ملگجا سا ہے پہر کوئی/چراغ جیسے کہیں کوئی آخری دموں پر/مگر اندھیرے کی سرد شدت/میرے تمہارے دلوں کی مٹی کی سرخ رنگت بتا رہی ہے/بشارتِ نور کا زمانہ قریب تر ہے/معاہدوں کے بریدہ اوراق پر سیاہی کے سلسلے کو کبھی خوارج کہیں امامت کے مسئلوں نے دراز رکھا /مگر غنیمت ہے اس قدر بھی /بہت دنوں سے گرہ جو قصے کے خط کشیدہ بیانیے میں پڑی ہوئی تھی /وہ خون آلود ننھے ننھے سے ناخنوں پر لکھی ملامت نے کھول دی ہے/اے انبیاکی زمیں کی وارث/تم اپنے جیسے ہزاروں سینوں میں جلتے شعلے کی روشنی کا وہ دائرہ ہو/جسے زمانے کی سب سے تاریک شب ملی ہے/تمہارا ہونا ہی غاصبوں کے اندھیرے ذہنوں کو تازیانہ ہے حریت کا/احد تمیمی‘بصد ندامت مجھے بھی مجھ جیسے دوستوں میں شمار کر لو/دلوں میں جن کے غزہ کے بچوں کے ادھڑے جسموں کی دھجیوں سے/یروشلم میں گھروں کے ملبے پہ تمکنت سے شہید بیٹوں کو بوسہ دیتی ضعیف ماؤں کے آنسوؤں سے/بچھا ہے ماتم کا فرش لیکن /دعا پہ تکیہ کیے جو چپ چاپ رب کی نصرت کے منتظر ہیں/مگر یہ تاریخ کا کٹہر/ جہاں مبرا ہوا ہے جرمِ مفاہمت سے/نہ مجھ سے پہلے نہ بعد کوئی / یہاں ہزیمت کا زخم چپ کے نمک سے ناسور بن چکا ہے/ستم ظریفی کے آئینے میں /صفوں میں دونوں طرف اگرچہ ہمیں ہیں شاید/مگر فلسطین ہر مسلماں کی روح کا سرخ منطقہ ہے/بھلے ہم ایمان اور محبت کی حدِ آخر پہ ہی کھڑے ہوں /تمہاری شہ رگ کے گرد حائل کسی شکنجے میں دل ہمارے بھی جھولتے ہیں /ہم ان کے شر سے بھی آشنا ہیں / جو ارضِ موعود کے بہانے خدا کی لکھی حدود پامال کرتے کرتے فصیلِ گریہ کے منہدم کناروں تک آ گئے ہیں /مگر زمینوں پہ اور دلوں میں کھنچی ہوئی ایسی سب لکیروں کا زائچہ اب کے مختلف ہے/احد تمیمی‘ یقین رکھو یہ جو ہمارے گھروں‘ مساجد پہ/درسگاہوں پہ بے محابا برس رہی ہے/ہے شاخِ زیتون جس کی زد میں /جو فاختاؤں کے پر بھی‘گھر بھی جلا رہی ہے/یہ آگ اس بار صرف حیفہ کے ساحلوں تک نہیں رُکے گی !